اداریہ
آج امت مسلمہ انگنت مسائل سے دوچار ہے جن میں جنگ وجدال ، قتل وغارت گری ، شروفساد، بدامنی ، معاشی ومعاشرتی بدحالی ، بزدلی وغیرہ شامل ہیں ۔ جبکہ اسلام کے معنی ہی امن وسلامتی کے ہیں یعنی اسلام قبول کرنے والا ہمیشہ کیلئے امن وسلامتی میں داخل ہوجاتا ہے ایسے سایہ دار درخت تلے آ جاتا ہے جس میں وہ اپنی زندگی نہایت امن وعافیت سے گزار سکتا ہے کیونکہ یہی مذہب انسانی فلاح ونجات کا ضامن اور صراط مستقیم ہے ۔ یہ اسلام ہی کی برکات ہیں جو اپنے ماننے والے کو رشتہ اخوت میں پرودیتا ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿إِنَّمَا ال٘مُؤ٘مِنُو٘نَ إِخ٘وَۃٌ﴾ (الحجرات :۱۰)’’ مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔‘‘ مسلمان ہوتا ہی وہ ہے جس کے شروفساداور آذاء وتکالیف سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے ۔ جیسا کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے : ’’اَل٘مُس٘لِمُ مَن٘ سَلِمَ ال٘مُس٘لِمُو٘نَ مِن٘ لِسَانِہِ وَیَدِہِ ۔‘‘ ( رواہ البخاری )’’ مسلمان تو وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ کی تکلیف سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں ۔ ‘‘
اسی مضمون کے تحت بے شمار احادیث مبارکہ موجود ہیں جن کے مطالعہ سے یہ حقیقت کھل کرعیاں ہوتی ہے کہ اسلام ہی امن وشانتی کا دین ہے ۔مگر غور طلب بات یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ آج ایک مسلمان ہی دوسرے مسلمان کی جان کے درپے ہے ، آج مسلمان ہی مسلمان سے دست وگریباں ہے ۔ اور مسلمان ہوتے ہوئے بھی مسلمانوں ہی کا خون بہانے سے دریغ نہیں کرتے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب ریاست میں ظلم ونا انصافی کا بازار گرم ہوجاتا ہے اور غربت ، مہنگائی وبے روزگأری اپنی انتہاپر پہنچ جاتی ہے تو وطن عناصر ایک طرف معاشرے کے پسے ہوئے اور بے حال طبقے کے لوگوں کو دھونس ، دھمکی اور پیسوں کا لالچ دے کر اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہیں ، تو دوسری جانب انتظامی محکموں کے کرپٹ لوگوں کو اپنا زرخرید غلام بنا کردہشت گردوں کو کھل کر کھیلنے کا موقع فراہم کرتے ہیں ۔ وقت آ گیا ہے کہ حکومت نہ صرف مہنگائی کے سیلاب کے آگے بند باندھے بلکہ ریاستی محکموں بالخصوص محکمہ میں تطہیر کا عمل شروع کرے اور سب سے بڑ ھ کر اس امریکہ سے جان چھڑ ائے جس کی وجہ سے آج پاکستان میں جگہ جگہ انگارے بوئے جا رہے ہیں ۔مگر وائے افسوس کہ ہمارے حکمران اغیار وکفار کے ہم پیالہ وہم نوالہ بن کر اپنے کلمہ گو مسلمانوں کی جانوں سے کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ کافروں سے دوستی پر فخر کرتے ہیں جبکہ رب تعالیٰ کافرمان ہے : ﴿وَمَنْ یَتَوَلَّہُمْ مِنْکُمْ فَإِنَّہُ مِنْہُمْ ﴾(المائدۃ:۵۱)’’ جو کافروں کی طرف مائل ہوا اور ان سے دوستی کی گویا کہ وہ انہی میں سے ہے ۔‘‘
آج مسلمان اپنے تئی جتنی بھی کوشش کر لیں ، اپنے ہی نہتے مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگ لیں اپنے اقدار، ثقافت، تہذیب وتمدن اور اپنے نفس کو یہود ونصاریٰ کے جتنے بھی تابع کر لیں رب تعالیٰ کافرمان بجا اور برحق ہے کہ ﴿وَلَنْ تَرْضَی عَنْکَ الْیَہُودُ وَلَا النَّصَارَی حَتَّی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمْ﴾ (البقرۃ:۱۲۰) ’’یہود ونصاریٰ تم سے ہرگز راضی نہ ہونگیں جب تک تم ان کے دین کی پیروی نہیں کرو گے ۔ ‘‘
یہی وجہ ہے کہ اگر آج کوئی مسلمان اپنے دفاع کیلئے ہتھیار اٹھائے تو اسے دہشتگرد، انتہا پسنداور سنگدل کہہ کر اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے جبکہ اس کے برعکس اگر ہندوستان نہتے کشمیریوں پر ظلم وجبر کے پہاڑ گرائے تو وہ اس کا حق تسلیم کیا جاتا ہے ۔ اسرائیل اگر نہتے فلسطینوں پر زور آزمائے تو وہ بھی اس کا حق ہوتا ہے اسی طرح آج پوری دنیا میں غیر مسلموں کو اجازت ہے کہ وہ جہاں چاہیں جب چاہیں مسلمانوں پر ظلم وزیادتی کرسکتے ہیں اور ان کی پشت پر دنیا کی استبدادی قوتیں ہمہ تن موجود ہوتیں ہیں ۔ لمحہ فکر یہ ہے کہ آج اقوام عالم میں یہ کڑ ا وقت مسلمانوں ہی پر کیوں آیا ہے ؟وجہ صاف ظاہر ہے کہ آج مسلمان مسلمان نہیں رہا وہ آج اپنے ضمیر کے ساتھ اپنا ایمان بھی فروخت کر چکا ہے اسلام نے تو اسے یہ تعلیم دی تھی کہ مسلمان تو وہ ہے جس کے ہاتھ وزبان سے دوسرے مسلمان کی عزت وآبرو محفوظ ہو اور ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہے ۔ اگر دنیا میں امن وسلامتی کی اشاعت ممکن ہے تو وہ اسلام ہی کے ذریعے ممکن ہے کیونکہ امن سلامتی سے مشروط ہے اور اگر عداوت ودشمنی اور افتراق وانتشار کی دیوار منہدم کرنی ہے تو یہ سب ایمان سے مربوط ہے جتنا زیادہ ایمان پختہ ہو گا اتنا ہی امن اور وحدت انسانیت کا پرچار ہو گا آج مسلمانوں میں ایمان ہی کی کمی ہے جس کی وجہ سے وہ افتراق وانتشار اور بے بسی وبے راہ روی جیسے مسائل سے دوچار ہیں جبکہ اللہ کی طرف سے بشارت ہے کہ جولوگ ایمان لائیں اور اس میں کسی قسم کی ملاوٹ نہ کریں تو وہ لوگ امن میں ہیں ۔ کیا وجہ تھی کہ جو ریگستان کے صحرائی خیموں میں سوتے ، خشک کھجوریں کھاتے اور اونٹوں کو چراتے تھے اللہ نے ان کو اس زمین کا حاکم بنا دیا اور اپنی بے شمار نعمتوں سے نوازا یہ اللہ نے انہیں صلہ دیا تھا ان کے ایمان کامل کا، ان کے عدل وانصاف کا ، ان کی دور اندیشی اور مساوات کا کیونکہ انسان کی فلاح وکامیابی ایمان وعمل صالح پر موقوف ہے انسان ان کو اپنا کر دین ودنیا کی تمام مشکلات ومصائب سے نجات حاصل کرسکتا ہے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کر سکتا ہے ایمان وعمل صالح، سچائی ، دیانت وامانتداری ، عدل وانصاف ، ایثار وخلوص سے ، خلق خدا کی خدمت اور خالق کائنات کی عبادت سے ۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے : ﴿وَعَدَ اللَّہُ الَّذِینَ آَمَنُوا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْأَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِینَہُمُ الَّذِی ارْتَضَی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِہِمْ أَمْنًا یَعْبُدُونَنِی لَا یُشْرِکُونَ بِی شَیْئًا وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذَلِکَ فَأُولَئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُونَ ﴾(النور:۵۵)
’’ایمان والوں اور عمل صالح کرنے والوں سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور ملک کا حاکم بنائے گا جیسا کہ ان لوگوں کو بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقینا ان کیلئے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کر کے جمادے گا جیسے ان کیلئے پسند فرما چکا ہے اور ان کے خوف وخطر کو امن وامان سے بدل دے گا اگر یہ میری ہی عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے اور جو اس کے بعد میری ناشکری کرے گاوہ یقینا نافرمان ہے ۔ ‘‘
اگر مسلمان آج بھی اپنے مقام ومرتبہ کو سمجھ لیں تو یقینا وہ ان بشارتوں سے مستفید ہو سکتے ہیں اللہ ان کو بادشاہتیں اور حکومتیں عطا کرے گا اور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا ۔ یہ ہمارے ایمان کی کمزوری ہے کہ آج مسلمان یہود ونصاری سے لرزاں ہیں ۔انصاف کی بات یہ ہے کہ یہ دین کسی طرح کی مدحت سرائی کا محتاج نہیں بلکہ اپنی سچائی اور حقیقت کی وجہ سے ہر دور میں ہر ایک کیلئے یکساں مفید ہے ۔ جواس پر عمل پیرا ہو گا وہی اس کے محاسن سے مستفید ہو گا اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرمایا : ﴿اُد٘خُلُو٘افِی٘ السِّل٘مِ کَآفَّۃً﴾(البقرۃ:۲۰۸) ’’ کہ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ ۔ ‘‘
یہ برکات اور محاسن اسی وقت میسر ہوں گیں جب مسلمان صحیح معنوں میں مسلمان بن جائیں گے اور مسلمان بننا اتنا آسان نہیں جتنا لوگ سمجھتے ہیں اس لئے اب صرف ہمارے نام مسلمانوں جیسے رہ گئے ہیں اور کام تو سارے ہی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آج مسلمانوں کے تمام رسم ورواج ہندوانہ یا پھر مغربی طرز (یہودی وعیسائی) پر ہیں حتی کہ رہن سہن میں بھی کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی طرح ہم ان (غیر مسلموں )سے پیچھے نہ رہ جائیں بلکہ اب تو میڈیا نے اس نوجوان نسل کے لب ولہجہ کو بھی ہندوانہ بنا دیا ہے یہ ہے آج کا مسلمان ’’جسے دیکھ کر شرمائیں یہود ‘‘ جس کا نام مسلمانوں والا ہے جس کی فجر کی نماز بستر پر ، ظہر کی دفتر میں (ضائع ہوتی ہے ) ، عصر کی شام کی چائے میں ، مغرب کی راستے میں ، اور عشاء ٹی وی کے سامنے ہوتی ہے ۔ یہی ہے آج کا مسلمان جو قرآن وحدیث سے بیگانہ اپنی دنیا میں مست اور اپنے انجام سے بے خبر ، ناجانے کس معجزہ کے انتظار میں ہے ۔ شاید یہ اپنے مسلمانوں والے نام پر ہی اکتفاء کربیٹھا ہے ۔محض زبان قال سے لا إلہ پڑ ھ کر کوئی صاحب ایمان نہیں ہوجاتا۔ ع
آج امت مسلمہ انگنت مسائل سے دوچار ہے جن میں جنگ وجدال ، قتل وغارت گری ، شروفساد، بدامنی ، معاشی ومعاشرتی بدحالی ، بزدلی وغیرہ شامل ہیں ۔ جبکہ اسلام کے معنی ہی امن وسلامتی کے ہیں یعنی اسلام قبول کرنے والا ہمیشہ کیلئے امن وسلامتی میں داخل ہوجاتا ہے ایسے سایہ دار درخت تلے آ جاتا ہے جس میں وہ اپنی زندگی نہایت امن وعافیت سے گزار سکتا ہے کیونکہ یہی مذہب انسانی فلاح ونجات کا ضامن اور صراط مستقیم ہے ۔ یہ اسلام ہی کی برکات ہیں جو اپنے ماننے والے کو رشتہ اخوت میں پرودیتا ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿إِنَّمَا ال٘مُؤ٘مِنُو٘نَ إِخ٘وَۃٌ﴾ (الحجرات :۱۰)’’ مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔‘‘ مسلمان ہوتا ہی وہ ہے جس کے شروفساداور آذاء وتکالیف سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے ۔ جیسا کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے : ’’اَل٘مُس٘لِمُ مَن٘ سَلِمَ ال٘مُس٘لِمُو٘نَ مِن٘ لِسَانِہِ وَیَدِہِ ۔‘‘ ( رواہ البخاری )’’ مسلمان تو وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ کی تکلیف سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں ۔ ‘‘
اسی مضمون کے تحت بے شمار احادیث مبارکہ موجود ہیں جن کے مطالعہ سے یہ حقیقت کھل کرعیاں ہوتی ہے کہ اسلام ہی امن وشانتی کا دین ہے ۔مگر غور طلب بات یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ آج ایک مسلمان ہی دوسرے مسلمان کی جان کے درپے ہے ، آج مسلمان ہی مسلمان سے دست وگریباں ہے ۔ اور مسلمان ہوتے ہوئے بھی مسلمانوں ہی کا خون بہانے سے دریغ نہیں کرتے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب ریاست میں ظلم ونا انصافی کا بازار گرم ہوجاتا ہے اور غربت ، مہنگائی وبے روزگأری اپنی انتہاپر پہنچ جاتی ہے تو وطن عناصر ایک طرف معاشرے کے پسے ہوئے اور بے حال طبقے کے لوگوں کو دھونس ، دھمکی اور پیسوں کا لالچ دے کر اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہیں ، تو دوسری جانب انتظامی محکموں کے کرپٹ لوگوں کو اپنا زرخرید غلام بنا کردہشت گردوں کو کھل کر کھیلنے کا موقع فراہم کرتے ہیں ۔ وقت آ گیا ہے کہ حکومت نہ صرف مہنگائی کے سیلاب کے آگے بند باندھے بلکہ ریاستی محکموں بالخصوص محکمہ میں تطہیر کا عمل شروع کرے اور سب سے بڑ ھ کر اس امریکہ سے جان چھڑ ائے جس کی وجہ سے آج پاکستان میں جگہ جگہ انگارے بوئے جا رہے ہیں ۔مگر وائے افسوس کہ ہمارے حکمران اغیار وکفار کے ہم پیالہ وہم نوالہ بن کر اپنے کلمہ گو مسلمانوں کی جانوں سے کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ کافروں سے دوستی پر فخر کرتے ہیں جبکہ رب تعالیٰ کافرمان ہے : ﴿وَمَنْ یَتَوَلَّہُمْ مِنْکُمْ فَإِنَّہُ مِنْہُمْ ﴾(المائدۃ:۵۱)’’ جو کافروں کی طرف مائل ہوا اور ان سے دوستی کی گویا کہ وہ انہی میں سے ہے ۔‘‘
آج مسلمان اپنے تئی جتنی بھی کوشش کر لیں ، اپنے ہی نہتے مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگ لیں اپنے اقدار، ثقافت، تہذیب وتمدن اور اپنے نفس کو یہود ونصاریٰ کے جتنے بھی تابع کر لیں رب تعالیٰ کافرمان بجا اور برحق ہے کہ ﴿وَلَنْ تَرْضَی عَنْکَ الْیَہُودُ وَلَا النَّصَارَی حَتَّی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمْ﴾ (البقرۃ:۱۲۰) ’’یہود ونصاریٰ تم سے ہرگز راضی نہ ہونگیں جب تک تم ان کے دین کی پیروی نہیں کرو گے ۔ ‘‘
یہی وجہ ہے کہ اگر آج کوئی مسلمان اپنے دفاع کیلئے ہتھیار اٹھائے تو اسے دہشتگرد، انتہا پسنداور سنگدل کہہ کر اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے جبکہ اس کے برعکس اگر ہندوستان نہتے کشمیریوں پر ظلم وجبر کے پہاڑ گرائے تو وہ اس کا حق تسلیم کیا جاتا ہے ۔ اسرائیل اگر نہتے فلسطینوں پر زور آزمائے تو وہ بھی اس کا حق ہوتا ہے اسی طرح آج پوری دنیا میں غیر مسلموں کو اجازت ہے کہ وہ جہاں چاہیں جب چاہیں مسلمانوں پر ظلم وزیادتی کرسکتے ہیں اور ان کی پشت پر دنیا کی استبدادی قوتیں ہمہ تن موجود ہوتیں ہیں ۔ لمحہ فکر یہ ہے کہ آج اقوام عالم میں یہ کڑ ا وقت مسلمانوں ہی پر کیوں آیا ہے ؟وجہ صاف ظاہر ہے کہ آج مسلمان مسلمان نہیں رہا وہ آج اپنے ضمیر کے ساتھ اپنا ایمان بھی فروخت کر چکا ہے اسلام نے تو اسے یہ تعلیم دی تھی کہ مسلمان تو وہ ہے جس کے ہاتھ وزبان سے دوسرے مسلمان کی عزت وآبرو محفوظ ہو اور ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہے ۔ اگر دنیا میں امن وسلامتی کی اشاعت ممکن ہے تو وہ اسلام ہی کے ذریعے ممکن ہے کیونکہ امن سلامتی سے مشروط ہے اور اگر عداوت ودشمنی اور افتراق وانتشار کی دیوار منہدم کرنی ہے تو یہ سب ایمان سے مربوط ہے جتنا زیادہ ایمان پختہ ہو گا اتنا ہی امن اور وحدت انسانیت کا پرچار ہو گا آج مسلمانوں میں ایمان ہی کی کمی ہے جس کی وجہ سے وہ افتراق وانتشار اور بے بسی وبے راہ روی جیسے مسائل سے دوچار ہیں جبکہ اللہ کی طرف سے بشارت ہے کہ جولوگ ایمان لائیں اور اس میں کسی قسم کی ملاوٹ نہ کریں تو وہ لوگ امن میں ہیں ۔ کیا وجہ تھی کہ جو ریگستان کے صحرائی خیموں میں سوتے ، خشک کھجوریں کھاتے اور اونٹوں کو چراتے تھے اللہ نے ان کو اس زمین کا حاکم بنا دیا اور اپنی بے شمار نعمتوں سے نوازا یہ اللہ نے انہیں صلہ دیا تھا ان کے ایمان کامل کا، ان کے عدل وانصاف کا ، ان کی دور اندیشی اور مساوات کا کیونکہ انسان کی فلاح وکامیابی ایمان وعمل صالح پر موقوف ہے انسان ان کو اپنا کر دین ودنیا کی تمام مشکلات ومصائب سے نجات حاصل کرسکتا ہے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کر سکتا ہے ایمان وعمل صالح، سچائی ، دیانت وامانتداری ، عدل وانصاف ، ایثار وخلوص سے ، خلق خدا کی خدمت اور خالق کائنات کی عبادت سے ۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے : ﴿وَعَدَ اللَّہُ الَّذِینَ آَمَنُوا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْأَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِینَہُمُ الَّذِی ارْتَضَی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِہِمْ أَمْنًا یَعْبُدُونَنِی لَا یُشْرِکُونَ بِی شَیْئًا وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذَلِکَ فَأُولَئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُونَ ﴾(النور:۵۵)
’’ایمان والوں اور عمل صالح کرنے والوں سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور ملک کا حاکم بنائے گا جیسا کہ ان لوگوں کو بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقینا ان کیلئے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کر کے جمادے گا جیسے ان کیلئے پسند فرما چکا ہے اور ان کے خوف وخطر کو امن وامان سے بدل دے گا اگر یہ میری ہی عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے اور جو اس کے بعد میری ناشکری کرے گاوہ یقینا نافرمان ہے ۔ ‘‘
اگر مسلمان آج بھی اپنے مقام ومرتبہ کو سمجھ لیں تو یقینا وہ ان بشارتوں سے مستفید ہو سکتے ہیں اللہ ان کو بادشاہتیں اور حکومتیں عطا کرے گا اور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا ۔ یہ ہمارے ایمان کی کمزوری ہے کہ آج مسلمان یہود ونصاری سے لرزاں ہیں ۔انصاف کی بات یہ ہے کہ یہ دین کسی طرح کی مدحت سرائی کا محتاج نہیں بلکہ اپنی سچائی اور حقیقت کی وجہ سے ہر دور میں ہر ایک کیلئے یکساں مفید ہے ۔ جواس پر عمل پیرا ہو گا وہی اس کے محاسن سے مستفید ہو گا اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرمایا : ﴿اُد٘خُلُو٘افِی٘ السِّل٘مِ کَآفَّۃً﴾(البقرۃ:۲۰۸) ’’ کہ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ ۔ ‘‘
یہ برکات اور محاسن اسی وقت میسر ہوں گیں جب مسلمان صحیح معنوں میں مسلمان بن جائیں گے اور مسلمان بننا اتنا آسان نہیں جتنا لوگ سمجھتے ہیں اس لئے اب صرف ہمارے نام مسلمانوں جیسے رہ گئے ہیں اور کام تو سارے ہی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آج مسلمانوں کے تمام رسم ورواج ہندوانہ یا پھر مغربی طرز (یہودی وعیسائی) پر ہیں حتی کہ رہن سہن میں بھی کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی طرح ہم ان (غیر مسلموں )سے پیچھے نہ رہ جائیں بلکہ اب تو میڈیا نے اس نوجوان نسل کے لب ولہجہ کو بھی ہندوانہ بنا دیا ہے یہ ہے آج کا مسلمان ’’جسے دیکھ کر شرمائیں یہود ‘‘ جس کا نام مسلمانوں والا ہے جس کی فجر کی نماز بستر پر ، ظہر کی دفتر میں (ضائع ہوتی ہے ) ، عصر کی شام کی چائے میں ، مغرب کی راستے میں ، اور عشاء ٹی وی کے سامنے ہوتی ہے ۔ یہی ہے آج کا مسلمان جو قرآن وحدیث سے بیگانہ اپنی دنیا میں مست اور اپنے انجام سے بے خبر ، ناجانے کس معجزہ کے انتظار میں ہے ۔ شاید یہ اپنے مسلمانوں والے نام پر ہی اکتفاء کربیٹھا ہے ۔محض زبان قال سے لا إلہ پڑ ھ کر کوئی صاحب ایمان نہیں ہوجاتا۔ ع
یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا