Thursday, August 13, 2009

لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

اداریہ

آج امت مسلمہ انگنت مسائل سے دوچار ہے جن میں جنگ وجدال ، قتل وغارت گری ، شروفساد، بدامنی ، معاشی ومعاشرتی بدحالی ، بزدلی وغیرہ شامل ہیں ۔ جبکہ اسلام کے معنی ہی امن وسلامتی کے ہیں یعنی اسلام قبول کرنے والا ہمیشہ کیلئے امن وسلامتی میں داخل ہوجاتا ہے ایسے سایہ دار درخت تلے آ جاتا ہے جس میں وہ اپنی زندگی نہایت امن وعافیت سے گزار سکتا ہے کیونکہ یہی مذہب انسانی فلاح ونجات کا ضامن اور صراط مستقیم ہے ۔ یہ اسلام ہی کی برکات ہیں جو اپنے ماننے والے کو رشتہ اخوت میں پرودیتا ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿إِنَّمَا ال٘مُؤ٘مِنُو٘نَ إِخ٘وَۃٌ﴾ (الحجرات :۱۰)’’ مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔‘‘ مسلمان ہوتا ہی وہ ہے جس کے شروفساداور آذاء وتکالیف سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے ۔ جیسا کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے : ’’اَل٘مُس٘لِمُ مَن٘ سَلِمَ ال٘مُس٘لِمُو٘نَ مِن٘ لِسَانِہِ وَیَدِہِ ۔‘‘ ( رواہ البخاری )’’ مسلمان تو وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ کی تکلیف سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں ۔ ‘‘
اسی مضمون کے تحت بے شمار احادیث مبارکہ موجود ہیں جن کے مطالعہ سے یہ حقیقت کھل کرعیاں ہوتی ہے کہ اسلام ہی امن وشانتی کا دین ہے ۔مگر غور طلب بات یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ آج ایک مسلمان ہی دوسرے مسلمان کی جان کے درپے ہے ، آج مسلمان ہی مسلمان سے دست وگریباں ہے ۔ اور مسلمان ہوتے ہوئے بھی مسلمانوں ہی کا خون بہانے سے دریغ نہیں کرتے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب ریاست میں ظلم ونا انصافی کا بازار گرم ہوجاتا ہے اور غربت ، مہنگائی وبے روزگأری اپنی انتہاپر پہنچ جاتی ہے تو وطن عناصر ایک طرف معاشرے کے پسے ہوئے اور بے حال طبقے کے لوگوں کو دھونس ، دھمکی اور پیسوں کا لالچ دے کر اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہیں ، تو دوسری جانب انتظامی محکموں کے کرپٹ لوگوں کو اپنا زرخرید غلام بنا کردہشت گردوں کو کھل کر کھیلنے کا موقع فراہم کرتے ہیں ۔ وقت آ گیا ہے کہ حکومت نہ صرف مہنگائی کے سیلاب کے آگے بند باندھے بلکہ ریاستی محکموں بالخصوص محکمہ میں تطہیر کا عمل شروع کرے اور سب سے بڑ ھ کر اس امریکہ سے جان چھڑ ائے جس کی وجہ سے آج پاکستان میں جگہ جگہ انگارے بوئے جا رہے ہیں ۔مگر وائے افسوس کہ ہمارے حکمران اغیار وکفار کے ہم پیالہ وہم نوالہ بن کر اپنے کلمہ گو مسلمانوں کی جانوں سے کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ کافروں سے دوستی پر فخر کرتے ہیں جبکہ رب تعالیٰ کافرمان ہے : ﴿وَمَنْ یَتَوَلَّہُمْ مِنْکُمْ فَإِنَّہُ مِنْہُمْ ﴾(المائدۃ:۵۱)’’ جو کافروں کی طرف مائل ہوا اور ان سے دوستی کی گویا کہ وہ انہی میں سے ہے ۔‘‘
آج مسلمان اپنے تئی جتنی بھی کوشش کر لیں ، اپنے ہی نہتے مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگ لیں اپنے اقدار، ثقافت، تہذیب وتمدن اور اپنے نفس کو یہود ونصاریٰ کے جتنے بھی تابع کر لیں رب تعالیٰ کافرمان بجا اور برحق ہے کہ ﴿وَلَنْ تَرْضَی عَنْکَ الْیَہُودُ وَلَا النَّصَارَی حَتَّی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمْ﴾ (البقرۃ:۱۲۰) ’’یہود ونصاریٰ تم سے ہرگز راضی نہ ہونگیں جب تک تم ان کے دین کی پیروی نہیں کرو گے ۔ ‘‘
یہی وجہ ہے کہ اگر آج کوئی مسلمان اپنے دفاع کیلئے ہتھیار اٹھائے تو اسے دہشتگرد، انتہا پسنداور سنگدل کہہ کر اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے جبکہ اس کے برعکس اگر ہندوستان نہتے کشمیریوں پر ظلم وجبر کے پہاڑ گرائے تو وہ اس کا حق تسلیم کیا جاتا ہے ۔ اسرائیل اگر نہتے فلسطینوں پر زور آزمائے تو وہ بھی اس کا حق ہوتا ہے اسی طرح آج پوری دنیا میں غیر مسلموں کو اجازت ہے کہ وہ جہاں چاہیں جب چاہیں مسلمانوں پر ظلم وزیادتی کرسکتے ہیں اور ان کی پشت پر دنیا کی استبدادی قوتیں ہمہ تن موجود ہوتیں ہیں ۔ لمحہ فکر یہ ہے کہ آج اقوام عالم میں یہ کڑ ا وقت مسلمانوں ہی پر کیوں آیا ہے ؟وجہ صاف ظاہر ہے کہ آج مسلمان مسلمان نہیں رہا وہ آج اپنے ضمیر کے ساتھ اپنا ایمان بھی فروخت کر چکا ہے اسلام نے تو اسے یہ تعلیم دی تھی کہ مسلمان تو وہ ہے جس کے ہاتھ وزبان سے دوسرے مسلمان کی عزت وآبرو محفوظ ہو اور ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہے ۔ اگر دنیا میں امن وسلامتی کی اشاعت ممکن ہے تو وہ اسلام ہی کے ذریعے ممکن ہے کیونکہ امن سلامتی سے مشروط ہے اور اگر عداوت ودشمنی اور افتراق وانتشار کی دیوار منہدم کرنی ہے تو یہ سب ایمان سے مربوط ہے جتنا زیادہ ایمان پختہ ہو گا اتنا ہی امن اور وحدت انسانیت کا پرچار ہو گا آج مسلمانوں میں ایمان ہی کی کمی ہے جس کی وجہ سے وہ افتراق وانتشار اور بے بسی وبے راہ روی جیسے مسائل سے دوچار ہیں جبکہ اللہ کی طرف سے بشارت ہے کہ جولوگ ایمان لائیں اور اس میں کسی قسم کی ملاوٹ نہ کریں تو وہ لوگ امن میں ہیں ۔ کیا وجہ تھی کہ جو ریگستان کے صحرائی خیموں میں سوتے ، خشک کھجوریں کھاتے اور اونٹوں کو چراتے تھے اللہ نے ان کو اس زمین کا حاکم بنا دیا اور اپنی بے شمار نعمتوں سے نوازا یہ اللہ نے انہیں صلہ دیا تھا ان کے ایمان کامل کا، ان کے عدل وانصاف کا ، ان کی دور اندیشی اور مساوات کا کیونکہ انسان کی فلاح وکامیابی ایمان وعمل صالح پر موقوف ہے انسان ان کو اپنا کر دین ودنیا کی تمام مشکلات ومصائب سے نجات حاصل کرسکتا ہے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کر سکتا ہے ایمان وعمل صالح، سچائی ، دیانت وامانتداری ، عدل وانصاف ، ایثار وخلوص سے ، خلق خدا کی خدمت اور خالق کائنات کی عبادت سے ۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے : ﴿وَعَدَ اللَّہُ الَّذِینَ آَمَنُوا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْأَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِینَہُمُ الَّذِی ارْتَضَی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِہِمْ أَمْنًا یَعْبُدُونَنِی لَا یُشْرِکُونَ بِی شَیْئًا وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذَلِکَ فَأُولَئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُونَ ﴾(النور:۵۵)
’’ایمان والوں اور عمل صالح کرنے والوں سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور ملک کا حاکم بنائے گا جیسا کہ ان لوگوں کو بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقینا ان کیلئے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کر کے جمادے گا جیسے ان کیلئے پسند فرما چکا ہے اور ان کے خوف وخطر کو امن وامان سے بدل دے گا اگر یہ میری ہی عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے اور جو اس کے بعد میری ناشکری کرے گاوہ یقینا نافرمان ہے ۔ ‘‘
اگر مسلمان آج بھی اپنے مقام ومرتبہ کو سمجھ لیں تو یقینا وہ ان بشارتوں سے مستفید ہو سکتے ہیں اللہ ان کو بادشاہتیں اور حکومتیں عطا کرے گا اور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا ۔ یہ ہمارے ایمان کی کمزوری ہے کہ آج مسلمان یہود ونصاری سے لرزاں ہیں ۔انصاف کی بات یہ ہے کہ یہ دین کسی طرح کی مدحت سرائی کا محتاج نہیں بلکہ اپنی سچائی اور حقیقت کی وجہ سے ہر دور میں ہر ایک کیلئے یکساں مفید ہے ۔ جواس پر عمل پیرا ہو گا وہی اس کے محاسن سے مستفید ہو گا اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرمایا : ﴿اُد٘خُلُو٘افِی٘ السِّل٘مِ کَآفَّۃً﴾(البقرۃ:۲۰۸) ’’ کہ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ ۔ ‘‘
یہ برکات اور محاسن اسی وقت میسر ہوں گیں جب مسلمان صحیح معنوں میں مسلمان بن جائیں گے اور مسلمان بننا اتنا آسان نہیں جتنا لوگ سمجھتے ہیں اس لئے اب صرف ہمارے نام مسلمانوں جیسے رہ گئے ہیں اور کام تو سارے ہی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آج مسلمانوں کے تمام رسم ورواج ہندوانہ یا پھر مغربی طرز (یہودی وعیسائی) پر ہیں حتی کہ رہن سہن میں بھی کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی طرح ہم ان (غیر مسلموں )سے پیچھے نہ رہ جائیں بلکہ اب تو میڈیا نے اس نوجوان نسل کے لب ولہجہ کو بھی ہندوانہ بنا دیا ہے یہ ہے آج کا مسلمان ’’جسے دیکھ کر شرمائیں یہود ‘‘ جس کا نام مسلمانوں والا ہے جس کی فجر کی نماز بستر پر ، ظہر کی دفتر میں (ضائع ہوتی ہے ) ، عصر کی شام کی چائے میں ، مغرب کی راستے میں ، اور عشاء ٹی وی کے سامنے ہوتی ہے ۔ یہی ہے آج کا مسلمان جو قرآن وحدیث سے بیگانہ اپنی دنیا میں مست اور اپنے انجام سے بے خبر ، ناجانے کس معجزہ کے انتظار میں ہے ۔ شاید یہ اپنے مسلمانوں والے نام پر ہی اکتفاء کربیٹھا ہے ۔محض زبان قال سے لا إلہ پڑ ھ کر کوئی صاحب ایمان نہیں ہوجاتا۔ ع
یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

فیوض القرآن

از فیض الابرار صدیقی
قسط نمبر - 16

أ ن ث
أنث اس کے بنیادی معانی نرم کے ہیں ۔ مکان أنیث جس زمین میں گھاس وغیرہ جلدی اُگے ۔ اسے أرض أنیثہ یعنی نرم زمین بھی کہا جاتا ہے ۔ سیف أنیث ایسی تلوار جو قاطع نہ ہو یعنی کندتلوار ۔
أنّث لہ : نرم ہونا ، نرمی برتنا (تاج العروس)
اس سے أنثی کا لفظ بنایا گیا جس سے مراد مادہ ہے جو نر کے مقابلہ میں ہو۔
راغب اصفہانی /مفردات میں لکھتے ہیں : أنثی جو ذکر کی ضد ہے اور چونکہ تمام حیوانات میں مؤنث مقابلہ مذکر نرم اور ضعیف ہوتی ہے اس لئے اسے انثی کہا جاتا ہے ۔(المفردات /۹۳) (لسان العرب ۲/۱۱۳)
لہذا ہر وہ چیز جس میں فاعلیت کے بجائے انفعال کا پہلو غالب ہو و ہ انثی کہلائے گی۔ (المفردات /۹۳)
اسی اعتبار سے جمادات کو بھی اِسی نام سے موسوم کیا گیا ہے اور اللہ کے علاوہ جن اشیاء کو معبود بنایا جاتا ہے ۔( فائدہ ) انہیں إناث کہنے میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ وہ کمزور اور ضعیف ہوتے ہیں قوت فاعلیت ان میں نہیں پائی جاتی ضعیف اور کمزورکہنے سے ان کا بطلان بھی واضح ہوجاتا ہے اور ان کی مزعومہ مقام کا رد بھی ہوجاتا ہے ۔
جیسا کہ سورۃ النساء میں کہا گیا ہے ﴿ إِنْ یَدْعُونَ مِنْ دُونِہِ إِلَّا إِنَاثًا﴾(النساء :۱۱۷)
یہ تو اللہ کو چھوڑ کر صرف عورتوں کو پکارتے ہیں ۔
قرآن مجید میں اس کے درج ذیل مشتقات استعمال ہوتے ہیں :
انثی ، الأنثی ، الأنثیین ، إناثا
اور قرآن مجید میں یہ لفظ درج ذیل مفاہیم میں استعمال ہوا ہے ۔
۱۔ بیٹیاں
ارشاد ربانی ہے :
﴿أَلَکُمُ الذَّکَرُ وَلَہُ الْأُنْثَی ﴾(النجم:۲۱ )
کیا تمہارے لیے لڑ کے اور اللہ کیلئے لڑ کیاں ہیں ۔
ارشاد ایزدی ہے :
﴿وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُہُمْ بِالْأُنْثَی ظَلَّ وَجْہُہُ مُسْوَدًّا وَہُوَ کَظِیمٌ ﴾(سورۃ النحل : ۵۸)
ان میں سے جب کسی کے ہاں لڑ کی کے پیدا ہونے کی خبر دی جائے تو اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے اور دل ہی دل میں کڑ نے لگتا ہے ۔
ارشاد خداوندی ہے :
﴿أَوْ یُزَوِّجُہُمْ ذُکْرَانًا وَإِنَاثًا ﴾(الشوری :۵۰)
یا انہیں جمع کر دیتا ہے بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی۔
۲۔ جانوروں میں تانیث
اللہ رب العزت سورۃ الأنعام میں فرماتے ہیں :
﴿ قُل آَلذَّکَرَیْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَیَیْنِ ﴾(الأنعام :۱۴۴)
آپ کہیے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے ان دونوں نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں مادہ کو ۔
۳۔ بتوں میں تأنیث
فرمان باری تعالیٰ ہے :
﴿وَجَعَلُوا الْمَلَائِکَۃَ الَّذِینَ ہُمْ عِبَادُ الرَّحْمَنِ إِنَاثًا أَشَہِدُوا خَلْقَہُمْ﴾(الزخرف :۱۹)
اور انہوں نے رحمان کے عبادت گزار فرشتوں کو عورتیں قرار دے لیا ، کیا ان کی پیدائش کے موقع پر یہ موجود تھے ۔
ارشاد حق تعالیٰ ہے :
﴿إِنْ یَدْعُونَ مِنْ دُونِہِ إِلَّا إِنَاثًا﴾(النساء :۱۱۷)
یہ تو اللہ کو چھوڑ کر صرف عورتوں کو پکارتے ہیں ۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

آئیے حدیث رسول پڑھیں

نخبۃ الاحادیث
تالیف فضیلۃ الشیخ محمد داؤد رحمۃ اللہ علیہ

ترجمہ و تشریح
ڈاکٹر عبدالحئی مدنی حفظہ اللہ

کھانا کھانے کے آداب

عَن٘ عُمَرَ ب٘نِ أَبِی٘ سَلَمَۃَ ص قَالَ : قَالَ لِی٘ رَسُو٘لُ اللّٰہِ ا : ’’سَمِّ اللّٰہَ وَکُل٘ بِیَمِی٘نِکَ وَکُل٘ مِمَّا یَلِی٘کَ ۔‘‘
تخریج : صحیح بخاری ، کتاب الأطعمۃ ، حدیث نمبر :۵۳۷۶ ۔و صحیح مسلم ، کتاب الأشریۃ ، حدیث نمبر :۵۲۶۹
راوی کا تعارف : نام/ عمر بن أبی سلمۃ عبد اللہ بن عبد الأسد ۔ مخزومی ، قرشی۔
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ کا پہلے شوہر ابو سلمہ کے بیٹے ہیں ، کچھ عرصہ رسول اللہ ا کی زیرِ کفالت رہے ۔
وفات : ۸۳ ہجری مدینہ منورہ میں ہوئی۔
عدد المرویات : بارہ احادیث

معانی الکلمات

سَمِّ: نام لو Mention the name
بِیَمِی٘نِکَ : اپنے دائیں ہاتھ کے ساتھ With your right hand
کُل٘ : کھاؤ Eat up
مِمَّا : اس سے From that
یَلِی٘کَ : جو آپ کے سامنے ہے What is in font of you

ترجمہ :
سیدنا عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ا نے فرمایا: ’’اللہ کانام لیکر اپنے دائیں ہاتھ سے اور اپنے سامنے سے کھاؤ۔‘‘

تشریح: شریعت اسلامیہ ایک مکمل ضابطہ حیات ، دستور زندگی ہے جو نہ صرف کہ عبادت ومعاملات میں ہماری رہنمائی کرتی ہے ایک مخصوص ثقافت اور آداب زندگی بھی سکھاتی ہے ۔
خوردونوش لوازماتِ زندگی میں سے ہے لہذا اس کے متعلق بھی دینِ اسلام نے جملہ تفصیلات ، احکام اور آداب سکھائے ہیں چنانچہ مذکورہ حدیث میں حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کا نام لیکر کھانا شروع کریں کیونکہ اسی رب کی طرف سے رزق ملتا ہے ، اسباب رزق بھی وہی عطا فرماتا ہے ۔ مزید برآں اس کا مقدس نام باعثِ برکت بھی ہے ۔ اسی طرح دائیں ہاتھ سے کھانا پینا ، اور اپنے سامنے سے لینا بھی احکام وآداب میں شامل ہے ۔ دوسروں کے سامنے سے اچھا لقمہ، گوشت وغیرہ اٹھانا انتہائی معیوب گردانا گیا ہے ۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

شعبان المعظم اور ہمارا طرزِ عمل

از الشیخ حبیب الرحمٰن

اسلام دین فطرت ہے ، فطرت یا فطری چیزوں میں تغیر یا انکی زبوں حالی اگرچہ کسی مصلحت یزداں کے تحت کچھ عرصہ تک ممکن ہے مگر اس کو دوام کسی صورت ممکن نہیں ۔ کچھ یہی کیفیت موجودہ گردشِ دوراں میں اسلام اورمسلمانوں کو درپیش ہے ۔ موجودہ دور میں مسلمانوں کی زبوں حالی اور ذلت ورسوائی کی بڑ ی وجہ یہ ہے کہ وہ توحید کے تقاضوں سے دور اور شرک وبدعت کے شکنجے میں گرفتار ہیں ۔ شرک وبدعت پر نکیر ایک اہم فریضہ ہے جس کا ادا کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے اس سے گریز دینی نقطۂ نگاہ سے بہت بڑ ا جرم ہے جبکہ ہماری بدبختی ہی یہی ہے کہ ہمارے معاشرے میں بدعات نے حسنات کا ایسا لبادہ اوڑ ھ لیا ہے کہ ان سے انحراف یا ان پر قدغن ناقابل معافی جرم گردانا جاتا ہے ۔ہمارے معمولات کچھ اس طرح بدعات و خرافات سے مزین ہو چکے ہیں عام آدمی اُسے دین کا لازمی جزوہی تصور کرتا ہے ۔ ان بدعات ولغویات کی لمبی لسٹ میں چند بدعات شعبان معظم کے مہینے میں بھی مروج ہو چکی ہیں جن کی طرف قارئین کرام کی توجہ مبذول کروانا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان شرکیہ بدعات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
۱۔شعبان کی پندرھویں رات کو مردوں کی روحوں کے آنے کا عقیدہ رکھنا
بعض دین سے نابلد لوگوں کا یہ نظریہ ہے کہ شعبان کی پندرھویں رات کو فوت شدہ حضرات و خواتین کی روحیں زمین پر اترتی ہیں اور اپنی پسندیدہ چیزیں بھی تناول فرماتی ہیں جبکہ یہ عقیدہ سراسر قرآن وسنت کے منافی اور رب کائنات کے قوانین میں مداخلت کے مترادف ہے ۔ رب کریم کا ارشاد ہے ﴿وَمِن وَرَائِہِم بَرزَخٌ إِلَی یَومِ یُبَعَثُونَ ﴾ (المؤمنون:۱۰۰)قیامت کے دن تک ان کے آگے ایک آڑ ہے ۔
اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی روح کا فوت ہونے کے بعد دنیا میں آنا محال ہے اس لیے پندرھویں شعبان کی رات کو مردوں کی روحوں کے واپس آنے کا عقیدہ رکھنا سراسر باطل ہے ۔
۲۔ اس رات کو خصوصی اہتمام کے ساتھ حلوہ تیار کر کے تقسیم کرنا
اس کے علاوہ جو ایک عمل اسی دن سے منسوب ہے وہ یہ ہے کہ خصوصی اہتمام کے ساتھ حلویات اور نذونیاز کا بندوبست کیا جاتا ہے اور اس کے جواز میں جو وجوہات یا دلائل دیے جاتے ہیں وہ نہ صرف قرآن وسنت سے متصادم ہیں بلکہ انتہائی ضعیف عقیدے کا مظہر بھی ہیں ۔
اس کی دلیل میں جو پانچ وجوہات پیش کی جاتی ہیں وہ یہ ہیں :
۱۔ آپ ﷺ کا جنگ احدمیں ایک دانت ٹوٹ گیا تھا جس وجہ سے آپ ﷺ کھانا نہیں کھا سکتے تھے اس لیے آپ ﷺ نے حلوہ تناول فرمایا تھا۔
۲۔ دوسری سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی نیاز سمجھی جاتی ہے ۔
۳۔ یہ اویس قرنی کی نیاز ہے ۔
۴۔ یہ شیعوں کے بارہویں امام غائب کی ولادت کی خوشی میں پکایا جاتا ہے ۔
۵۔ یہ دیکھا دیکھی پکایا جاتا ہے ۔
جبکہ قرآن وسنت میں ان وجوہات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا بلکہ جو نذونیاز غیر اللہ کے نام ہو قرآن نے اسے حرام قراردیا ہے ۔
۳۔ صلوٰۃ الفیہ پڑ ھنا
صلوٰۃ الفیہ یہ بھی شعبان کی ایک ایسی بدعت ہے جس کا خصوصی طور پر اہتمام کیا جاتا ہے بعض مقامات پر اسے باقاعدہ باجماعت ادا کیا جاتا ہے ۔ جس کا طریقہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ سو رکعات نماز اس طرح پڑ ھنا کہ ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد دس دفعہ سورۃ اخلاص پڑ ھی جائے اس طرح سورۃ اخلاص ہزار دفعہ مکمل ہوتی ہے ۔
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب اقتضاء الصراط المستقیم میں اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے اور ملا علی قاری حنفی رحمہ اللہ کی کتاب شرح مشکوۃ کے صفحہ (۷۸) اور نواب قطب الدین صاحب حنفی کی کتاب مظاہر الحق ص (۴۴۹) میں مرقوم ہے شعبان کی پندرھویں شب کو صلاۃ الفیہ جو لوگوں نے ایجاد کر رکھی ہے یہ بالکل بدعت ہے ۔
۴۔ آتش بازی اور مساجد، مکانوں ، دیواروں ، بازاروں پر چراغاں کرنا اور اگر بتیاں جلانا۔
اس طرح کا اہتمام فضول خرچی اور اسراف کے زمرے میں آتا ہے جبکہ اسلام میں اسراف اور فضول خرچی کو باغی اور حدود اللہ سے تجاوز کرنے والوں کی صفت بیان کیا ہے جبکہ مؤمنین کے بارے میں ارشادباری تعالیٰ ہے ﴿وَکُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا ﴾(الأعراف:۳۱) اورکھاؤ پیو اور اسراف نہ کرو ایک اور جگہ پر ارشاد گرامی ہے ﴿اِنَّ المُبَذِّرِینَ کَانُوا إِخوَانِ الشَّیَاطِینِ﴾ (الإسراء :۲۷) فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں ۔
۵۔ اس رات کا قیام اور دن کا روزہ رکھنا
ایک اور عمل جو اس رات میں کثرت سے کیا جاتا ہے وہ ہے قیام اللیل یعنی رات کی عبادت۔ ساری رات نفل عبادت کرنا ذکر واذکار کرنا وغیرہ۔ اگرچہ نفل پڑ ھنا یا ذکر وغیرہ کرنا بدعات تو نہیں مگر جس انداز میں خصوصاً اس رات سے منسوب کرنا اور اس کا اہتمام اور دن کو روزہ رکھنا ضروری اور دین کا حصہ سمجھا جاتا ہے یہ کلی طور پر قرآن وسنت سے انحراف کے مصداق ہے اور اسی ضمن میں ابن ماجہ کی جس روایت سے دلیل پیش کی جاتی ہے وہ سخت ضعیف ہے ۔ (تحفۃ الاحوذی ۲ص/۵۳)
۶۔ اس رات قبر ستان جا کر دعائیں کرنا
ہمارے ہاں اسی رات قبر ستان جا کر کثرت سے دعائیں کرنا ، چراغاں کرنا، مختلف محفلیں منعقد کرنا بھی رائج ہے اور اس کو اجر وثواب کا باعث سمجھا جاتا ہے جبکہ اس کے بارے میں کوئی بھی صحیح حدیث نہیں ملتی۔
۷۔اس رات سورۃ یٰسین پڑ ھنا اور اس کے ایک مبین سے دوسرے مبین کے درمیان دعا کرنا یہ بھی رائج الوقت بدعت ہے ۔
نصف شعبان کی حقیقت
امام ابوبکر بن العربی مالکی رحمہ اللہ نے احکام القرآن میں لکھا ہے کہ نصف شعبان کی رات کے متعلق کوئی حدیث قابل اعتماد نہیں ہے ، نہ اس کی فضیلت کے بارے میں اور نہ اس امر میں کہ اس رات قسمتوں کے فیصلے ہوتے ہیں لہذا اس سلسلہ میں بیان کی جانے والی روایات کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہیے ۔
امام ابن العربی رحمہ اللہ کا اشارہ ان روایات کی طرف ہے جن میں ذکر ہے کہ شعبان کی پندرھویں رات عمروں کا اندراج کیا جاتا ہے ، قسمتوں کے فیصلے ہوتے اور بنوع کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر گناہ معاف کئے جاتے ہیں وغیرہ۔ تو یہ تمام روایات باطل اور بے اصل ہیں ان میں سے کوئی ایک روایت بھی ہرگز ہرگز صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ امتیازی خصوصیت تو لیلۃ القدر کو حاصل ہے کہ اللہ کی شاہی نظم ونسق میں یہی وہ رات ہے جس میں وہ اپنے کے ان تمام فیصلوں کو جو اس نے افراد اور قوموں اور ملکوں کی عمروں اور ان کے رزق کے بارے میں لکھ دیے ہیں ۔ ان میں سے ایک سال کے فیصلے عمل درآمد کیلئے فرشتوں کے سپرد کر دیے جاتے ہیں ۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ شعبان میں خصوصی عبادات وافضلیت کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ، اس کی اہمیت ، عظمت، فضیلت اور اس میں قسمتوں کے فیصلوں کے بارے میں تمام روایات باطل اور بے اصل ہیں اور ان میں سے کوئی ایک روایت بھی صحیح نہیں ہے ۔
لیکن ذرا ٹھہرئیے ! اگر ان روایات کو کھینچ تان کر صحیح تسلیم کربھی لیا جائے تو خدارا بتائیں کہ اس رات کروڑ وں روپے نذرآتش کر دینے کا کیا جواز ہے آتش بازی کا اس رات کی عظمت اور فضیلت سے کیا تعلق ہے ؟ کیا اس رات قسمتوں کے فیصلے فرمانے والے خالق ومالک کو ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہمیں تیرے فیصلوں کی ضرورت نہیں ، ہم نے تو اپنی قسمتوں کو خود اپنے ہاتھوں سے آگ لگا دی ہے آتش بازی کی نذر کئے جانے والے کروڑ وں روپے ہمارے کتنے دکھوں کا علاج اور کتنے دردوں کا درماں ثابت ہو سکتے ہیں ۔ ان سے کتنے یتیموں کے آنسو پونچھے جا سکتے ہیں کتنی دختران وطن کے ہاتھ پیلے کئے جا سکتے ہیں اور کتنے زخموں پر مرہم رکھا جا سکتا ہے مگر آہ! ہماری بدبختی اور حرماں نصیبی کہ ہم نے رحمان کے بندے بننے کی بجائے شیطان کے بھائی بن جانے کو ترجیح دی ۔
مسلمان بھائیوں اور بہنوں ! آئیے ہم سب صدق دل سے یہ عہد کریں کہ اس خود ساختہ بدعات اور افضلیت کے موقعہ پر شیطان کے بھائی نہیں بنیں گے ۔ انشاء اللہ
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

معمولات النبی ﷺ

از طیب معاذ
قسط نمبر – 7

محترم قارئین کرام ! رسول معظما نمازِ اشراق کی ادائیگی کے بعد گھر میں آتے تھے گھر میں داخل ہونے کے کچھ آداب ہیں جن کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے ۔
٭ اچانک گھر میں داخل نہ ہوں بلکہ گھر والوں کو کسی بھی ذریعہ سے مثلاً : دستک یا کال بیل بجا کراپنی آمد کی خبر دیں ،
٭ اہل خانہ کو سلام کریں جیسا کہ رسول اللہ انے سیدنا انس بن مالک ص کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ گھر میں داخل ہوتے وقت سلام کرو اس سے تم پر اور اہل خانہ پر رب العالمین کی برکتیں نازل ہونگی ۔(ترمذی /۲۶۹۶ ، کتاب الإستئذان والآداب ، وحسَّنَہُ الشیخ عبد القادر الارنؤوط)
اسی طرح جو شخص سلام کر کے گھر میں داخل ہوتا ہے اس شخص کو اللہ رب العزت جنت میں داخلے کی ضمانت دیتے ہیں ۔(ابوداؤد :۲۴۹۴، اسنادہ صحیح)
اسی طرح صحیح مسلم میں جابر بن عبد اللہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا کہ جب کوئی آدمی اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت اور کھانا کھاتے وقت اللہ کا نام لیتا ہے تو شیطان اپنے رفیقوں سے کہتا ہے کہ نہ تمہارے رہنے کا یہاں ٹھکانہ ہے نہ کھانا ہے اور جب انسان گھر میں داخل ہوتے وقت یا کھانا کھاتے وقت اللہ کا نام نہیں لیتا تو شیطان (خوش ہوکر) اپنے رفیقوں سے کہتا ہے تمہارے رہنے کا ٹھکانہ بھی ہوا اور تمہارے کھانے کا بندوبست بھی ہو گیا۔
٭گھر میں داخل ہوتے وقت یہ دعا پڑ ھیں ۔ اَللّٰہُمَّ إِنیِّ أَسئَلُکَ خَیرَ المَولِجِ وَخَیرَ المَخرَجِ بِاسمِ اللّٰہِ وَلَجنَا بِاسمِ اللّٰہِ خَرَجنَا وَعَلَی اللّٰہِ رَبِّنَا تَوَکَّلنَا ۔(رواہ ابوداؤد/۵۰۹۶ صححہ الشیخ عبد القادر الارنؤوط فی تحقیق زاد المعاد لابن القیم )
ترجمہ:اے اللہ میں آپ سے داخل ہونے اور نکلنے کی بھلائی چاہتا ہوں اللہ ہی کے نام سے ہم نکلتے اور داخل ہوتے ہیں اور ہم اللہ پر ہی (جوکہ ہمارا رب) ہے توکل اور بھروسہ کرتے ہیں ۔
اس کے بعد رسول عربی ا اپنے اہلخانہ سے پوچھتے کہ کیا کوئی کھانے کی چیز ہے اگر تو گھر میں کچھ کھانے کو میسرہوتا تو رسول اللہ ا کو مہیا کر دیا جاتا اور اگرگھر میں کھانے کوکچھ بھی نہ ہوتا تو رسول صابر ا اس دن کے روزے کی نیت کر لیتے تھے ۔ (عن عائشہ رضی اللہ عنہا ، مسلم :۱۱۵۴ )
کھانے کے بعد داعی اعظم ا اپنی دعوتی اصلاحی، گھریلو زندگی میں مشغول ہوجاتے ۔
سنن ترمذی میں صحیح روایت ہے کہ رسول عربی ا زوال کے بعد اور ظہر سے پہلے چار کعتیں ادا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس وقت آسمان کے دروازے واہ ہوتے ہیں پس میں چاہتا ہوں کہ میرا اس وقت نیک عمل بارگاہ الٰہی میں پہنچا دیا جائے ۔ (عن عبد اللہ بن سائب ص ، ترمذی :۴۷۶ تحفہ وصححہ الشیخ سلیم بن عید الہلالی فی تحقیق الأذکار للنو وی رحمہ اللہ )
نمازِ ظہر
رسول اللہ ا آذان ظہر کے بعد فوراً نماز کی تیاری میں مشغول ہوجاتے تھے (وضوء اور نماز کے معمولات محمدیہ ا آئندہ لکھے جائیں گے ۔ اِن شاء اللہ) جبکہ ظہر کی سنتوں کی تعداد کے بارے میں مختلف احادیث وارد ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ظہر کی (۴) یا (۶) رکعتیں سنت ہیں ۔
چار رکعتوں کی دلیل
سیدنا ابن عمر ص ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ا سے دس رکعتیں (علاوہ فرض) حفظ کیں دو رکعتیں ظہر سے پہلے اور دو ظہر کے بعد اسی طرح دو دو رکعتیں مغرب اور عشاء کے بعد اور صبح کی نماز سے پہلے ۲ رکعتیں ۔( رواہ البخاری)
اسی طرح مسند احمد میں ابن عمر ص کی روایت ہے کہ آپ ا ظہر سے پہلے اور اس کے بعد دودو رکعتیں ترک نہیں کرتے تھے ۔
چھ رکعتوں کی دلیل
بعض احادیث نبویہ میں سنتِ ظہر کی تعداد چھ تک مذکور ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں عبد اللہ بن شقیق صروایت کرتے ہیں کہ میں نے صدیقہ کائنات عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ ا کی نماز کی بابت دریافت کیا تو آپ رضی اللہ عنہانے فرمایا کہ آپ ا ظہر سے پہلے چار اور ظہر کے بعد دو رکعتیں ادا کرتے تھے ۔
اسی طرح سنن الترمذی میں ام المؤمنین ام حبیبہ ص کی روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص دن ورات میں بارہ (۱۲) رکعتیں سنت ادا کرتا ہے اللہ اس کیلئے جنت میں ایک گھر تیار کر دیتے ہیں وہ بارہ رکعتیں یہ ہیں :چار ظہر سے پہلے اور دو رکعتیں ظہر کے بعد ، نمازِ مغرب وعشاء کے بعد دو دو رکعتیں جبکہ نمازِ فجر سے پہلے دو رکعتیں ۔
یادرہے کہ مذکورہ بالا احادیث میں کسی قسم کا کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ ا کبھی ظہر سے پہلے دو رکعتیں پڑ ھتے تھے کبھی چار رکعتیں اورابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ممکن ہے کہ آپ ا ظہر سے پہلے گھر میں چار رکعتیں ادا کرتے ہوں جبکہ مسجد میں دو رکعتوں پر اکتفا کرتے ہوں ۔
قیلولہ
دن کے وقت کچھ وقت آرام کی غرض سے لیٹنے کو قیلولہ کہتے ہیں قیلولہ جسم میں چستی و توانائی پیدا کرتا ہے قیلولہ کی اہمیت کو جدید میڈیکل سائنس نے بھی تسلیم کیا ہے اس بارہ میں ترغیبی اور قولی احادیث میں سقم اور ضعف پایا جاتا ہے مگر شہادتِ قرآن اور فعل صحابہ کی رو سے اس عمل کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے ۔
شہادت قرآن
سورۃ النور میں اللہ احکم الحاکمین نے ارشاد فرمایا: ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آَمَنُوا لِیَسْتَأْذِنْکُمُ الَّذِینَ مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ وَالَّذِینَ لَمْ یَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْکُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ مِنْ قَبْلِ صَلَاۃِ الْفَجْرِ وَحِینَ تَضَعُونَ ثِیَابَکُمْ مِنَ الظَّہِیرَۃِ وَمِنْ بَعْدِ صَلَاۃِ الْعِشَاءِثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَکُمْ لَیْسَ عَلَیْکُمْ وَلَا عَلَیْہِمْ جُنَاحٌ بَعْدَہُنَّ طَوَّافُونَ عَلَیْکُمْ بَعْضُکُمْ عَلَی بَعْضٍ کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللَّہُ لَکُمُ الْآَیَاتِ وَاللَّہُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ ﴾ (النور:۵۸)
اے ایمان والو! تم سے تمہاری ملکیت کے غلاموں کو اور انہیں بھی جو تم میں سے بلوغت کو نہ پہنچے ہوں اپنے آنے کی تین وقتوں میں اجازت حاصل کرنا ضروری ہے ۔۱۔نمازِ فجر سے پہلے ، ۲۔ ظہر کے وقت جب تم اپنے کپڑ ے اتارتے ہو ( کیونکہ دوپہر کے وقت انسان دو گھڑ ی طاقت حاصل کرنے کیلئے عموماً اپنے گھر میں بالائی کپڑ ے اتارکر سوتا ہے ) ، ۳۔ عشاء کی نماز کے بعد۔ (تفسیر ابن کثیر ج/۳، ص/۶۳۶ )
فعل صحابہ
عن سَہلِ بن سعد ص قال ما کنّا نقیل ولا نتوضأإلا بعد الجمعۃ۔( صحیح بخاری ، کتاب الجمعۃ )
سہل بن سعد ص فرماتے ہیں کہ ہم نمازِ جمعہ کے بعد قیلولہ اور دوپہر کا کھانا تناول کرتے تھے ۔
امام ابن حجر رحمہ اللہ نے اس اثر کی شرح میں لکھا ہے کہ یہ اثر اس بات کی دلیل ہے کہ قیلولہ اہل عرب کی مسلمہ اور معمول بھا عادت تھی۔ ( فتح الباری ج/۱۲، ص/۸۳ دارالسلام )
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی زندگی رسول اللہا کے اسوئہ حسنہ کے مطابق بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین (جاری ہے )
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

یوم آزادی اور ہم

از فضیلۃ الشیخ ابو نعمان بشیر احمد

قرآن مجید وہ آخری کتاب ہے جس میں عبادات اور معاملات انتہائی احسن انداز اور تفصیل سے سمجھائے گئے ہیں اور سابقہ امتوں کے قصص و واقعات سے انجام بھی واضح کر دیا ہے ۔ سابقہ قوموں کے حالات و واقعات صرف تاریخی داستانوں کی حیثیت سے ہی بیان نہیں کیے گئے بلکہ آئندہ آنے والوں کیلئے دعوت فکر اور درس عبرت کیلئے بھی بیان کیے گئے ہیں ۔ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ دنیا میں جتنے رسول تشریف لائے اُتنی امتیں بھی وجو د میں آئی ہوں گی لیکن قرآن مجید میں دو بڑ ی امتوں کا تذکرہ کثرت سے کیا گیا ہے ۔
۱۔ بنی اسرائیل ۲۔ مسلمان
ان دونوں امتوں میں بہت سی چیزوں میں مماثلت پائی جاتی ہے چنانچہ رسول اللہ ا نے فرمایا: لَیَاتِیَنَّ عَلَی اُمَّتِی کَمَا اَتَی عَلَی بَنِی اِسرَائِیلَ حَذوَ النَّعلِ بِالنَّعلِ ۔ (جامع ترمذی)
یقینا میری امت پر بھی وہ حالات آئیں گے جو بنی اسرائیل پر آئے جسطرح ایک جوتا دوسرے جوتے کے مشابہ ہوتا ہے ۔
ایک مرتبہ آپ ﷺ نے اس طرح فرمایا : لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنَ مَن کَانَ قَبلَکُم شِبراً بِشِبرٍ وَذِرَاعاً بِذِرَاعٍ حَتَّی لَو دَخَلُوا جُحرَ ضَبٍّ تَبِعتُمُوہُم قِیلَ : یَارَسُولَ اللّٰہِ ! اَلیَہُودُ وَالنَّصَارَی ؟ قَالَ : فَمَن ؟( بخاری ومسلم)
تم ان لوگوں کی ضرور پیروی کرو گے جو تم سے پہلے گزرے ۔ جیسے بالشت برابر ہوتی ہے بالشت کے اور ہاتھ برابر ہوتا ہے ہاتھ کے ، یہاں تک کے اگر وہ ضب (سانڈہ) کی بل میں گھسے تھے تو تم بھی انکی پیروی کرو گے ۔ آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ اس سے مراد یہود ونصاریٰ ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا اور کون ہو سکتے ہیں ؟
چنانچہ امت مسلمہ نے جس طرح اسلوب زندگی میں بہت سے معاملات میں یہود ونصاری کی پیروی کی ہے اس طرح ہماری تاریخ خصوصاً قیام پاکستان کی تاریخ میں بھی بہت مماثلت پائی جاتی ہے ۔ ذیل میں ہم بنی اسرائیل اور پاکستان کی تاریخ کا موازنہ کرتے ہیں تاکہ نتائج کا سمجھنا آسان ہو۔

تاریخِ بنی اسرائیل کے ساتھ پاکستان کی مشابہت

تاریخِ بنی اسرائیل
۱۔ جس طرح مصر پر عرصہ طویل شرک وکفر کی حکومت رہی۔
۲۔ حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے کافی عرصہ بعد تک اسلامی حکومت کا قیام رہا اور عدل وانصاف اور امن وامان کی زندگی عوام کو میسر آئی۔
۳۔ بنی اسرائیل کے ناخلف حکمران وعوام نے احکام الٰہی کو بھلا دیا، دنیاوی عیش وعشرت میں مشغول ہوگئے اور دین میں تحریف کر کے مرضی کا دین بنا لیا اور دین سے تعلق برائے نام رہ گیا۔
۴۔ احکام الٰہی کو فراموش کرنے اور انعامات کی ناشکری کے نتیجہ میں سنت الٰہی کے مطابق فرعون جیسے ظالم حکمران کو مسلط کر دیا گیا۔
۵۔فرعونی ظالم حکومت کے ہاتھوں سخت مصائب وآلام سے دو چار کیا گیا جیسے قرآن نے بیان کیا: ﴿یَسُومُونَکُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَیُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَکُمْ وَیَسْتَحْیُونَ نِسَاءَکُمْ ﴾ (إبراہیم : ۶) ’’وہ تمہیں بدترین عذاب میں مبتلا کئے ہوئے تھے کہ تمہارے بچوں کو ذبح کردیتے تھے اور بچیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے ۔‘‘ اس طرح تمام تر محنت ومشقت کے باوجود وہ معاشرہ میں ذلیل اور غلام افراد سمجھے جاتے تھے ۔
۶۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دوبارہ احیائے دین کیا اور ظالم حکومت نے انتہاء درجہ کی مخالفت کی تو تحریک آزادی کا آغاز کیا اور تمام بنی اسرائیل نے غلامی سے آزادی کی حمایت کی اور الگ ریاست قائم کر کے دین کے نفاذ کا عہدوپیمان کیا تو دوبارہ آزادی اور الگ ریاست دے کر نفاذ دین کا موقع دیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿وَنُرِیدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَی الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا فِی الْأَرْضِ وَنَجْعَلَہُمْ أَئِمَّۃً وَنَجْعَلَہُمُ الْوَارِثِینَ﴾ القصص:۵
’’ہم نے ارادہ کیا کہ زمین میں جنکو کمزور سمجھا جاتا تھا ان پر احسان کریں اور ان کو رہنما اور وارث بنادیں ۔‘‘
۷۔بنی اسرائیل بے سروسامانی کی حالت میں میدان تیہہ میں پہنچے تو اللہ نے کھانے ، پینے ، سائے اور طرح طرح کے انعامات معجزانہ طور پر عطا کیے ۔
۸۔ بنی اسرائیل انعامات ملنے اور آزادی کا سکون ملنے سے وہ تمام عہد وپیمان بھول گئے اور نفاذ دین کی بجائے شرک وبدعات میں ملوث ہوگئے اور جہاد کا انکار تک کر دیا اور کہنے لگے ﴿قَالُوا یَا مُوسَی إِنَّا لَنْ نَدْخُلَہَا أَبَدًا مَا دَامُوا فِیہَا فَاذْہَبْ أَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا إِنَّا ہَاہُنَا قَاعِدُونَ ﴾ (المائدۃ:۲۴) ’’اور کہنے لگے : اے موسیٰ! ہم اس بستی میں کبھی داخل نہ ہونگے جب تک وہ وہاں موجود ہیں تم اور تمہارا رب جا کر جہاد کرو ہم تو اس جگہ بیٹھے ہیں ۔‘‘چنانچہ بنی اسرائیل نے جہاد کا بھی انکار کر دیا اور اللہ کے وعدوں کی خلاف ورزی بھی تو چالیس سال تک میدان تیہہ میں دھکے کھاتے رہے پھر رجوع الی اللہ کیا اور جہاد کے راستہ کو اپنایا تو ذلت ورسوائی سے نجات ملی اور دوبارہ حکمران بنے ۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب بنی اسرائیل نے جہاد سے انکار کیا تو حصرت موسیٰ وہارون علیہما السلام کی قیادت ومعیت بھی بنی اسرائیل کو ذلت ورسوائی سے نہ بچا سکی۔ لیکن جب ان دونوں نبیوں سے کم درجہ کے حضرت یوشع بن نون کی قیادت ومعیت میں جہاد کیا تو ذلت سے نجات ملی اور فاتح حکمران بنکر زندگی بسر کی ۔

تاریخِ پاکستان

۱۔ اسی طرح برصغیر (پاک وہند) پر عرصہ طویل شرک وکفر کی حکومت رہی۔
۲۔ اسی طرح ۱۷۱۲ء؁ تا ۱۷۵۷ء؁ اسلامی حکومت کا قیام رہا اور عدل وانصاف اور امن وامان کی زندگی عوام کو میسر آئی۔
۳۔ اس طرح عیاش قسم کے حکمران اور اسطرح کی عوام کا دور آیا جنہوں نے احکام الٰہی کو بھلادیا، دنیا طلبی اور عیش وعشرت میں مشغول ہوگئے حتی کہ دین میں تحریف کر کے مرضی کا دین اور فقہ مرتب کرائی اور دین سے برائے نام تعلق رہ گیا۔
۴۔ احکام الٰہی کو فراموش کرنے اور انعامات کی ناشکری کے نتیجہ میں انگریز جیسے ظالم حکمران کو مسلط کر دیا گیا۔
۵۔ اس طرح برصغیر میں مسلمانوں کو انگریزی حکومت کے ہاتھوں سخت مصائب سے دو چار ہونا پڑ ا اور فرعون کے ظلم سے بڑ ھ کر ظلم وستم کیے اور مسلمان نسل کو ختم کرنے کا ہر حربہ استعمال کیا اور تمام تر محنتوں و مشقتوں کے باوجود مسلمان کسی عہدے پر کام نہ کرسکتا تھا بلکہ انگریز اور ان کے حواری ہندوؤں کو تمام سہولیات میسر تھیں ۔
۶۔ اسی طرح برصغیر میں مخلص علماء دین اور مشائخ کرام نے دوبارہ احیائے دین کیلئے محنت کی اور حکومت کی شدید مخالفت پر الگ ریاست قائم کر کے نفاذ اسلام قائم کرنے کی تحریک آزادی شروع کی۔ تو سنت الٰہی ہے کہ جب کوئی قوم اجتماعی طور پر اللہ سے عہد کر کے مطالبہ کرے تو وہ عطا کر کے موقع دیتا ہے تاکہ وہ اپنے عہد کی صداقت ثابت کر سکیں ۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿عَسَی رَبُّکُمْ أَنْ یُہْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَیَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الْأَرْضِ فَیَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُونَ ﴾ (الأعراف:۱۲۹) عین ممکن ہے کہ تمہارا رب دشمن کو ہلاک کر دے اور تمہیں زمین کا وارث بنادے پھر وہ دیکھے کہ تم کیا عمل کرتے ہو۔
۷۔ قیام پاکستان کا معجزانہ وجود بھی اسی سنت الٰہی کے تحت ظاہر ہوا قیام پاکستان کے وقت مسلمان انتہائی بے سروسامانی کے ساتھ پاکستان پہنچے تو جلدی ہی اللہ تعالیٰ نے ہر نعمت سے نوازا اور ترقی یافتہ ممالک کے ہم پلہ ہو گیا حتی کہ ایٹمی قوت جیسی نعمت بھی عطا کر دی۔
۸۔ قیام پاکستان کے بعد انعامات اور آزادی کا سکون ملنے پر ہم بھی وہ تمام عہد وپیمان بھول گئے جو اللہ تعالیٰ سے انفرادی واجتماعی طور پر کیے تھے اور ہر چھوٹے بڑ ے کی زبان پر پاکستان کا مطلب کیا ؟ لا إلہ إلا اللہ کو بھی یکسر بھول گئے اور60 سال سے زائد گزر گئے لیکن وعدہ پورا نہ کیا اور اسلام کی چوٹی اور کہان جہاد کو ترک کر دیا اور 60 سال سے زائد دھکے کھانے کے باوجود رجوع الی اللہ نہیں کیا اور اب تک منزل نہیں ملی اور ذلت ورسوائی سے نجات نہ ملی ۱۹۷۱ء؁ میں سقوط مشرقی پاکستان کی ذلت اٹھائی اور ایک لاکھ فوجیوں اور آفیسروں کو قید بنا کر بھیڑ بکریوں کی طرح ٹرکوں میں لاد کر لے گئے اور آج تک غیر مسلموں کے چنگل میں گرفتار ہیں ۔ آج اسلام کا دشمن یہ سمجھتا ہے کہ اسلام کا غلبہ جہاد میں ہے تبھی تو جہاد پر پابندیاں ہیں لیکن آج مسلمان سمجھتا ہے کہ جہاد بیکار اور پرانا طریقہ عمل ہے اور اس کے ترک کی وجہ سے ذلیل ہوکر رہ گیا ہے ۔ قیام پاکستان کا بھی بنیادی سبب جماعت مجاہدین کی جہادی محنت وکوشش ہے حالانکہ وہ گنتی کے افراد اور بے سروسامانی کے ساتھ تھے لیکن جذبہ جہاد اور استقامت فی الدین کی وجہ سے وقت کے فرعون سے ٹکرا گئے ۔

راہ نجات
قرآن کی بتلائی ہوئی تاریخ نے واضح کر دیا کہ جب تک اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد کو پورا نہ کیا جائے ، رجوع الی اللہ نہ کیا جائے ، اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام نافذ کرنے اور اس کیلئے جہاد نہ کیا جائے ، اس وقت تک ذلت ورسوائی کے سائے نہ ٹلیں گے اور رحمت الٰہی کا ورود نہ ہو گا۔
چمن کے مالی اگر بنالیں ، موافق اپنا شعار اب بھی
چمن میں آ سکتی ہے پلٹ کر روٹھی ہوئی بہار اب بھی - - جگر
پاکستان کی بقا اور ترقی واستحکام کیلئے واحد ممکنہ اساس ، وہ دینی جذبہ بن سکتا ہے جو قومی ونسلی نہیں بلکہ حقیقی وعملی اسلام ہو اور وہ بھی کوئی جدت پسند افراد اور دانشوروں کا کشید کردہ نہ ہو بلکہ علماء حق کا کتاب وسنت سے بیان کردہ اسلام ہو اور فقط جامد مذہبیت نہ ہو بلکہ متحرک اور انقلابی صورت والا ہو اس جگہ ابو الکلام آزاد کا پیغام ذہن نشین کر لینا بھی کیاہی بہتر ہو گا۔ مسلمان۔ ۔ ۔ اگر آزادی کیلئے آسمان کے تارے بھی توڑ لائیں اور ان کے ایک جانب سونے ، چاندی کا ڈھیر ہو اور دوسری طرف فوجوں کی قطاریں ان کے ساتھ ہوں ۔ ۔ ۔ لیکن جب تک وہ خود اپنے اندر ایک مضبوط اور سچی تبدیلی پیدا نہ کریں گے اور ان تمام گنا ہوں اور جرموں کے ارتکاب سے باز نہ آجائیں گے جن کی وجہ سے یہ مصیبتیں ان کو گھیرے ہوئے ہیں ۔ ۔ ۔ انہیں آزادی نصیب نہ ہو گی ۔ ۔ ۔ سچی آزادی کیلئے اپنے آپ کو بدلئیے ۔ ۔ ۔
آزادی کا مطلب صرف زبان سے لفظ آزادی ادا کرنا نہیں بینرزو اشتہارات پر لفظ آزادی مبارک لکھ کر لہرا دینا نہیں بلکہ دین پر آزادی سے عمل کرنا اور اسلامی نفاذ کا آزادانہ نظام قائم کرنا ہے ۔ لیکن اہل پاکستان کی آزادی کس چیز کی آزادی ہے ، ہمارا تعلیمی ، معاشی ، معاشرتی ، عدالتی ۔ ۔ ۔ کونسا پہلو آزاد ہے ؟ بلکہ حقیقت میں ہم آج تک غلام چلے آ رہے ہیں ہاں ہماری آزادی ہے تو لادینیت کو جزوایمان بنانے کی آزادی، شراب نوشی اور قحبہ گری کی آزادی ، حقوق نسواں کو آرٹ اور کلچر کے نام پر بے حیائی پھیلانے کی آزادی، حدود آرڈیننس کے خلاف انسانیت اور خلاف ترقی کہنے کی آزادی ، قوم کے محسنوں کو پابند سلاسل کرنے کی آزادی، نصاب تعلیم سے قرآن خارج کرنے کی آزادی ۔ ۔ ۔ اور پاکستان کو سیکولر اسٹیٹ بنانے کی آزادی اور اس راستہ میں رکاوٹ بننے والوں کو ٹھکانے لگانے کی آزادی۔
میرے مسلمان بہنوں وبھائیو! خدا را اب بھی وقت ہے ، رجوع الی اللہ کا ، توبہ استغفار کا۔ ۔ ۔ ورنہ زلزلے طوفان ، ملک کے اندرن وبیرون فسادات وپریشانیوں کے ساتھ جھنجھوڑ دیا گیا ہے اگر اب بھی عقل کے ناخن نہ لیے تو مزید بڑ ی آفت کیلئے تیار ہو جاؤ کیونکہ قانون الٰہی ہے ﴿عَسَی رَبُّکُمْ أَنْ یَرْحَمَکُمْ وَإِنْ عُدْتُمْ عُدْنَا﴾(بنی اسرائیل :۸) یعنی موجودہ مہلت سے فائدہ اٹھاؤ ورنہ سخت عذاب کیلئے تیار رہو۔
﴿وَإِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ﴾ (محمد:۳۸)
وہ تمہیں ختم کر کے دوسری قوم کو لے آئے گا۔
وہ دور بھی دیکھا تاریخ کی آنکھوں نے
لمحوں نے خطا کی تھی ، صدیوں نے سزا پائی
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

مولانا محمد حنیف ندوی رحمۃ اللہ علیہ

از عبدالرشید عراقی

پروفیسر رشید احمد صدیقی اپنی کتاب گنج ہائے گرانمایہ میں لکھتے ہیں : موت سے کسی کومفر نہیں لیکن جولوگ کلّی مقاصد کی تائید وحصول میں تادم آخر کام کرتے رہتے ہیں ۔ وہ کتنی ہی طویل عمر کیوں نہ پائیں ۔ ان کی وفات قبل از وقت اور تکلیف دہ محسوس ہوتی ہے ۔
مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ پر یہ جملہ مکمل طور پر صادق آتا ہے ۔ مولانا ندوی نے اپنی زندگی دین اسلام کی نشرو اشاعت ، کتاب وسنت کی ترقی وترویج اور شرک وبدعت اور محدثات کی تردید میں وقف کر دی تھی۔

ندوۃ العلماء نے اپنے مختلف ادوار میں ایسے ایسے گوہر پیدا کئے جنہوں نے دینی وعلمی اور قومی وملی کارنامے انجام دے کر ندوۃ العلماء کا نام روشن کیا۔ مثلاً علامہ سید سلیمان ندوی ، مولانا عبد السلام ندوی، مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی ، مولانا سید ریاست علی ندوی ، مولانا محمد ناظم ندوی ، مولانا عبد السلام قد وائی ندوی، مولانا حافظ محب اللہ ندوی ، مولانا سید ابو الحسن علی ندوی، مولانا محمد عمران خاں ندوی، مولانا مسعود عالم ندوی، مولانا عبد اللہ عباس ندوی، مولانا مختار احمد ندوی، مولانا ہدایت اللہ ندوی ، مولانا محمدرئیس ندوی اور مولانا محمد حنیف ندوی اور کئی دوسرے اصحاب ندوہ جنہوں نے ساری زندگی دین اسلام کی نشر واشاعت، کتاب وسنت کی ترقی وترویج اور شرک وبدعت کی تردید کے علاوہ ملی وقومی خدمات انجام دے کر وہ کا رہائے نمایاں انجام دئیے ۔ جن کا تذکرہ ان شاء اللہ العزیز رہتی دنیا تک رہے گا۔
مولانا محمد حنیف ندوی اپنے دم سے ایک عہد تھے ۔ وہ اپنی ذات سے خود ایک انجمن تھے ۔ مولانا ندوی ایک نہایت اصولی ، راست گو، راست باز، حق پسند، اور مرنجاں مربج طبیعت کے مالک تھے ۔ علم وحلم کے پیکر تھے سلامت طبع کی نعمت انہیں وافر ملی تھی۔ مولانا ندوی میں ایک صفت بدرجہ اتم پائی جاتی تھی کہ آپ کم گو، فعّال ، سنجیدہ، مگر سرگرم اورنبض شناس تھے ان کی پیشانی کی شکنیں ہمہ وقت معنی خیز نتائج کی متلاشی ہوتی تھیں ۔ وہ عمربھر مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کی مجلس عاملہ وشوریٰ کے رکن رہے اور ہر نازک موقع پر مرکزی جمعیت کی عظمت و وقار کے لئے سینہ سپر رہے ان کی اصابت رائے کا یہ عالم تھا کہ ارکان شوریٰ نہ صرف یہ کہ ان کے مشوروں کی قدر کرتے تھے بلکہ اُسے اختیار بھی کرتے تھے یہ حقیقت ہے اور اس میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں کہ : مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ ذہانت وذکاوت، عدالت وثقاہت اور فطانت ، فہم وبصیرت، تقویٰ وطہارت، زہدو ورع، علم وحلم، جو دوسخا، اور بیدار دماغی میں ممتاز تھے اور بڑ ا بلند مقام رکھتے تھے ۔
قدرت کی طرف سے بڑ ے اچھے دل ودماغ لے کر پیدا ہوئے تھے ۔ روشن فکر ، دردمند دل اور سلجھا ہوا دماغ پایا تھا۔ ذہن وذکاوت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حافظہ کی غیر معمولی نعمت سے بھی نوازا تھا۔ ٹھوس اور قیمتی مطالعہ ان کا سرمایہ علم تھا۔ تاریخ پر گہری اور تنقیدی نظر رکھتے تھے ۔ فلسفہ پر ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا ملکی سیاسیات سے نہ صرف باخبر تھے بلکہ اس پر اپنی ناقدانہ رائے رکھتے تھے ۔ سیاسی اور غیر سیاسی تحریکات کے پس منظر سے واقف تھے نہ صرف برصغیر کی قومی وملی اور دینی وعلمی اور سیاسی تحریکات سے انہیں مکمل واقفیت اور ان کے قیام کے متعلق انہیں مکمل آگاہی تھی بلکہ عالم اسلام کی دینی وعلمی اور مذہبی اور قومی وملی تحریکات سے بھی مکمل واقفیت رکھتے تھے ۔ادب عربی بہت اعلیٰ اور صاف ستھرا ذوق رکھتے تھے ۔لغت وقواعد پر ان کی گہری نظر تھی اور اس کی باریکیوں کے مبصر تھے ۔الفاظ کی تحقیق میں ید طولیٰ رکھتے تھے ۔ عربی واردو کے وہ غیر پایہ اور فطری انشاپرداز تھے ۔ قلم برداشتہ تحریر کا ان کو عجیب ملکہ حاصل تھا۔تحریر میں برجستگی، سلامت اور روانی ہوتی ، جچے تلے الفاظ، چست ترکیبیں ، اچھوتے استعارات ، نادر تشبہیں ، مولانا ندوی کی تحریرکی خاص خصوصیت تھی ان کی تحریر حشو وزوائد سے پاک ہوتی تھی۔ موقع موقع سے محاورات و امثال بھی استعمال کرتے مگر اس میں کوئی تکلف نہ ہوتا پڑ ھنے والا محسوس کرتا کہ جیسے جگہ جگہ موتی جڑ دئیے گئے ہیں ۔
کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ سے شغف
مولانا ندوی کو قرآن مجید اور حدیث نبوی ﷺ سے بہت زیادہ شغف تھا۔ قرآن مجید سے اتنا ذوق بڑ ھ چکا تھا۔ کہ شاید اس کتاب سے زیادہ وہ کسی کتاب کو نہیں پڑ ھتے تھے ۔قرآن مجید سے محبت کی وجہ سے آپ نے فراغت تعلیم کے بعد جامع مسجد مبارک اہلحدیث اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لا ہور (جہاں آپ کا تقرر بحیثیت خطیب ہوا) میں درس قرآن کا سلسلہ شروع کیا مولانا محمد اسحاق بھٹی آپ کے درس قرآن کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
مولانا محمد حنیف ندوی ندوہ سے فارغ ہونے کے بعد ۱۹۳۰ء؁ میں وطن واپس لوٹے ۔ تو لا ہور کی مسجد مبارک میں جو اسلامیہ کالج (ریلوے روڈ) سے متصل ہے ۔ درس قرآن اور خطابت کے فرائض سرانجام دینے لگے ۔ اس سے پہلے لا ہور میں درس قرآن کے دو حلقے قائم تھے ۔ ایک مولانا احمد علی صاحب کا شیرانوالہ گیٹ کی مسجد میں اور دوسرا بادشاہی مسجد کے سابق خطیب مولانا علام مرشد کاسنہری مسجد رنگ محل میں ۔اب تیسرا حلقہ درس مسجد مبارک میں مولانا حنیف ندوی کا قائم ہوا۔ یہ حلقہ اس اعتبار سے پہلے دونوں حلقوں سے منفرد تھا کہ اس میں قدیم اسلوب درس کے علاوہ جدید انداز بھی کارفرما تھا۔ اور علوم وفنون نے جو پھیلاؤ اختیار کر لیا ہے اس کا تذکرہ نہایت مؤثر اور اچھوتے انداز میں ہوتا تھا۔ نیز قرآن کے جن جن پہلوؤں کو مستشرقین نشانہ اعتراض بناتے ہیں اس کی وضاحت کی جاتی تھی اور معترضین کے نئے اسلوب کلام میں جواب دیا جاتا تھا۔ (قافلہ حدیث ص/۲۷۶)
قرآن مجید سے محبت اور شغف کے نتیجہ میں آپ نے تفسیر سراج البیان اور مطالعہ قرآن تصنیف فرمائیں ۔ حدیث نبوی ﷺ سے بھی آپ کو بہت زیادہ شغف تھا ۔حدیث کے معاملہ میں معمولی سی مداہنتی بھی برداشت نہیں کرتے تھے ۔ جب بھی کسی طرف سے حدیث پر اعتراضات ہوئے اور تنقید کی جاتی ۔مولانا ندوی اس کا اسی وقت نوٹس لیتے تھے اور دلائل سے معترضین کے اعتراضات کا جواب دیتے تھے (اس سلسلہ میں ہفت روزہ الاعتصام کی فائلز دیکھی جا سکتی ہیں ۔ جو آپ کی ادارت میں ۱۹۴۹ء؁ میں شائع ہوا اور آپ اس کے جون ۱۹۵۳ء؁ تک ایڈیٹر رہے ) الاعتصام میں آپ نے محدثین کے حالات اور ان کی خدمت حدیث پر کئی مضامین لکھے ۔ حدیث نبوی ﷺ سے شغف اور محبت کے سلسلہ میں آپ نے مکالمہ حدیث کے نام سے کتاب تالیف فرمائی۔
صحافت
مولانا محمد حنیف ندوی کا صحافت سے بھی تعلق رہا ہے کئی رسائل کے آپ مدیر رہے ہیں اور کئی رسائل میں بطور مدیر معاون فریضہ انجام دیتے رہے ۔ تفصیل درج ذیل ہے ۔
۱۔ ماہنامہ ، اسلامی زندگی (لا ہور) یہ شرکت علمی لمیٹڈ(لا ہور) کا رسالہ تھا مولانا کچھ عرصہ اس کے مدیر رہے ۔
۲۔ ہفت روزہ ’مسلمان‘ (سوہدرہ) اس کے مالک ومدیر مولانا عبد المجید سدہدروی تھے اس میں آپ نے بطور مدیر معاون کام کیا۔ مولانا ندوی اس اخبار کو دینی وعلمی بنانا چاہتے تھے اور مولانا سوہدروی اس سے اتفاق نہیں کرتے تھے اس لئے آپ نے علیحدگی اختیار کر لی۔
۳۔ ہفت روزہ ’الاخوان‘ (گوجرانوالہ) انجمن اہلحدیث گوجرانوالہ نے جاری کیا مولانا ندوی کو ایڈیٹر مقرر کیا گیالیکن اس کا ایک ہی شمارہ شائع ہوا جو پہلا بھی تھا اورآخری بھی۔
۴۔ ہفت روزہ ’الاعتصام‘ (گوجرانوالہ ۔ لا ہور) اس اخبار کا ڈیکلرنیس مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ نے حاصل کیا اور اس کا پہلا شمارہ گوجرانوالہ سے اگست ۱۹۴۹ء؁ میں شائع ہوا ۔ مولانا محمد حنیف ندوی اس کے پہلے ایڈیٹر تھے ۔ آپ جون ۱۹۵۳ء؁ تک اس کے ایڈیٹر رہے ۔
تصانیف
مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ اعلیٰ پایہ کے مصنف بھی تھے آپ نے مختلف موضوعات پر کتابیں لکھیں یہ کتابیں آپ کے تبحر علمی ، ذوق مطالعہ اور وسعت معلومات کا آ ئینہ دار ہیں ۔ تفصیل درج ذیل ہے ۔
۱۔ تفسیر سراج البیان (۵ جلد)
۲۔ ترجمہ قرآن مجید مولانا فتح محمد جالندھری پر نظر ثانی
۳۔مطالب القرآن فی ترجمۃ القرآن
۴۔ ترجمہ صحیح بخاری بنام الاسوئہ
۵۔ گاندھی جی کی پیدا میں شردھا کے پھول
۶۔ مجبوریاں
۷۔ مسئلہ اجتہار
۸۔افکارابن خلدون
۹۔سرگزشتِ غزالی
۱۰۔ تعلیمات غزالی
۱۱۔ مکتوب مدنی
۱۲۔ افکار غزالی
۱۳۔ عقلیات ابن تیمیہ رحمہ اللہ
۱۴۔ مسلمانوں کے عقائد وافکار (۲ جلدیں )
۱۵۔ اساسیاتِ اسلام
۱۶۔ تہافتہ الاسلام (تلخیص وتفہیم)
۱۷۔ مطالعہ قرآن
۱۸۔ مطالعہ حدیث
۱۹۔ لسان القرآن (۲ جلدیں )
۲۰۔ چہرہ نبوت قرآن کے آئینہ میں
۲۱۔ مرزانیت نئے زاویوں سے
(چالیس علمائے اہلحدیث ص/۳۷۲، ۳۷۳)
جماعت اہلحدیث کیلئے خدمات
قیام پاکستان سے قبل آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس تھی اور صوبائی جماعت انجمن اہلحدیث پنجاب تھی۔ مولانا محمدحنیف ندوی ان دونوں جماعتوں کی مجلس عاملہ کے رکن تھے ۔ قیام پاکستان کے بعد مولانا سید محمد داؤد غزنوی ، شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی، مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کی سعی وکوشش سے مرکزی جمعیت اہلحدیث مغربی پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ مولانا سید محمد داؤد غزنوی کو صدر اور پروفیسر عبد القیوم کو جنرل سکرٹری بنایا گیا مولانا ندوی کو مجلس عاملہ وشوریٰ کارکن نامزد کیا گیا۔
اپریل ۱۹۵۵ء؁ میں لائل پور (فیصل آباد) میں سالانہ اہلحدیث کانفرنس ہوئی اس کانفرنس میں فیصلہ کیا گیا کہ جماعت اہلحدیث کا ایک مرکزی دار العلوم قائم کیاجائے علمائے کرام نے اس سے اتفاق کیا اس دار العلوم کانام مولانا ندوی نے الجامعۃ السلفیہ تجویز کیا ۔ جو بالاتفاق منظور ہوا۔
تلامذہ
مولانا محمد حنیف ندوی نے باقاعدہ کسی دار العلوم میں تدریس نہیں فرمائی لیکن جامعہ سلفیہ کے ابتدائی دور( لا ہور) میں اور ادارۃ العلوم الاثریہ (فیصل آباد) میں ان سے چند حضرات نے استفادہ کیا ۔ جن کے نام یہ ہیں ۔
حافظ عبد الرشید گوہڑ وی ، حافظ عزیز الرحمان لکھوی ، مولانا عبد الرشید (نومسلم) ، مولانا قاضی محمد اسلم سیف ، ڈاکٹر مجیب الرحمان صدر شعبہ اسلامیات راج شاہی یونیورسٹی (بنگلہ دیش) ، مولانا ارشاد الحق الاثری، صاحبزادہ برق التوحیدی، مولانا محمد مدنی(جہلم) مولانا محمد خالد سیف اسلامی نظرتی کونسل (اسلام آباد)
علمی تبحر
مولانامحمد حنیف ندوی رحمہ اللہ اپنے علمی مرتبہ کے لحاظ سے صاحب کمال تھے ۔ تفسیر قرآن، حدیث، فقہ الحدیث، تاریخ وسیر، اسماء الرجال، ادب وانشاء، فقہ واصول فقہ، فلسفہ وکلام، اور منطق ، لغت وعربیت اور صرف ونحو میں عبور واستحضار حاصل تھا۔ فلسفہ قدیم وجدید پر ان کی نظر بہت زیادہ وسیع تھی ۔ ان کے علمی تبحر اور صاحب فضل وکمال ہونے کی وجہ سے حکومت پاکستان نے ان کو اسلامی نظریاتی کونسل کارکن نامزد کیا آپ ۱۹۷۳ء؁ تا ۱۹۸۲ء؁ تک اس کے رکن رہے ۔
مولانا ندوی رحمہ اللہ کے علمی تبحر کا علمی حلقوں میں اعتراف کیا گیا ہے ۔ پروفیسر سراج منیر مرحوم لکھتے ہیں کہ مولانا محمد حنیف ندوی مرحوم کو علوم دینیہ کے تمام میدانوں میں یکسانیت حاصل تھی۔
پروفیسر حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ مولانا محمد حنیف ندوی بڑ ے عالم وفاضل، محقق ، مؤرخ ، فلسفی اور علوم جدیدہ کے ماہر تھے ۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ سیاسیات حاضرہ کے علاوہ عالمی سیاست سے بھی پوری طرح باخبر تھے ۔ بڑ ے خوش اخلاق وکردار کے مالک تھے مولانا ظفر علی خاں سے بہت زیادہ متاثر تھے ۔ اور ان کی علمی وسیاسی خدمات کے معترف تھے مجھ سے جب بھی ملاقات ہوتی مولانا ظفر علی خاں کے اشعار سننے کی فرمائش کرتے اور اشعار سن کر بہت محظوظ ہوتے تھے ۔
مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ ۱۹۰۸ء؁ میں گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے علوم اسلامیہ کی تحصیل شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی سے کی۔بعدازاں ندوۃ العلماء لکھنو میں داخل ہوئے ۔ اور پانچ سال ندوہ میں رہ کر سند حاصل کی۔ ۱۹۳۰ء؁ میں ندوہ سے فارغ ہوکر واپس وطن تشریف لائے کچھ مدت گوجرانوالہ میں رہے بعدازاں لا ہور میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ ۱۲ جولائی ۱۹۸۷ء؁ کو لا ہور میں (۷۹) برس کی عمر میں اس دنیائے فانی سے کوچ کیا۔ انا للہ وإنا إلیہ راجعون
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

محبتِ رسول اور اس کے تقاضے

از محمد الطاف خیرو

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: النَّبِیُّ أَوْلَی بِالْمُؤْمِنِینَ مِنْ أَنْفُسِہِمْ وَأَزْوَاجُہُ أُمَّہَاتُہُمْ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُہُمْ أَوْلَی بِبَعْضٍ فِی کِتَابِ اللَّہِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُہَاجِرِینَ إِلَّا أَنْ تَفْعَلُوا إِلَی أَوْلِیَائِکُمْ مَعْرُوفًا کَانَ ذَلِکَ فِی الْکِتَابِ مَسْطُورًا (الاحزاب:۶) نبی ﷺ مومنوں پر ان کی ذات سے زیادہ حق رکھتا ہے اور اس کی بیویاں ان کی مائیں ہیں اور رشتہ دار اللہ کی کتاب کے مطابق ایک دوسرے کیلئے مومنوں اور مہاجروں سے زیادہ حقدار ہیں سوائے اس کے کہ تم اپنے دوستوں کیلئے پسندیدہ طور پر کچھ کرو ۔ یہ کتاب میں لکھا ہوا ہے ۔
اسلام اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کا نام ہے اور اس ایمان کی سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ انسان کو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ باقی تمام چیزوں سے زیادہ محبت ہو اللہ کی محبت ایسی محبت کہ اس کے ساتھ کوئی بڑ ے سے بڑ ا انسان بھی اس محبت میں شریک نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّہِ أَنْدَادًا یُحِبُّونَہُمْ کَحُبِّ اللَّہِ وَالَّذِینَ آَمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّہِ البقرۃ:۱۶۵
کچھ لوگوں نے ایسے شریک بنا رکھے ہیں جن کے ساتھ وہ ایسی محبت کرتے ہیں جو کہ اللہ کے ساتھ کرنی چاہیے ۔ایمان والوں کی محبت تو اللہ کے ساتھ سب سے زیادہ ہوتی ہے ۔ اس سے بڑ ھ کر کسی کے ساتھ بھی ایمان والوں کی محبت نہیں ہوتی ۔اس کے بعد پھر رسول کریم ﷺ کی محبت ہے وہ اس طرح ہے کہ ایک طرف اللہ کے رسول ﷺ ہوں اور دوسری طرف کائنات کی کوئی بھی چیز ہو ، جب تک انسان رسول اللہ ﷺ کی محبت پر کسی دوسرے کو ترجیح دیتا ہے ، وہ سمجھ لے کہ اس کا ایمان مکمل نہیں ہوا جتنی اس محبت میں کمی ہو گی اتنی ہی ایمان میں کمی ہو گی چنانچہ رسول معظم ﷺ فرماتے ہیں : وَالَّذِی نَفسِی بِیَدِہِ لاَ یُومِنُ اَحَدُکُم حَتَّی اَکُونَ اَحَبَّ إِلَیہِ مِن وَّالِدِہِ وَوَلَدِہِ وَالنَّاسِ أَجمَعِینَ ۔
قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔ جب تک میں تم میں سے اپنے بیٹے اور والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں اس وقت تک کوئی شخص صاحب ایمان اور مسلمان نہیں ہو سکتا۔
اللہ نے ہمیں پیدا فرمایا ہے ہماری خواہشیں ، ہماری دلچسپیاں اور ہماری محبتیں اللہ تعالیٰ سے بڑ ھ کر کوئی نہیں جانتا۔ اللہ نے فرمایا :
﴿قُلْ إِنْ کَانَ آَبَاؤُکُمْ وَأَبْنَاؤُکُمْ وَإِخْوَانُکُمْ وَأَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیرَتُکُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَہَا أَحَبَّ إِلَیْکُمْ مِنَ اللَّہِ وَرَسُولِہِ وَجِہَادٍ فِی سَبِیلِہِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّی یَأْتِیَ اللَّہُ بِأَمْرِہِ وَاللَّہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِینَ﴾(التوبہ:۲۴)
کہہ دیجئے اگر تمہیں اپنے والدین اور بیٹے اور بھائی اور بیویاں اور رشتہ دار اور مال جو تم نے کمائے ہیں اور تجارت جس میں گھاٹے سے ڈرتے ہو اور تمہارے مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو ، تمہیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا عذاب لے آئے اور اللہ فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتے ۔
یعنی اللہ تعالیٰ انہیں رستہ دکھاتے ہی نہیں لہذا ایمان کا تقاضا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے سب سے بڑ ھ کر محبت ہو۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین چیزیں جس شخص میں آ جاتی ہیں ، وہ ایمان کی لذت پالیتا ہے اور ایمان کا ذائقہ چکھ لیتا ہے ان میں پہلی چیز اللہ اور اس کے حبیب ﷺ محبت رکھتا ہے
اس حدیث کو ایک مثال سے سمجھنا چاہیے :
شہد میٹھا ہے لیکن جو شخص بیمار ہوجاتا ہے جب وہ شہد کو منہ میں ڈالتا ہے تو اسے کڑ وا محسوس ہوتا ہے حالانکہ شہد کڑ وا نہیں بلکہ بیمار کے منہ کا ذائقہ خراب ہے اور اس کامزاج بگڑ چکا ہے ۔ بیماری کی وجہ سے اس کا احساس درست نہیں رہا ۔شہد میٹھا اسے ہی محسوس ہو گا جو تندرست ہو گا بیمارکو تو شہد کڑ وا ہی محسوس ہو گا۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺپر ایمان لانا بڑ ی ہی عزیز چیز ہے ۔
خبیب رضی اللہ عنہ نے بدر میں قریش کا ایک سردار قتل کرڈالا اس کے بعد ایک اور موقعہ پر وہ ایک جنگی مہم میں شامل ہوے تو اس میں گرفتار ہوگئے ۔ جس آدمی کو قتل کیا تھا ، اس کے وارثوں نے انہیں خرید لیا اور اعلان کر دیا کہ ہم انہیں قتل کر کے اپنا بدلہ لیں گے ایک دن مقرر ہو گیا کہ فلاں دن خبیب رضی اللہ عنہ کو سولی چڑ ھایا جائے گا۔ یہاں ایک بات سمجھنے کی ہے ، وہ یہ کہ پھانسی اور چیز ہے سولی اور چیز ہے ۔ پھانسی یہ ہے کہ گلے میں ایک رسی ڈال کر نیچے تختہ رکھا جاتا ہے ۔ اس کے نیچے ایک گڑ ھا ہوتا ہے وہ تختہ ہٹالیا جاتا ہے تو وہ شخص پھندے کے ساتھ جھولتارہتا ہے اس کا گلا گھٹتا ہے اور یوں وہ مرجاتا ہے لمحے کی بات ہوتی ہے یا چند لمحوں کی مگر سولی والی موت بہت المناک سزا ہوتی ہے سولی کے لیے ایک اونچا لمبا کھمبا گاڑ دیا جاتا ہے ۔ اس کے اوپر ایک آڑ ی ترچھی لکڑ ی رکھی جاتی ہے جیسے صلیب ہوتی ہے پھر جس شخص کو سولی دینا ہوتی ہے ، اس کے جسم کو سیدھی لکڑ ی کے ساتھ اور ہاتھ ترچھی لکڑ ی کے ساتھ باندھ دیئے جاتے ہیں پھر اس کو نیزوں اور تلواروں کے کچو کے دے دے کر مارا جاتا ہے یا بعض کو اسی طرح چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ وہ دھوپ میں پڑ ا رہے اور پرندے اور درندے اسے آ کر نوچتے رہتے ہیں یہ بڑ ی ہی خوفناک سزا ہے ۔
اب خبیب رضی اللہ عنہ کو سولی چڑ ھا دیا گیا انہیں ایک ظالم کافر نے نیزے سے کچو کہ مارا اور کہنے لگا ، آج تو پسند کرتا ہو گا کہ تیری جگہ محمد ﷺ ہوتے اور تو ان کے بدلہ میں چھوڑ دیا جاتا تیرا کیا خیال ہے ؟ وہ کہنے لگے ، میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ محمد ﷺ کو کانٹا بھی چبھے اور میری جان بچ جائے حقیقت یہ ہے کہ مسلمان کا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ تعلق اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ اتنا کسی اور کے ساتھ ایسا مضبوط تعلق نہیں ہو سکتا۔ اگر ہوتو پھر سمجھ لو کہ اس کے ایمان میں کمی ہے نبی ﷺ نے فرمایا: ایمان کا ذائقہ وہ شخص چکھتا ہے جس میں تین چیزیں ہوں : پہلی چیز یہ کہ اسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ باقی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوں ۔ دوسری یہ کہ کسی شخص سے محبت رکھے تو صرف اللہ کے لیے محبت رکھے ، یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ جس سے مسلمان محبت رکھے اللہ کی خاطر رکھے ۔ جوشخص دنیا کی طمع رکھتا ہے ، وہ ایمان کی لذت سے کسی صورت آشنا نہیں ہو سکتا۔ ایسا آدمی طامع اور لالچی ہے جہاں لالچ نظر آتا ہے اس طرف بڑ ھ جاتا ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور ایمان سے اس کا کیا واسطہ؟ اس قسم کا شخص بھی ایمان کی لذت سے کبھی آشنا نہیں ہو سکتا۔ یہاں ایک بات سمجھنے کی ہے ایک حب طبعی ہوتی ہے اور ایک حب عقلی وایمانی ۔ حب طبعی کا معنی طبیعت کے تقاضے کی وجہ سے محبت ہے حب عقلی وایمانی کا مطلب یہ ہے کہ عقل کا تقاضا ہے کہ اس سے محبت کی جائے جیسا کہ ہمیں بے شمار دلائل سے معلوم ہوا ہے کہ اللہ کا ہم پر یہ سب سے بڑ ا احسان ہے کہ اس نے ہمیں پیدا کیا اس لیے اس کا حق ہے کہ اس سے محبت رکھیں اور اس کی عبادت کریں اس کے بعد رسول اللہ ﷺ اور یہ اس کا ہم پر احسان ہے کہ ان کے ذریعے ہمیں سیدھا راستہ معلوم ہوا ان کاحق ہے کہ ہم ان سے محبت کریں اور ان کی اطاعت کریں چونکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہمارے تمام دوستوں اور عام لوگوں سے زیادہ ہمارے خیر خواہ ہیں اس لئے جب ہماری طبیعت کی محبوب چیزوں اور اللہ اور اس کے رسول کی محبت کے درمیان مقابلہ ہوتو ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے مقابلے میں کسی چیز کو ترجیح نہ دیں ۔ وہ ہمارے ان تمام رشتوں ، لوگوں اور چیزوں سے زیادہ خیرخواہ ہیں کہ ایک طرف بیٹے ، بیوی کی محبت کا تقاضا ہے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی محبت کا تقاضا ہے محمد رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ ایسی حالت میں پتہ چلتا ہے کہ بندہ کس طرف جاتا ہے ؟ تیسری چیز یہ ہے کہ ایمان لانے کے بعد مومن کو کفر کی طرف لوٹناآگ میں گرائے جانے سے برا معلوم ہو۔
سنن ترمذی میں ایک حدیث ہے کہ نبی ا کے ایک صحابی مرثد رضی اللہ عنہ بہادر اور دلیر تھے ۔ جب یہ مسلمان ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے ان کی ذمہ داری ایک نہایت مشکل کام پر لگا دی۔ مکے میں کافروں نے اپنے کچھ عزیزوں کو ہجرت سے روک کر ان کو زنجیروں سے باندھ رکھا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے مرثد! تم نے پہلے ان کا پتہ کرنا ہے کہ قیدی کہاں ہیں پھر ان کے نکالنے کی سبیل کرنی ہے پھر وہاں سے انہیں نکال کر مدینہ لانا ہے ۔ بھائیو! دشمنوں کے گھر میں جا کر جہاں کوئی مونس ومددگار نہیں ، وہاں اکیلے شخص کا ایسی ڈیوٹی کرنا کتنا مشکل کام تھا۔ وہ زمانہ جاہلیت میں نقب زنی کرتے رہے تھے ، ڈاکے مارتے رہے تھے ۔ قدرت نے وہ ساری تربیت ایک سیدھے کام کی طرف لگادی یہ مکہ میں ایک دیوار کی اوٹ میں چھپ کر کھڑ ے تھے تو عناق نامی ایک عورت نے انہیں دیکھ لیا (یہ کبھی زمانہ جاہلیت میں ایک دوسرے سے عشق ومحبت کرتے تھے ) اس نے کہا مرثد ہو؟ فرمایا: ہاں مرثد ہوں کہتی ہے مرحباً۔ آؤ پھر آج رات ہمارے پاس گزارلو ، اب دیکھتے خواہش نفس پوری کرنے کا مکمل موقع ہے ۔ مرثد نے کیا ایمان افروز جواب دیا۔ فرمایا اے عناق! اسلام میرے اور تیرے درمیان رکاوٹ بن کر کھڑ ا ہو گیا ہے ۔ اِنَّ اللّٰہَ قَد حَرَّمَ الزِّنَا۔ اللہ تعالیٰ نے زنا کو حرام قرار دے دیا ہے ۔
حالانکہ مرثد کو خوب معلوم تھا کہ اگر اس کی خواہش پوری نہ کروں گا تو یہ شورمچائے گی ایک طرف رسول اللہ ﷺ کے فرامین ہیں کہ زنا حرام ہے تو دوسری طرف پرانی محبت چھوڑ دی ۔
قارئین کرام! ایسی محبت مصیبت ہوتی ہے مرثد کی اللہ اور اس کے رسول سے ایمانی محبت تھی۔ اس لئے انہوں نے کافرہ عورت سے تعلقات توڑ ڈالے اور بھاگ کر ایک جگہ چھپ گئے ۔ فرماتے ہیں میں جس جگہ چھپا ہوا تھأ وہاں ایک کافر نے پیشاب کیا تو اس کی دھار مجھ پر پڑ ی لیکن اللہ نے کافر کو اندھا کر دیا اور وہ مجھے دیکھ نہ سکا۔ اس کے بعد میں اس جگہ پہنچا جہاں وہ قیدی تھا جسے نکالنا تھأ اس کی زنجیریں کھولیں اور اپنے ساتھ مدینہ لے آیا۔ پھر میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! میں عناق سے نکاح کر لوں ؟ آپ ﷺ نے یہ آیت پڑ ھی۔
﴿ الزَّانِی لَا یَنْکِحُ إلَّا زَانِیَۃً أَوْ مُشْرِکَۃً وَالزَّانِیَۃُ لَا یَنْکِحُہَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِکٌ وَحُرِّمَ ذَلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ ﴾(النور:۳)
زانی نکاح نہیں کرتا مگر کسی زانیہ یا مشرکہ سے اور زانیہ کے ساتھ نکاح نہیں کرتا مگر کوئی زانی یا مشرک اور یہ چیز مومنوں پر حرام کر دی گئی ہیں ۔
یہ آیت پڑ ھ کر آپ ﷺ نے فرمایا : اس سے نکاح مت کرو اس آیت میں زانی اور مشرک کو اکٹھا ذکر کیا گیا کیونکہ مشرک بے غیرت ہوتا ہے ، اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک کرتا ہے اور زانی بھی بے غیرت ہوتا ہے جو اپنی محبوبہ میں غیر کی شرکت کو برداشت کرتا ہے ۔
رسول اللہ ﷺ کے صحابہ نجد کے بادشاہ ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کو گرفتار کر کے لے آئے ۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اسے مسجد کے ستون کے ساتھ باندھ دو ۔ نبی ﷺ مسجد میں تشریف لائے پوچھا: ثمامہ کیا حال ہے ؟ کہا ٹھیک ہے ۔اگر آپ قتل کریں گے تو اس شخص کو قتل کریں گے جس کے خون کا بدلہ لینے والے موجود ہیں اور اگر احسان کر دو تو ایک قدر دان شکر گزار پر احسان کرو گے ۔ اگر دولت چاہتے ہوتو میں دولت منگوا کر دے دیتا ہوں ۔ نبی ﷺ نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا ۔ مقصود یہ تھا کہ یہ مسجد میں مسلمانوں کی عبادت باہمی محبت اور اخلاق دیکھے کیونکہ سنا سنایا تو بہت کچھ ہوتا ہے جو خلاف اسلام ہوتا ہے لیکن دیکھنے میں فرق ہوتا ہے چنانچہ نبی ﷺ دوسرے دن پھر تشریف لائے تو آپ ا نے پھر اس سے احوال دریافت فرمایا: اس نے پھر یہی تینوں باتیں دہرائیں ۔ تیسرے دن پھر آپ ﷺتشریف لائے تو اس نے پھر یہی الفاظ دھرائے نبی ﷺ نے فرمایا : اَطلِقُوا ثَمَامَۃَ ثمامہ کو آزاد کر دو۔
اس کے بعد ثمامہ ایک آدمی سے پوچھتا ہے ۔ بھائی جان ! بتاؤ مسلمان ہونے کا طریقہ کیا ہے ؟ اس نے کہا غسل کرو کلمہ پڑ ھو تو مسلمان ہوجاؤگے ۔ اس آدمی نے قریب کے چشمہ کی طرف رہنمائی کی۔ وہ وہاں گیا غسل کیا اور آ کر کلمہ پڑ ھا ۔ اشہد ان لا إلہ إلا اللہ واشہد أن محمداً عبدہ ورسولہ ۔ اب جو میں بات کرنا چاہتا ہوں ، وہ اس سے آگے ہے ۔ ثمامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں یا رسول اللہ ! ایمان لانے سے پہلے اس روئے زمین پر کوئی چہرہ آپ ﷺ سے زیادہ برا چہرہ نظر نہیں آتا تھا مجھے سب سے زیادہ نفرت آپ ﷺ سے تھی۔ اب یہ حال ہے کہ اس دنیا میں آپ کے چہرے سے زیادہ محبوب چہرہ میری نظر میں کوئی نہیں ۔
ذرا غور کرنا ہے کہ اسلام قبول کیے ثمامہ رضی اللہ عنہ کو کتنی مدت ہوئی ہے ؟ لیکن آپ ﷺ کی شکل وصورت سے کس حد تک پیار ہے ۔ ایک ہم بھی مسلمان ہیں ۔ 60,50,40اور70 سال عمر گزار چکے ، جانتے بھی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی شکل وصورت کیسی تھی؟ آپ نے داڑ ھی پوری رکھی تھی ۔ آپ سیدھی مانگ نکالتے تھے آپ کا لباس کیسا تھا؟ مگر عمر کا طویل عرصہ گزارنے کے باوجود ہم میں نبی ﷺ کے ساتھ اتنی محبت بھی پیدا نہیں ہو سکی کہ ہم اپنی شکل ہی نبی ﷺ کی شکل مبارک کے مطابق بنالیں ۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ سے سچی محبت کرنے والا بنا دے اور ہمیں علم نافع عطا فرمائے ۔ آمین
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

دل کی آواز

از فضیلۃ الشیخ بشیر احمد

زندہ اور صاحب بصیرت قومیں اپنے مستقبل کی ترقی وبقا کی خاطر نئی نسل کو حالات کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑ تیں بلکہ ان کے ذہنی ارتقا اور دماغی نشو ونما کیلئے نظام تعلیم اور تعلیمی اداروں کو خوب سے خوب تر بنا کر نئی نسل کی مسلسل راہنمائی کرتی ہیں ۔ تاکہ وہ ترقی کی منازل سے طے کرسکیں ۔ ہر قوم کا نظام تعلیم اس کے نظریہ ، حیات ، امنگوں ، ارادوں اور تہذیبی محاسن کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔اس لئے ہر زندہ قوم اپنے تشخص اور ملی وجود کو برقرار رکھنے کیلئے اپنا نظام تعلیم اس طرح مرتب کرتی ہے کہ اس میں انقلابی رنگ نمایاں نظر آئے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دینی مدارس ہی ملت اسلامیہ کے وہ مضبوط قلعے ہیں جن میں بیٹھ کر کفر والحاد کی تحریکوں کا مقابلہ کیا جاتا رہا ہے اور انہی کے سائے میں روحانیت کی آبیاری ، اذہان کی تطہیر ، کردار کی تعمیر اور نفوس کا تذکیہ ہوتا رہا ہے ۔ اور ایسے افراد کی تعمیر ہوتی رہی ہے جو دین حنیف کی سربلندی اور فتنوں کی سرکوبی کیلئے ہر میدان میں ہمہ وقت مصروف عمل رہے ہیں ۔

ہمارے اسلاف میں مدارس سے فارغ التحصیل ہوتے وقت علمی جامعیت اور شخصی وقار کی خوبیاں بہت نمایاں ہوا کرتی تھیں وہ علوم وفنون کے کسی بھی شعبے میں کسی سے پیچھے نہیں رہتے تھے وہ قاضی ، مفتی ، خطیب اور مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ سرکاری اور انتظامی عہدوں پر کام کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے تھے مگر ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ آج ہمارے طلباء کا یہ معیار باقی نہیں رہا۔
آج اکثر فارغ التحصیل فضلاء عصری مشکلات کا حل پیش کرنے سے قاصر ہیں دور حاضر کے سیاسی ، اقتصادی اور سماجی مسائل سے عدم واقفیت کی وجہ سے ہمارے فضلاء قومی قیادت اور ملّی رہنمائی سے پیچھے ہٹ رہے ہیں ۔ اور خدمت وعمل کا میدان غیر اسلامی فکر وذہن رکھنے والے لوگوں کیلئے خالی چھوڑ تے جا رہے ہیں ۔
جس مقدار میں مدارس ، کتب ، معلم ومتعلم اور اسباب وذرائع آج مہیا ہیں اس سے پہلے اتنی بڑ ی تعداد میں نہیں تھے لیکن اس کے باوجود ہر میدان میں قحط الرجال کا سماں ہے آخر اس کی کیا وجہ ہے ؟
میرے خیال میں اس کے متعدد اسباب میں سے سب سے بڑ ا سبب نصاب تعلیم ، طریقۂ تعلیم اور عملی تربیت کا فقدان ہے جسکا نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ تقریباً ابتداء تا انتہاء تمام جماعتوں میں عربی گرائمر اور ادب پڑ ھا یا جاتا ہے اور طلبانے تمام قواعد وأمثلہ کو حفظ کیا ہوتا ہے لیکن عملی میدان میں عربی زبان میں ایک صفحہ کا مضمون لکھنے یا بولنے سے اکثر قاصر ہوتے ہیں یہی حال اصول فقہ ، اصول حدیث اور دیگر فنون کا ہے ان کے عملی استعمال سے طلباء ناواقف ہوتے ہیں ۔
سب سے بڑ ا المیہ یہ ہے کہ فارغ التحصیل فضلاء کو بغیر تربیت وتجربہ کے عملی میدان میں داخل کر دیا جاتا ہے وہاں بھی وہ بغیر کسی رہنما کے خود ہی تجربات کے میدان عبور کرتے رہتے ہیں آخر کار زندگی کا طویل حصہ طے کرنے کے بعد اور قوم کے بہت سارے افراد اور مال ضائع کرنے کے بعد بمشکل ایسے مقام پر پہنچتے ہیں کہ عملی میدان کا آغاز کرسکیں ۔
علماء کرام کے سامنے تین عملی میدان ہوتے ہیں : تبلیغ ، تصنیف اور تدریس ۔ جب فارغ التحصیل فاضل کو ان تینوں میں سے کسی میدان کی مکمل تربیت اور رہنمائی نہ دی گئی ہوتو وہ کس طرح کامیاب زندگی کی ابتداء کرسکتا ہے ۔
ڈاکٹری کا اعلیٰ ڈپلومہ حاصل کرنے والا ڈاکٹر اس وقت تک کسی مریض کو چیک کرنے کا حقوق نہیں رکھتا جب تک اس نے کسی ہسپتال میں عملی تجربہ نہ کیا ہو۔
میں عرصہ دراز سے اس سوچ میں رہا کہ موجودہ قحط الرجال کا مداوا کیا ہو سکتا ہے ؟ اور رجال العصر کس طرح تیار کیے جا سکتے ہیں ؟
اس حال کیلئے ایک کرن نظر آتی تھی لیکن بے سروسامانی اور کم ہمتی کی وجہ سے کوئی قدم نہ اٹھا سکا اپنے دل کی آواز کو الفاظ کی زبان سے بیان کرنا چاہتا ہوں کہ شاید کوئی دین محمد ﷺ کا درد رکھنے والا اور بلند حوصلہ آدمی اس کو عملی جامہ پہنا سکے ۔
وہ یہ کہ اولاً ملکی سطح پر پھر صوبائی سطح پر تعمیر انسانیت کا ایسا ادارہ قائم کیا جائے جس میں مدارس کے ایسے فارغ التحصیل طلبائے کرام کو کورس کرایا جائے جودینی وعصری دونوں تعلیموں سے آراستہ ہوں اور اس میدان میں مزید نکھار پیدا کرنے کے خواہشمند ہوں انہیں پہلے سال میں علوم اسلامیہ کے پڑ ھے ہوئے فنون میں مہارت تامہ کے ساتھ عملی میدان سے گزارا جائے اور دوسرے سال میں طلباء کی صلاحیت اور ذوق کے مطابق تدریس ، تبلیغ اور تصنیف کی الگ الگ جماعت بندی کی جائیں اور ہر میدان کے اصول وضوابط ماہر اساتذہ کرام کے ذریعہ مکمل کرائے جائیں اور آخری مکمل سال طلباء کرام کو عملی میدان سے اس طرح گزارا جائے کہ مشکل سے مشکل مرحلہ کو بھی باآسانی عبور کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجائے ۔ مثلاً
مبلغین کو ادارہ کے علاوہ مختلف مساجد، علمی مجالس، عوامی جلسوں اور کانفرنسوں میں شریک کیا جائے اور اساتذہ کی نگرانی میں انتہائی علمی اور مدلل انداز میں بیان کرایا جائے اور روزانہ انٹرنیٹ پر دروس کرائے جائیں ۔ اس طرح طلباء کی تربیت اور عالمی سطح پر تبلیغ دونوں کے مفید نتائج پر آمد ہونگے ۔ اور شعبہ تدریس کو تدریس کے جدید اسلوب کی عملی مشق کرائی جائے ۔ اور مختلف مدارس، سکولوں اور کالجوں میں اساتذہ کی زیرنگرانی اسباق پڑ ھانے کے مواقع دئیے جائیں اور اساتذہ مکمل رہنمائی کرتے رہیں ۔
اور اس طرح شعبہ تصنیف کے طلباء کرام کو مختلف عنوانات پر مضامین لکھنے ، عربی کتب کے تراجم اور تخریج وتحقیق کی مشق کرائی جائے الغرض تینوں شعبہ جات کے طلبائے کرام کو اس قدر پختہ کیا جائے کہ فی البدیہہ کسی بھی موضوع پر بہترین تقریر وتصنیف کی لیاقت رکھتے ہوں ۔اگر ہر سال ہر شعبہ کے دس افراد بھی تیار ہوجائیں تو چند سالوں میں قحط الرجال میں کافی قلت آ سکتی ہے ۔ایسے افراد کی تیاری کیلئے ضروری ہے کہ کسی بڑ ے شہر کے اچھے ماحول میں ، جدید سہولیات سے آراستہ عمارت کا انتظام کیا جائے طلباء کے بہترین قیام وطعام کے ساتھ اچھا وظیفہ مقرر کیا جائے اور دینی وعصری تعلیم سے آراستہ انتہائی محنتی وماہر اساتذہ کرام کا انتخاب کیا جائے اور گاہے بگاہے جیّد علمائے کرام ، قائدین پروفیسرز، ایڈیٹرز اور سکالر حضرات کے علمی پروگرام کرائے جائیں ۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

مصیبتوں ، تکلیفوں اور بیماریوں کے علاج کے لئے اسوۂ حسنہ

بقلم : فضیلۃ الشیخ ابو عبدالمجید
ترتیب: ابراہیم زکریا

قارئین کرام!کسی کی شادی کیلئے فال نکلوانا یا میاں بیوی کے مسائل کیلئے کسی سے فال نکلوانا یا استخارہ کرانا حرام ہی نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ نے اسے کفرقراردیا ہے ۔ مسند احمد، سنن أبی داؤدوابن ماجہ وغیرہ
٭ ہر خیر کے حصول اور ہر برائی سے بچنے کیلئے مندرجہ ذیل امور کا بجالانا ضروری ہے
۱۔ سب سے پہلے یہ عقیدہ رکھنا کہ ہرمخلوق زندہ یا فوت شدہ، نبی ہو یا ولی سب اللہ کے سامنے بے اختیار، اور انتہائی کمزور ہیں ، سارا اختیار اللہ رب العالمین کو ہے وہی اکیلا سب کا خالق اور مالک ہے ۔ وہی اللہ علی کل شئی قدیر (ہر چیز پرقادر ) ہے اور سب کی پیشانی اور دل اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں ۔
۲۔ شیطان ، نفسِ انسان اور اللہ تعالیٰ کے دشمن یعنی یہود ونصاریٰ کو اپنا دشمن سمجھنا۔
شیطان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
إِنَّ عِبَادِی لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطَانٌ إِلَّا مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْغَاوِینَ الحجر:۴۲
جب شیطان نے اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ میں تیرے سارے بندوں کو گمراہ کروں گا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تو جو کچھ کر سکتا ہے کر لے لیکن جو میری بندگی کرنے والے ہوں گے میں ان پر تیرا ایک وار بھی نہیں چلنے دوں گا۔ لیکن جو تیری پیروی کرے گا میں تجھے بھی اور انہیں بھی جہنم میں ڈال دونگا ۔
دوسری جگہ فرمایا ﴿وَمَنْ یَعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمَنِ نُقَیِّضْ لَہُ شَیْطَانًا فَہُوَ لَہُ قَرِینٌ ٭وَإِنَّہُمْ لَیَصُدُّونَہُمْ عَنِ السَّبِیلِ وَیَحْسَبُونَ أَنَّہُمْ مُہْتَدُونَ﴾( الزخرف:۳۶۔۷۳)
یعنی جو بھی رحمن کی فرمانبرداری سے ذرا سا بھی جان بوجھ کر چشم پوشی کرے گا ہم اس پر خود ہی شیطان مسلط کر دیں گے ۔پس وہ شیطان اس انسان کا ساتھی بنا رہے گا اور یہ لوگ انہیں اللہ کے راستے سے روکیں گے اور وہ سمجھیں گے کہ ہم ہی ہدایت پر ہیں ۔
٭ لہذا ہم جتنا بھی اللہ کے قریب ہوں گے قرآن پاک سمجھ کر صحیح پڑ ھیں گے ، زبانی یادکریں گے ، رسول اللہ ﷺ کی صحیح سنت کے مطابق عمل کریں گے اور انہی دو چیزوں (یعنی قرآن اور حدیث) کی دعوت دیں گے تو ہم سے شیطان ڈرے گا اور دور بھاگے گا اور ہم جتنا اللہ سے دور جائیں گے اتنا ہمارے دلوں میں شیطان کا ڈر اور خوف آئے گا اور پھر ہم شیطان کے حوالے ہوجائیں گے ۔
٭ لہذا قرآن ، نماز یا اذکار جو بھی پڑ ھیں سمجھ کر پڑ ھیں ۔ہر قسم کے اذکار کے الفاظ، انہیں پڑ ھنے کے اوقات اور پڑ ھنے کی تعداد کو خاص کرنے کیلئے رسول اللہ ﷺ سے ثبوت ضروری ہے یعنی ان کی سند صحیح احادیث سے ثابت ہو۔
٭آنے والی آفتوں سے بچنے اور آئی ہوئی آفتوں کے علاج، سب کیلئے مسنون اذکار ہی کافی ہیں ۔ اذکار (یعنی فرمان الٰہی کی پابندی) کرنے والے کی مثال رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق یوں سمجھیں جیسا کہ کسی کے پیچھے طاقتور دشمن ہو اور وہ دشمن سے ڈرکر کسی مضبوط قلعہ میں پناہ گزیں ہوجائے ۔
٭ رات کو اٹھ کر کم از کم دو رکعتیں پڑ ھ کر اللہ تعالیٰ سے صحت وعافیت اور ہر غم وپریشانیوں کا علاج طلب کریں کہ خود اللہ رب العالمین آسمان دنیا پر تشریف لا کر بندوں سے کہتا ہے کہ کوئی ہے جو مجھ سے مانگے میں دینے کیلئے آیا ہوں ۔
٭ حقوق اللہ اور حقوق العباد میں تمام کوتاہیوں اور سستی سے توبہ کرے ۔
٭ حقوق فوراً ادا کرے ، کوتاہی پرسخت شرمندگی ہو اور آئندہ کسی بھی قسم کی کوتاہی نہ کرنے کا عزم مصمم کرے ۔
٭ فرض صلوات (پنجوقتہ نمازوں )کو باجماعت تکبیر اولی کے ساتھ ادا کرنے کی پابندی کرے اور کوشش کرے کہ اذان سے پہلے مسجد میں موجود ہو نیز خواتین وقت پر نماز ادا کریں ۔
٭ سنن مؤکدہ ادا کرے ، خوب دعائیں کرے ۔
٭صلوات (نمازوں ) میں خوب رویا کرے اگر رونا نہ آ سکے تو رونے کی کوشش کرے ۔
٭ ہر صلاۃ فریضہ (فرض نماز) کے بعد کے اذکار پابندی سے پڑ ھے ، مثلاً / آیۃ الکرسی ایک مرتبہ، تینوں قل، ایک ایک مرتبہ وغیرہ
٭ حصن المسلم (طبع دار الاندلس یا دار السلام ) حصن المؤمن (طبع جامع مسجد اہلحدیث کورٹ روڈ) یا ان جیسی اذکار کی مستند کتاب ہمیشہ ساتھ رکھے ، جو دعا جس موقع پر اور جتنی تعداد میں پڑ ھنا رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہو اس کی پابندی کرے ، جیسے صبح وشام کے اذکار ، سونے جاگنے کے اذکار، آنے جانے کے اذکار، کھانے پینے کے اذکار وغیرہ۔
صحیح بخاری میں رسو ل اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ جس نے رات کو سونے سے پہلے آیۃ الکرسی پڑ ھ لی اللہ تعالیٰ اس پر فرشتہ نگراں مقرر کرے گا اور صبح تک شیطان اس کے قریب نہیں آ سکے گا۔ اور فرمایا : کہ جو رات کو سورۃ البقرۃ کی آخری دو آیتیں پڑ ھے گا ، یہی دونوں آیتیں اس کیلئے ہر شر (برائی) سے کافی ہوجائیں گی۔
صحیح مسلم میں ہے کہ جس نے أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ صبح وشام پڑ ھ لی ، اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
سنن أبی داؤد میں یہی دعا تین تین دفعہ صبح وشام پڑ ھنے کا آیا ہے ۔ اسی طرح بِسمِ اللّٰہِ الَّذِی لَا یَضُرُّ مَعَ اسمِہِ شَیئٌ فِی الأَرضِ وَلاَ فِی السَّمَائِ وَہُوَ السَّمِیعُ العَلِیمُ صبح وشام تین دفعہ۔
حَسبِیَ اللّٰہُ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ ہُوَ عَلَیہِ تَوَکَّلتُ وَہُوَ رَبُّ العَرشِ العَظِیمِ سات سات دفعہ صبح وشام۔
۱۔ سُبحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمدِہِ سو(۱۰۰) مرتبہ صبح وشام ۔
۲۔ لاَاِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ ، لَہُ المُلکُ وَلَہُ الحَمدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَئٍ قَدِیرٌ۔صبح وشام سو(۱۰۰) دفعہ۔
نوٹ : نمبر (۱) اور نمبر(۲) یہ دونوں دعائیں ہر وقت زبان پر رہنی چاہیے ہیں ۔ (صحیح بخاری)
٭ صبح سے مراد فجر کے بعد اور شام سے مراد عصر یا مغرب کے بعد کا وقت ہے ۔
نوٹ : خواتین ما ہواری کے أیام میں اذکار مسنونہ کا خاص اہتمام کریں وہ صرف نماز نہیں پڑ ھ سکتیں باقی ہر ذکر واذکار کرنا بہت ضروری ہے چونکہ جسمانی اور ایمانی کمزوری ان دنوں میں زیادہ ہوتی ہے اگر اذکار مسنونہ ترک کریں گی شیطان کا تسلط زیادہ ہو گا لہذا ان دنوں میں زیادہ سے زیادہ اللہ کی فرمانبرداری کی کوشش کریں ۔ واللہ الموفق
٭ کسی مریض کو دم کرنا جائز ہے اور یہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت بھی ہے لیکن اس کی عادت ڈالنا کہ ہمیشہ کسی کے محتاج ہوکر دوسروں سے ہی دعا کراتے رہنا اور خود دعا نہ کرنا اور خود کو کمزور سمجھنا کہ ہم گناہ گار ہیں اللہ ہماری نہیں سنے گا ، ایسا درست نہیں ہے بلکہ شریعت کا حکم ہے کہ خود کتاب وسنت کے عالم بنو اور کتاب وسنت پر عامل بنو۔
اللہ رب العالمین فرماتا ہے :﴿أُجِیبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ﴾(البقرۃ:۱۸۲)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں دعا کرنے والے کی دعا کا جوا ب دیتا ہوں پس انہیں چاہیے کہ وہ مجھ سے ہی طلب کریں (مانگیں ) اور مجھ پر ایمان لائیں اسی میں ان کیلئے بھلائی ہے ۔
٭عالم الغیب والشھادۃ ، خالق ومالک کے دروازے پر ہمیشہ دستک دیں ، اور توکل ، بھروسنہ اور یقین صرف اسی پر کریں ۔
٭ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو ہمارے لئے بطور امتحان دشمن بنایا ہے ا سکے اپنے اختیارات بہت محدود ہیں ۔شیطان صرف وسواس کے ذریعے ڈراتا دھمکاتا ہے جیسے دودھ ابلنے لگے ، اگر ہم ڈر کر بھاگیں گے تو کتنا نقصان ہو گا ؟ اور گندگی بھی ہو گی اور اگر آگے بڑ ھ کر آگ بجھا دیں تو کتنا فائدہ ہو گا؟
٭ شیطان کتے کی طرح ہے آپ اگر پتھر اٹھائیں گے کہ میں اس کتے کو مار بھگاؤں لیکن جیسے آپ اس پر پتھر پھینکیں گے وہ پہلے سے بھی زور دار حملہ کرے گا ،۔ اور جب آپ اس کے مالک سے کہیں گے تو وہ اس کتے کو اشارہ کرے گا اور وہ کتا آپ کو چھوڑ کر اپنے مالک کے پاس جا کر دُم ہلانے لگے گا بعینہ شیطان کو بھی اس کا مالک (یعنی اللہ) ہی قابو کرسکتا ہے ۔ اسی لئے اسی سے مدد مانگنی چاہیے ۔
٭ مریض خود پڑ ھ سکتا ہے تو اسے سورۃ الفاتحہ ترجمہ کے ساتھ یاد کرائیں تاکہ سمجھ کر پڑ ھے اور اللہ تعالیٰ پر یقین کرے اور دیگر اذکارِ مسنونہ بھی۔
٭ اگر مریض نہیں پڑ ھ سکتا تو اس کا کوئی قریبی رشتہ دار یا دوست وضوء کر لے اور دو رکعت نماز ادا کرے ، خشوع وخضوع کے ساتھ پڑ ھے ، اللہ تعالیٰ سے خصوصی مدد مانگے ۔
٭ اور اگر خطرہ محسوس ہو کہ مریض لڑ ے گا یا بھاگے گا تو اس کے ہاتھ پیر باندھ دے ۔
٭ مریض اگر مرد ہو یا محرم ہوتو اس کے سر پر یا درد کی جگہ پر ہاتھ رکھ لے اور اگر نا محرم ہوتو مکمل پردہ ہو اور محرم کو ساتھ ضرور بٹھائے اور نامحرم کو ہاتھ نہ لگائے ۔
٭ اگر سورتیں زبانی یاد ہوں تو زبانی پڑ ھ لے ، بلند آواز سے پڑ ھے ، زبانی پڑ ھنے کیلئے مندرجہ ذیل سورتیں کافی ہیں اور بار بار (تکرار) سے پڑ ھتا رہے : سورۃ الفاتحہ، آیۃ الکرسی اور چاروں قل وغیرہ۔
٭ اگر چاہے تو قرآن پاک دیکھ کر بھی پڑ ھ سکتا ہے ، پورے قرآن کو اللہ تعالیٰ نے شفا قرار دیا ہے ۔
٭ کسی خاص سورت کو خاص تعداد کے ساتھ مقرر کرنے کی ضرورت نہیں ہے جب تک کسی صحیح حدیث سے ثابت نہ ہو۔
٭ یہ پابندی نہیں ہے کہ ایک ہی شخص پڑ ھتا رہے ، ضرورت پڑ نے پر کوئی دوسرا بھی پڑ ھ سکتا ہے ، مثلاً : والد صاحب ، والدہ صاحبہ ، بھائی، بہن، بیٹا ، خاوند ، بیوی ، بیٹی ، باری باری پڑ ھ سکتے ہیں ۔
٭ضرورت پڑ نے پر ڈنڈا مارکے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن صرف پاؤں کے تلوے پر یا رانوں پر یا جہاں گوشت ہو، یا ہاتھ کی چھوٹی انگلی (چھنگلی) کو پکڑ کر الٹی طرف ہلکا ہلکا دبایا جائے تاکہ قرآن پاک کے ذریعے خبیث روح کو ذہنی اور جسمانی دونوں طرح تکلیف ہو ، مزید ضرورت پڑ نے پر بیری کے سات تازہ پتے لیکر دھو کر پیس لیں ، بالکل باریک کر کے اور پانی میں حل کر کے پلائیں اور اسی پانی سے پورا جسم تر کریں ، زیتون کا تیل بھی پورے جسم پر ملیں ، جب تک اللہ شفا نہ دے یہ عمل دہراتے رہیں ۔
٭ شہد ، کلونجی، انجیر ، زیتون، زیتون کا تیل اور کھجور وغیرہ بھی کھانے کے استعمال میں رکھیں ۔
٭ علمائے کرام سے رجوع ضرور کریں تاکہ ان سے دینی مسائل پوچھیں ، عقیدہ وعمل کتاب وسنت کی روشنی میں ان سے سیکھیں ، ان سے دینی علم حاصل کریں ، لیکن صرف اس کام کیلئے علماء کو ڈھونڈنا اور عاملوں کو تلاش شروع کرنا یہ (توکل علی اللہ) اللہ پر بھروسہ کے منافی ہے ۔
٭ صرف علماء کو ہی اس کام کا کرنے والا یعنی دم کرنے والا سمجھنا اور خود برائیوں سے نہ بچنا صحیح نہیں ہے ۔ ایسے آدمی کی مثال ایسی ہے کہ صابن سے اپنا جسم صاف کرتا ہے اور گندگی پر بیٹھا رہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں صابن سے اپنا جسم صاف کر رہا ہوں لیکن گندگی سے نہیں بچتا اور جب جسم صاف نہیں ہوتا تو کہتا ہے کہ یہ صابن صحیح نہیں دوسرا صابن استعمال کرتا ہوں ۔
جب تک شرک، فال نکلوانا، نجومیوں کے پاس جانا ، تعویذ باندھنا وغیرہ جیسی گندگیوں سے نہیں بچے گا اور اپنے فرائض کو ان کے وقت پر ادا نہیں کرے گا تو چاہے ساری دنیا کے عالموں کے پاس چلاجائے اور دم کرواتا رہے کچھ فائدہ نہیں ہو گا۔
٭ دنیا میں انسان کو اللہ نے آزمائش کیلئے بھیجا ہے ، جیسا کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
﴿وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِینَ ﴾(البقرۃ:۱۵۵)
کہ اللہ تعالیٰ انسان کو آزماتا ہے ڈر اور خوف سے ، بھوک کی شدت سے ، مال کے نقصان سے ، جان کے نقصان سے اور پھلوں کے نقصان سے (اور اس پر جو صبر کرتا ہے اس کیلئے فرمایا) کہ صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنادیجئیے ۔
ان مصائب پر صبر کرنے سے اللہ خوش بھی ہوتا ہے اور جنت میں درجات بھی بلند ہوتے ہیں ۔
صحیح مسلم میں ایک عورت کا واقعہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے دعا کی درخواست کی کہ دعا کریں کہ میری بیماری ختم ہوجائے تو فرمایا صبر کرو گی تو جنت ملے گی۔
حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں ایسے درجات ہیں کہ نیک عمل کر کے ان درجات کا حصول ناممکن ہے بلکہ تکلیفوں اور بیماریوں پر صبر کرنے سے اللہ تعالیٰ وہ درجات عنایت فرماتا ہے ۔
یادرکھئیے ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ ﴾ (الذاریات:۵۶)
کہ میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے ۔
یہ نہیں کہا کہ روٹی ، کپڑ ا ، مکان کیلئے پیدا کیا ہے ۔ یا یہ نہیں کہا :لَیَأکُلُونَ وَیَتَمَتَّعُونَ کہ بس کھائیں اور عیاشی کریں ۔
یہ سمجھ لیں کہ لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ کا معنی یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے علاہ کسی کی نہیں مانتا اور نہ ہی مانوں گا اور وہی مانوں گا جو اللہ نے محمد رسول اللہ ﷺ کے ذریعے بتایا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ ﷺ کو رسول بنایا ہے لہذا اللہ کی جو بات مجھے صرف رسول اللہ ﷺ نے بتائی ہے میں صرف اسے مانوں گا لہذا قرآن مجید پڑ ھنے ، سمجھنے اور عمل کرنے کیلئے صحیح احادیث کا سہارا ضروری ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ ہر خطبہ میں ارشاد فرمایا کرتے تھے ۔
فإن خیر الحدیث کتاب اللہ وخیر الہدی ہدی محمد صلی اللہ علیہ وسلم وشر الأمور محدثاتہا۔ ۔ ۔
یعنی قرآن مجید پڑ ھنے اور سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کیلئے صرف محمد رسول اللہ ﷺ کا طریقہ ہے وگرنہ دین کے اندر سب سے گندے کام وہ ہیں جو لوگوں نے خود گڑ ھ گڑ ھ کے دین میں ڈالے ہیں ۔
اللہم أرنا الحق حقًا وارزقنا اتباعہ وأرنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ۔
اے اللہ! ہمیں حق کو حق ثابت کر کے دکھا دے اور اس پر چلنے کی توفیق عنایت فرما اور باطل کو باطل کر کے دکھا دے اور ہمیں اس سے بچنے کی توفیق عطا فرما۔
رَبَّنَا آَتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الْآَخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ٭ اللہم اشفنا واشف مرضانا ومرضی المسلمین ۔
وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین وصلی اللہ وسلم علی خیر خلقہ محمد وآلہ وصحبہ أجمعین۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

عزت غیرتِ ایمانی سے ملتی ہے

از حمزہ طارق برکی

الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعین .
قال اللہ تعالیٰ : ﴿وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ ﴾ (الأنعام :۱۵۱)
وقال صلی اللہ علیہ وسلم : إِنَّ مِمَّا أَدرَکَ النَّاسُ مِن کَلاَمِ النُّبُوَّۃِ الأُولَی إِذَا لَم تَستَحی فَاصنَع مَا شِئتَ (رواہ البخاری فی کتاب الأدب )
مسلمان کے پاس سب سے بڑ ا زیور اس کی زندگی کا سب سے بڑ ا سرمایہ اس کی غیرت ایمانی ہے ، اور اسلام نے اس کے مٹ جانے کو اور اس کے ختم ہوجانے پر انسان کو پھر گناہ سے نہیں روکا بلکہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :
إِذَا لَم تَستَحی فَاصنَع مَا شِئتَ کہ جب تیرے اندر سے شرم وحیا کا جنازہ نکل گیا تو اب جو دل میں آئے کر اب تجھے کھلی چھٹی ہے ، اب تجھ سے ایک ہی دن سوال ہو گا ، ایک ہی دن حساب وکتاب ہو گا ، دنیا میں اب تجھے جو کرنا ہے کرگزر۔

اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ گناہ اور معاصی سے روکنے والی جو چیز ہے وہ غیرت ہے ۔ آج ہمارے معاشرے میں بے حیائی پھیل چکی دشمنوں نے جو بیج ہمارے درمیان بونا تھا اس میں وہ کامیاب ہو چکے ہیں ، آج ہمارے درمیان جو تعصب کی لہر دوڑ ی ہے اس نے ہمارے اندر نسبی غیرت ، لسانی غیرت ، اور علاقائی غیرت کو ابھارا ہے ، ہمیں یہ مذمتی غیرت کرنے سے اچھا اپنی دینی غیرت کو ابھاریں جو ہمارے دین کی خاص صفت ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : ہر دین کی ایک صفت ہوتی ہے جو اس میں عمدہ ہوتی ہے اور وہ حیا ہے ۔ (مؤطا امام مالک)
غیرت کا ایک حیرت انگیز واقعہ
قارئین کرام! غازی علم الدین شہید رحمہ اللہ ایک غریب آدمی کے بیٹے تھے ، شرافت انہیں وراثت میں ملی تھی پیشہ ان کا نجار تھا۔ ایک دن حسب معمول علم الدین اپنے گھر واپس لوٹ رہے تھے غروب آفتاب کے وقت ، تو دلّی دروازہ جو بھارت (India) کے شہر دلّی (Delhi) میں واقع ہے ، کیونکہ یہ واقعہ پاکستان کے آزاد ہونے سے پہلے کا ہے اسی لئے تفصیلاً بیان کر رہا ہوں ، علم الدین جب وہاں سے گزرے تو لوگوں کا ہجوم دیکھا تو رک گئے ، ایک جوان تقریر کر رہا تھا، کچھ دیر سنتے رہے ، لیکن کچھ خاص سمجھ میں نہیں آ رہی تھی ، کیونکہ تقریر اردو زبان میں تھی ، اور وہ خودپنجانی زبان سمجھتے تھے ، اردو سے ان کا زیادہ پالا نہیں پڑ ا تھا۔انہوں نے لوگوں سے دریافت کیا ، تو انہوں نے بتایا کہ ایک راج پال نامی ہندو نے کتاب لکھی ہے جس میں نبی مکرم ﷺ کی توہین کی گئی ہے ، اسی لئے اس کے خلاف جلسے جلوس ہورہے ہیں ، اس کے بعد پنجابی زبان میں مقرر حاضر ہوا جس نے پنجابی میں تقریر کی ، اور انہوں نے تقریر میں راج پال نامی اس خبیث کو واجب القتل قرار دیتے ہوئے کہا : اس کو قتل کر دو اور نبی ا کرم ﷺ کی شان میں گستاخی کی سزا دو ، کہا اپنی جان قربان کر دو ، اور اس خبیث کو اس کے انجام تک پہنچا دو ، وہ بہت کچھ کہتے رہے ، لیکن علم الدین کے کانوں سے ایک ہی آواز ٹکراتی رہی کہ اس کو قتل کر دو ، اور نبی ﷺکی شان میں گستاخی کی سزا دو ، اس جوان کی تقریر نے ان کے دل ودماغ پر ایسا اثر کیا ، کہ ہلچل مچ گئی وہ گھر پہنچتے خیالوں میں کھو گئے ، ان کے گھر والوں نے دیر سے آنے کی وجہ دریافت کی تو کچھ اور ہی کہہ دیا۔
اب علم الدین کی غیرت ایمانی کاتقاضہ دیکھئے کہ وہ اور کچھ سوچتے ہی نہیں ، سوائے اس کے میں اس راج پال کو کس طرح قتل کروں ، اور وہ مجھے کہاں ملے گا ، قریب ہی انار کلی ہسپتال کے پاس ایک پبلکیشن ہاؤس تھا ، اس میں راج پال کا دفتر تھا ، جہاں وہ بیٹھتا تھا ، پاس ہی ایک لکڑ ی کا ٹال تھا ، اس کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا کھوکھا تھا۔ علم الدین وہاں پہنچے اور ایک آدمی سے راج پال کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ وہ ابھی تک نہیں آیا ہے علم الدین نے پوچھا وہ کب آئے گا؟ تو اس نے لاعلمی کا اظہار کیا ، وہ ابھی باتوں ہی میں مصروف تھے کہ ایک گاڑ ی رکی اس میں سے راج پال نکلا ، تو اس آدمی نے علم الدین کو بتایا کہ یہ راج پال ہے ۔ علم الدین کی آنکھوں میں تو خون اتر آیا ، اس کی غیرت کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے آپ کو قابو نہ کرسکا ، اور سیدھا اس کے دفتر کا رخ کیا، اور اب علم الدین کی قوت سماعت سے صرف ایک ہی آواز ٹکرا رہی تھی کہ دیر نہ کرو، اسے قتل کرو ، یہ تمہارا کام ہے ۔ جو نہی علم الدین دفتر میں داخل ہوا راج پال اپنی کرسی پر بیٹھا تھا ، علم الدین سیدھا اس کی طرف آ رہا تھا ۔ راج پال کے سامنے ایک میز (Table) پڑ ی ہوئی تھی ، علم الدین نے پلک چھپکتے ہی چھری نکالی ، اور ان کے ہاتھ نظر ٹِکنے کے مقام پر ضرب لگانے کے مشتاق تھے ہاتھ فضا میں اٹھا اور پھر راج پال کے سینے میں جا لگا ، ایک ہی وار اتنا کارگرد ثابت ہوا کہ راج پال کہ منہ سے صرف ہائے کی آواز نکلی اور خبیث جہنم واصل ہو گیا۔ یہاں دفتر میں موجود آدمیوں نے علم الدین کو پکڑ لیا ، پولیس بھی آ گئی ، اب مقدمے عدالت تک پہنچ گئے ، لیکن غیرت کا عالم دیکھئے کہ چیخ چیخ کے کہہ رہے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کا بدلہ لے لیا ۔
اب عدالت میں بڑ ے بڑ ے مقدمے چلے ان کے خلاف کافی عرصہ تک یہ مقدمات چلتے رہے ، اور پھر لا ہور رجسٹرا رہائی کورٹ نے پھانسی کی سزا سنا دی اور اسی طر ح یہ غیرت کا پیکر ، یہ غیرت کی خاطر جان لینے والے اور جان دینے والے نے جام شہادت نوش کیا۔ إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ
قارئین کرام! دیکھئے ذرا غور فرمائیے ان کی غیرت کا یہ منظر دیکھئے کہ موت تو قبول ہے ، لیکن بے غیرتی اور اپنے دین پر کوئی آنچ انہیں قبول نہیں ۔
دوستی اور دشمنی کا معیار
قارئین کرام ! ہماری غیرتوں کا یہ تقاضہ ہونا چاہیے کہ ہم کفار اور مشرکین کے ساتھ عداوت اور بغض کی ہر حد پار کر دیں ، نہ کہ ان کی دوستی اور محبت پہ آسرے لگائیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آَمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّی وَعَدُوَّکُمْ أَوْلِیَاءَ﴾ (الممتحنۃ : ۱)
اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔
قارئین کرام! کچھ مہینے پہلے کی بات ہے ۔ تقریباً اپریل کے مہینے میں میرا اپنے آبائی شہر جانے کا اتفاق ہوا وہاں میں نے کچھ لڑ کیوں اور لڑ کوں کو یہ کہتے ہوا سنا کہ میں اس فلاں اداکار کی طرح ہوں اور میں اس فلاں کی طرح ہوں ۔ یہ کلام سن کر میں بہت حیرت زدہ ہوا کہ ایک مسلمان کی غیرت کا یہ تقاضا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایک ہندو سے تشبیہ دے رہا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿إِنَّ الْکَافِرِینَ کَانُوا لَکُمْ عَدُوًّا مُبِینًا ﴾ ( النساء : ۱۵۱)کافر تو تمہارے کھلے دشمن ہیں ۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :﴿لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِلَّذِینَ آَمَنُوا الْیَہُودَ وَالَّذِینَ أَشْرَکُوا﴾ ( المائدۃ : ۸۲)
مسلمانوں سے دشمنی کرنے میں یہودیوں اور مشرکوں کو باقی سارے لوگوں کے مقابلہ میں سخت پاؤگے ۔
اور اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: الرَّجُلُ عَلَی دِینِ خَلِیلِہِ فَلیَنظُر اَحَدُکُم مَن یُّخَالِل (رواہ الترمذی فی کتاب الزہد ، وحدیث حسن)
آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے ، لہذا ہر آدمی کو سوچنا چاہیے کہ وہ کسے اپنا دوست بنا رہا ہے ۔
لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم ان کفار اور مشرکین سے عداوت کی ہر حد پار کر دیں ، نہ کہ ان کی طرح بنیں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔
أُولَئِکَ کَالْأَنْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ - الأعراف:۱۷۹
یہ کفار تو جانوروں جیسے بلکہ ان سے بھی گئے گزرے ہیں ۔
لہذا آج ہمیں اس غفلت کی نیند سے جاگنے کی ضرورت ہے ، اپنے دشمنوں اور دوستوں میں فرق کرنے کی ضرورت ہے ۔ اور جو یہ کفار اور مشرکین ہمارے درمیان نفرت ، تعصب ، بے شرمی وبے حیائی کا بیج بوچکے ہیں اسے ختم کیا جائے ، اور پھر سے مسلمان بنیانٌ مرصوص کی طرح کفار پر غالب آ کر ان کا صفایا کر دے ۔
اے مسلمانوں جاگو
قارئین کرام! آج ہمارے وطن عزیز پر جو مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں ۔ اُس سے کوئی بھی لاعلم نہیں ، آج ہمیں بے حد مشکلات کا سامنا ہے ۔ ذرا سوچئے ! یہ کیوں ہورہا ہے ؟ ان منافقین اور کفار نے جو عصبیت ہمارے درمیان پھیلائی ہے ، جو اُخوت، اور پیار اور محبت ہمارے درمیان تھی اس کو تباہ وبرباد کر دیا ہے ، کیونکہ ان کفار مشرکین اور ہندؤون سے مسلمانوں کی محبت اور آپس میں اخوت اور رواداری کے جذبات برداشت نہیں ہوتے ، اسی لیے مسلمانوں کے مابین انتشار برپا کرنے پر تلے ہوئے ہیں ، یہ وہ شیاطین ہیں جن کا نہ کوئی دین ہے اور نہ کوئی مذہب یہ کبھی عبد اللہ بن اُبی منافق کی شکل میں آتے ہیں تو کبھی یہود ونصاری کی شکل میں ، اور ہم سمجھے بغیر ان اشرار الناس کی باتوں پر کان دھرتے ہیں اور ان کے کلام پر یقین کرتے ہوئے دست و گریباں ہوجاتے ہیں اور ان کے فریب میں آ کر اسلامی روایات کو پس پشت ڈال کر حسب ونسب، عصبیت وجاہلیت کے گرویدے بن جاتے ہیں اور اپنے آباؤ اجداد پر فخر اور اپنے نفس نفیس کو افضل ، ا کرم وبرتر تصور کرتے ہوئے زمین پر متکبرانہ چال چلتے ہیں اور دوسروں کو ذلیل ، حقیر ، کمزور اور کمتر جانتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَلَا تَمْشِ فِی الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْأَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولًا ﴾ (بنی اسرائیل :۳۷)
اور تو زمین پر متکبرانہ چال نہ چل تو زمین کو ہرگز پھاڑ نہیں سکتا اور نہ ہی پہاڑ وں کی طوالت کو پہنچ سکتا ہے ۔
اور انسان یہ کیوں بھول جاتا ہے کہ اس کی پیدائش ایک ہی طریق اور ایک ہی قطرے سے ہوئی ہے ۔ارشاد ربانی ہے :
﴿فَلْیَنْظُرِ الْإِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ ٭ خُلِقَ مِنْ مَاءٍ دَافِقٍ ٭یَخْرُجُ مِنْ بَیْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَائِبِ ﴾ (الطارق:۵تا۷)
انسان غور کر لے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے ؟ وہ پیدا کیا گیا ہے اچھلتے ہوئے پانی سے جو نکلتا ہے ریڑ ھ اور پسلیوں کے بیچ سے ۔
مگر انسان پھر بھی عقل کے ناخن نہیں لیتا اور تمام حدود کو پامال کرجاتا ہے ۔
قارئین کرام! ذرا غور کیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا میں کیوں بھیجا؟ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ :﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ﴾ (الذاریات:۵۶)
ہم نے جن وانس کو فقط اپنی عبادت کیلئے تخلیق کیا ہے ۔
اب ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عبادت کیا ہے ؟ عبادت تو یہ ہے کہ :اسم جامع لکل ما یحبہ اللہ ویرضاہ من الأقوال والأفعال الظاہرۃ والباطنۃ۔
یہ ایک ایسا جامع اسم ہے کہ انسان کے تمام اقوال وافعال ، ظاہری اور پوشیدہ جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا ذریعہ بنے وہ عبادت ہے ۔
جب کہ اس کے برعکس آج کے نام نہاد مسلمان عصبیت کی لوگوں کو دعوت دیتا ہے اور قتال پر آمادہ کرتا ہے ، اور عصبیت کی خاطر غصے میں آ جاتا ہے ، جوکہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے ۔جیسے نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : لیس منا من دعا إلی عصبیۃ ولیس منا من قاتل علی عصبیۃ، ولیس من من غضب لعصبیۃ۔ (مسلم)
جس نے عصبیت کی طرف بلایا وہ ہم میں سے نہیں اور جو عصبیت پہ لڑ ا وہ ہم میں سے نہیں ، اور جو عصبیت کی وجہ سے غصے ہوا وہ ہم میں سے نہیں ۔
قارئین کرام! تقویٰ ، پرہیز گاری ، خدا ترسی ، صبر واستقامت جیسی اعلیٰ صفات اپنے اندر پیدا کیجئے ، اور عصبیت جاہلیت ، فخر ، تکبر جیسی مذموم صفات وعادات سے اپنے آپ کو پاک رکھئیے ، اس میں دین اور دنیا کی بھلائی ہے ، جن مصائب ومشاکل کا ہمیں سامنا ہے یہ ہمارے اعمال اور آپس میں تفارق کی بنا پر ہے ، یہ وطن عزیز جو کلمہ طیبہ کے نام پر آزاد کروایا تھا ، اور جسے مسلمانوں کی ریاست تسلیم کیا گیا تھا آج یہ پنجابی ، سندھی، بلوچی، پٹھان، مہاجر، سرائیکی اوردوسری قوموں کی ریاست بن گیا ہے ، نہ کے مسلمانوں کی۔
یوں تو سید بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کا شغر
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام اہل اسلام کو ایک بنیان مرصوص کی مانند بنادے تاکہ ان کی صفوں کو کوئی کاٹ نہ پائے ، اور ان کے دل آپس میں الفت ومحبت کی ایک عظیم مثال پیش کر لے ۔ آمین
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

تحریکِ ختمِ نبوت اور تاریخِ اہلِ حدیث کے عظیم مصنف

از محمد رمضان یوسف
آخری قسط


محترم ڈاکٹرصاحب نے اس کتاب میں فتنہ قادیانیت کی تردید ، اس کی بیخ کنی کے آغاز کی تاریخ ، مرزا قادیانی کی راہ میں حائل شخصیات کا تذکرہ ، سب سے پہلے مرزا قادیانی کے خلاف متفقہ فتوی تکفیر کی داستان اور تحریک ختم نبوت کے حقیقی اولین بانی اور قائدین کے حالات و واقعات پر بڑ ی تحقیق کے ساتھ ضبط کتابت میں لانے کی سعی کی ہے ۔ اس اعتبار سے یہ کتاب تحریک ختم نبوت پر ایک مستند مدلل اور تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کی کیفیت کے لحاظ یہ کہنا درست قطعاً مبالغہ نہیں ہو گا کہ زیر نظر موضوع پر ایسی کتاب اس سے پہلے مرتب نہیں ہوئی۔

اس کتاب کی جلد اول اور ششم کا حرفے چند مورخ اہل حدیث ذہبی دوراں محمد اسحاق بھٹی صاحب نے لکھا ہے اور اس کتاب کی مختلف جلدوں پر مولانا اصغر علی سلفی ناظم اعلیٰ مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند ، مولانا ثناء اللہ سیالکوٹی امیر جمعیت اہلحدیث برطانیہ، پروفیسر ڈاکٹر عبدالرؤف ڈائریکٹر سیرت چیئرمین اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ، مولانا شیر خان جمیل احمد ناظم تعلیمات مرکزی جمعیت اہل حدیث برطانیہ ، مولانا محمد داؤد راشد کوٹلی ورکاں ، کی تقاریظ ہیں ۔ ہندوستان میں یہ کتاب مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند شائع کر رہی ہے اور پاکستان میں کتابت وطباعت کے جملہ محاسن سے آراستہ کر کے مکتبہ قدوسیہ کے زیر اہتمام ڈاکٹر صاحب خود شائع کروا رہے ہیں ۔
٭ تاریخ اہل حدیث : ڈاکٹر بہاء الدین صاحب کی طرف سے اس کتاب کی ترتیب وتدوین جماعت کیلئے بڑ ی خوش آئندہے ایک عرصے سے تاریخ اہل حدیث پر جامع اور مستند کتاب کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی اس سلسلے میں مرکزی جمعیت اہل ہند نے اس کام کی اہمیت وافادیت پر سنجیدگی سے توجہ کی اور اس کام کیلئے مولانا اصغر علی سلفی نے چار پانچ سال بیشتر اپنے ایک دورہ برطاینہ کے دوران ڈاکٹر بہاء الدین صاحب سے ملاقات کر کے انہیں اس اہم ذمہ داری کی انجام دہی پر راضی کیا۔ ڈاکٹر صاحب تاریخ اہل حدیث جلد اول کے مقدمے میں تحریر فرماتے ہیں :
جناب اصغرعلی امام مہدی اپنے تبلیغی تحریکی تنظیمی اسفار کے باعث جہاں گشت بن چکے ہیں چند ماہ قبل وہ برطانیہ تشریف لائے تو جناب شیر خان جمیل احمد عمری کی مدد سے اس فقیر بے نواکوڈھونڈ نکالا۔ جمعیت اہل حدیث ہند جیسی بڑ ی تنظیم کے ناظم اعلیٰ کا ہزاروں میل کا سفر کر کے میرے غریب خانے پر پہنچ جانا پیادہ کے گھر سالار کی تشریف آوری سے کم نہ تھا۔ میں اپنی خوبی قسمت پر ناز ہی کر رہا تھا کہ انہوں نے یہ بتانا شروع کر دیا کہ آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کو قائم ہوئے ایک سو سال ہورہے ہیں لیکن ابھی تک تاریخ اہل حدیث مرتب نہیں ہو سکی اس لئے آپ اپنی دیگر مصروفیات مؤخر کر کے یہ قرض چکا دیجئے اور جمعیت اہل حدیث ہند کو اس کے حقوق دے کر ہمیں اس کی اشاعت کا شرف دے دیجئے ۔
یوں جناب اصغر علی امام مہدی سلفی کی تحریک تشویق سے یہ مرحلہ طے ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے تاریخ اہل حدیث پر لکھنا شروع کیا تو ان کا اشہب قلم چوکڑ یاں بھرنے لگا اس کتاب کی پہلی دو جلدیں تیرہ سو سے زائد صفحات کا احاطہ کئے ہوئے ہیں اور مکتبہ ترجمان دہلی سے شائع ہو چکی ہیں ۔ تیسری جلد عنقریب پریس میں جانے والی ہے ، اور چوتھی اور پانچویں جلدوں کی تیاری ان دنوں مختلف مراحل میں ہے ۔
٭ تاریخ اہل حدیث کی جلد اول تعارفی حیثیت رکھتی ہے اس میں اہل حدیث کے عقائد ، دین خالص کا تعارف ، قرآن وحدیث کی اولیت اور اہمیت ، سلفیت کا مفہوم اور بعض سلفی اکابر کے حالات اجمال وتفصیل سے بیان کئے ہیں اس میں قارئین گاہے گاہے بازخواں ایں قصہ پارینہ را کا لطف اٹھا سکتے ہیں اور وہ قارئین جو جماعت اہل حدیث سے متعارف ہونا چاہتے ہیں وہ اس کے مطالعہ سے اس کے بنیادی عقائد اور تاریخ وخدمات سے واقف ہو سکتے ہیں ۔ اس کتاب میں سلفیت سے متعلق ہر پہلو کا احاطہ کیا گیا ہے توحید وسنت اور سلفی منہج پر اختصار کے ساتھ بڑ ی مستند اور جامع معلومات دی گئیں ہیں ۔
عہد صحابہ ، عہد تابعین میں عمل بالحدیث پر گفتگو ، اہل حدیث کی تعریف ، اہل حدیث کے عقائد، مقام صحابہ ، بدعت حسنہ ، سواداعظم ، شرک کی اقسام ، رفع الیدین آمین بالجہر فاتحہ خلف الامام ، طلاق ثلاثۃ، سینے پر ہاتھ باندھنا ، اقسام حدیث وغیرہ اس کتاب کے اہم عنوانات ہیں اور شاہ فاخر کے رسالہ نجاتیہ، شاہ ولی اللہ کی حجۃ اللہ البالغہ سے چند ضروری مباحث، شاہ اسماعیل کی تقویۃ الایمان ملخصاً اور تنویر العینین ملخصاً ، مولانا ولایت علی صادقپوری کی عمل بالحدیث مکمل ، مولانا محمد حسین بٹالوی کے اشاعۃ السنہ سے بعض ضروری مباحث ، مولانا ثناء اللہ امر تسری کی اہل حدیث کا مذہب مختصراً ، مولانا عبد العزیز رحیم آبادی کی ہدایۃ المعتدی مکمل، مولانا محمد ابراہیم میر کی تاریخ اہل حدیث سے چند ضروری مباحث اس جلد میں شامل کر دیئے گئے ہیں ۔ بلاشبہ تاریخ اہل حدیث کی یہ جلد مرتب کر کے ڈاکٹر صاحب نے جماعت اہل حدیث پر احسان عظیم کیا ہے ۔
٭ تاریخ اہل حدیث کی دوسری جلد ۶۵۶ صفحات کا احاطہ کئے ہوئے ہے اس کے شروع میں مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی ناظم اعلیٰ جمعیت اہل حدیث ہند ، ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری صدر جامعہ سلفیہ بنارس ، شیخ عبد المعید مدنی اڈیٹر الادتقامہ دہلی ، مولانا ثناء اللہ سیالکوٹی امیر جمعیت اہل حدیث برطانیہ ، ڈاکٹر عبد العلی ازہری پروفیسر مسلم کالج لندن ، مولانا شیر خان جمیل احمد عمری ناظم تعلیمات جمعیت اہل حدیث برطانیہ کے تاثرات ہیں ۔ اس کے بعد تاریخ اہل حدیث کے بارے ڈاکٹر بہاء الدین کا نہایت پر مغز اور جامع پیش لفظ ہے جس میں تاریخ اہل حدیث کے مختلف پہلو وں کو اشارۃً بیان کیا گیا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے اس جلد کو مختلف ابواب میں منقسم کر کے ان پر قرآنی آیات سے لطیفانہ استدلال کئے ہیں اس سے لائق مصنف کے اعلیٰ (قرآنی)ذوق کی عکاسی ہوتی ہے ۔ آغاز میں برصغیر میں اسلام کی آمد اور اس خطے میں آنے والے اہلحدیث حضرات کے متعلق تفصیل دی گئی ہے ۔ ظلمات بعضہا فوق بعض ، کے تحت اس خطے میں فقہی جمود ، ارکان اسلام پر ہندی فقہاء کی مشقِ ستم عائلی زندگی پر ہندی فقہاء کی نظرِ کرم ، فقہاء ہند کی قرآن وسنت سے بے اعتنائی کو احاطہ تحریر میں لایا گیا ہے ۔ مصابیح اللیل کا عنوان دے کر ایسے علماء و آئمہ اور شیوخ کا تذکرہ کیا گیا ہے جنہوں نے ہند کے صنم کدہ ظلمت میں توحید وسنت کی ضیا پاشیاں کیں اور لوگوں کو صراط مستقیم دکھائی۔
﴿أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِینَ کَالْمُجْرِمِینَ ٭ مَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُونَ ٭أَمْ لَکُمْ کِتَابٌ فِیہِ تَدْرُسُونَ ﴾کے تحت تکفیری مہم ، باب تاویل اور احناف کی کتب احادیث میں تحریف کے مجرمانہ فعل کو بے نقاب کیا گیا ہے ۔ جماعت اہل حدیث نے ہند میں اہل حدیث کی نشاۃِ ثانیہ کے لئے ابتدائی دور میں احناف سے جو مباحثے کئے اس کی بھی اچھی خاصی تفصیل بیان کی گئی ہے اور بہت سے مباحثات کی تفصیل دے دی ہے اور اس پر انہوں نے ﴿کَم مِنْ فِئَۃٍ قَلِیلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیرَۃً بِإِذْنِ اللَّہِ﴾کا عنوان قائم کیا ہے ۔ اس خطے میں جماعت اہل حدیث پر بہت سے جھوٹے مقدمات بنائے گئے اور انہیں مختلف طریقوں سے تنگ اور پریشان کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب نے ۲۰ کے قریب معروف مقدمات کا ذکر کیا ہے اور بعض مقدمات کے فیصلوں کا متن (اردو ترجمہ) بھی دے دیا ہے ( اور بعض عدالتی فیصلوں کا انگریزی متن بھی نقل کر دیا ہے ) ان مباحث کے علاوہ اس جلد میں ڈاکٹر صاحب نے فقہی مذاہب ، اس خطے میں فقہ حنفی کی ترویج کے اسباب، فقہی جمود اور تقلیدی غلو، اہل حدیث پر جبرو تشدد اور اخراج عن المساجد، اشتہارمسائل عشرہ اور ادلہ کاملہ، مباحثہ فرید کوٹ ۱۸۳۳ء سے متعلق غلط بیانی وغیرہ کے عنوانات پر حقائق ، مستند حوالہ جات کی روشنی میں پیش کر دئیے ہیں ۔ یہ جلد اپنے مشمولات کے اعتبار سے بہت سی تاریخی معلومات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے ، اس کے مطالعہ سے تحریک اہل حدیث کا خوب صورت پہلو نکھر کر سامنے آتا ہے اور قاری کو معلوم ہوتا ہے اس خطے میں توحید وسنت کے احیاء کیلئے جماعت اہل حدیث نے کس قدرجدوجہد کی اور کتنی قربانیاں پیش کی ہیں ۔ اس کتاب کی ترتیب واشاعت پر ڈاکٹر صاحب اور ان کے رفقاء بجا طور پر مبارک باد کے مستحق ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کو صحت وسلامتی سے رکھے کہ وہ اس کتاب کی بقیہ جلدیں بھی جلد از جلد حوالہ قرطاس کرسکیں ۔ آمین
٭ کشف الاسرار بجواب نعیم الابرار ۔ یہ کتاب ڈاکٹر صاحب نے جامعہ سلفیہ فیصل آباد سے تعلق کے دوران مولانا محمد صدیق کرپالوی فیصل آبادی مرحوم (نائب امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان ، شیخ الحدیث جامعہ سلفیہ فیصل آباد) کی رہنمائی میں شیعہ کی ایک کتاب نعیم الابرار کے جواب میں مرتب کی تھی جو ۱۹۷۵ء میں شائع ہوئی ۔
٭ شاہ محمد اسماعیل شہید : حیات وافکار۔ یہ کتاب ڈاکٹر صاحب نے ڈیڑ ھ سال کی محنت شاقہ سے جامعہ سلفیہ فیصل آباد کے صدر میاں فضل حق مرحوم (وفات ۱۲ جنوری ۱۹۹۶ء) کی خواہش پر مرتب کی۔ اس پر نظر ثانی مولانا حافظ محمد ابراہیم کمیر پوری مرحوم نے فرمائی بعد ازاں اس کا مسودہ میاں فضل حق صاحب کی خدمت پیش کر دیا گیا۔ یہ کتاب طبع نہیں ہو سکی اور نہ ہی پتہ چلتا ہے کہ مسودہ کدھر گیا۔
٭ تحریک اہل حدیث کی ایک ناقابل فراموش شخصیت: یہ کتابچہ ڈاکٹر صاحب کی اس تقریر پر مشتمل ہے جو انہوں نے مرکزی جمعیت اہل حدیث برطانیہ کے تربیتی اجتماع منعقدہ بریڈ فورڈ میں فروری ۲۰۰۰ء میں مولانا محمد حسین بٹالوی کی شخصیت اور کارناموں کے تعارف میں کی تھی۔ اس رسالے کی اشاعت بعض جماعتی جرائد کے علاوہ رسالے کی شکل میں برطانیہ میں ادارہ ماہنامہ صراط مستقیم اور ہندوستان میں کلکتہ سے شائع ہوئی۔
٭ اگر برصغیر میں وہابی نہ ہوتے : یہ رسالہ ڈیوزبری برطانیہ میں جمعیت اہل حدیث کے تربیتی اجتماع میں سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کی حیات وخدمات پر کی جانے والی ڈاکٹر صاحب کی تقریر پر مشتمل ہے جسے مکتبہ الفہیم مؤناتھ بھنجن یوپی نے رسالے کی شکل میں شائع کیا۔
٭ برصغیر پاک وہند میں تعلیم وترویج حدیث ۔ یہ رسالہ جامعہ سلفیہ فیصل آباد کی طرف ۱۹۷۰ء کے عشرے میں شائع ہوا۔
٭ ہمارے اکابر ، اہل حدیث کی نمایاں شخصیات: اس رسالے میں اکابرین اہل حدیث کا تذکرہ خوب صورت پیرائے میں کیا گیا ہے ۔ طبع دسمبر ۱۹۷۲ء جامعہ سلفیہ لائل پور فیصل آباد
٭ شیخ محمد بن عبد الوہاب اور ان کی دعوت : یہ رسالہ بعض جماعتی جرائد میں شائع ہونے کے علاوہ جامعہ سلفیہ فیصل آباد سے ۱۹۷۰ء کے عشرے میں کتابی صورت میں شاعء ہوا۔
۱۹۷۰ء کے عشرے کے ابتدائی برسوں میں ڈاکٹر صاحب تین سال جامعہ سلفیہ سے منسلک رہے ۔ آپ جامعہ میں بی اے کرنے کے خواہشمند طلباء کو انگریزی پڑ ھاتے تھے اس کے ساتھ آپ کو جامعہ سلفیہ کی لائبریری کا انچارج بھی بنادیا گیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی کوشش اور توجہ دلانے پر میاں فضل حق مرحوم صدر جامعہ سلفیہ کمیٹی نے لائبریری کیلئے ماہانہ فنڈ منظور کیا۔ یوں لائبریری کیلئے تسلسل کے ساتھ نئی کتب خریدی جانے لگیں ۔ اس خدمت کے علاوہ ڈاکٹر صاحب نے کوشش کر کے مرحوم علماء کے وارثوں سے ان کے کتب خانے جامعہ سلفیہ میں منتقل کرانے شروع کئے اور اس سلسلے میں جماعت اہل حدیث کے دو مشہور مناظرین مولانا ملک عبد العزیز ملتانی رحمہ اللہ اور مولانا احمد دین گکھڑ وی رحمہ اللہ کے کتب خانے ڈاکٹر صاحب نے خود ان کے ورثا سے حاصل کر کے جامعہ سلفیہ کی لائبریری میں شامل کئے ۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب نے جامعہ سلفیہ میں نشر واشاعت اور طبع وتالیف کا ایک شعبہ بنوایا۔ اس کے تحت ہر ماہ باقاعدگی سے چھوٹے چھوٹے خوبصورت کتابچے شائع کئے جاتے تھے ۔ اسی شعبہ کے تحت ڈاکٹر صاحب کے دو کتابچے شیخ محمد بن عبد الوہاب اور ان کی دعوت ، اور برصغیر پاک وہند میں تعلیم وترویج حدیث شائع ہوئے تھے ۔ اس کے علاوہ مولانا غلام احمد حریری اور مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مقالات بھی شائع ہوئے ۔
جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں قیام کے دوران ڈاکٹر صاحب کی تجویز پر یہ طے ہوا کہ تحقیقی کام کے خواہش مند طلباء اپنی تعلیم کے آخری سال کسی منتخب موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھا کریں اور پھر ڈاکٹر صاحب کی نگرانی اور موجودگی میں کئی مقالات لکھے گئے اور ہنوزیہ سلسلہ جاری ہے ۔
ڈاکٹربہاء الدین صاحب نہایت با اخلاق ملنسار اور نیک انسان ہیں ۔ مسلک اہل حدیث سے محبت اور شیفتگی انہیں ورثہ میں ملی ہے ۔ مولانا عبد اللہ گورداسپوری نے اپنے اس لخت جگر کی تعلیم وتربیت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ ڈاکٹر صاحب علمائے سلف اور اکابرین جماعت سے بڑ ی محبت وعقیدت رکھتے ہیں ۔ انہوں نے راقم الحروف کو بتایا ہے کہ جب علمائے کرام والد صاحب کوملنے ہمارے ہاں بورے والا تشریف لایا کرتے تھے تو مجھے ان کی گفتگو سننے اور ان کی خدمت کرنے کا شرف حاصل ہوتا تھا۔ ان علماء میں مولانا محمد اسماعیل سلفی گجرانوالہ، مولانا عبد الستار امام جماعت غرباء اہل حدیث ، حضرت صوفی محمد عبد اللہ صاحب اوڈانوالہ رحمہم اللہ جمیعاً شامل ہیں ۔ بلاشبہ ڈاکٹر صاحب جماعت کا عظیم سرمایہ ہیں ، انہوں نے تصنیف وتالیف سے جماعت کیلئے گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں ۔ اگست ۲۰۰۵ء میں جمعیت اہل حدیث ہند نے انہیں مورخ عصر کے خطاب سے نوازا اور لال گوپال گنج آلہ آباد (بھارت) میں جامعہ ابی ہریرہ الاسلامیہ کی زیر نگرانی انعقاد پذیر ہونے والے یک روزہ علمی سیمینار میں 14 اگست 2008ء کو فریوائی اکادمی ، پریو انارائن پور الہ آباد نے انہیں فریو آئی ایوارڈ برائے خدمت علوم اسلامیہ سے نوازا۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کو صحت وسلامتی سے رکھے اور ان کا را ہو ار قلم جماعت کیلئے لؤلو ولالہ بکھیرتا رہے ۔ آمین
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

اسلامی سن و تقویم اور اس کو رائج کرنے کی ضرورت

از الشیخ محمد نصر اللہ مکی

اسلامی سن کی ابتداء کس نے اورکب کی ؟
اسلامی سن کی ابتداء قمری سال سے کی گئی ہے اور قمری سال جوکہ عرب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے زمانے میں رائج تھا اور اس کے نام بھی اسی ترتیب سے تھے ۔ محرم ، صفر، ربیع الاول وغیرہ ، اور سال کے آخری مہینہ میں حج ہوتا تھا۔ کیونکہ حج ایک مذہبی فریضہ تھا لیکن اس موقع سے تجارتی اور ثقافتی فائدے اٹھانے لگے اور اس کو بڑ ے وسیع پیمانے پر کاروباری اور ادبی اجتماعات کا ذریعہ بنادیا گیا سید الکونین ﷺ کی ولادت سے قبل تین سو برس لوگوں میں بُت پرستی اور دیگر خرابیاں اس قدر بڑ ھیں کہ پورا معاشرہ تہذیب وتمدن سے عاری ہوکر رہ گیا۔ تو غیر مہذب دور میں حج کا مفہوم صرف میلہ تک محدود ہوکر رہ گیا تھا۔

جب امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی تو مدنی اورمکی دونوں کیلنڈر رائج تھے ۔ تاریخوں اور مہینوں کے فرق کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ سن ہجری تک جاری رہا اس سال ذی الحجہ کی نو تاریخ کو جمعہ کے دن حج ہواتو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا کہ اب زمانہ صحیح وقت پر آ گیا ہے ۔ اس کے بعد سے ایک ہی قسم کا قمری سال مقرر کیا گیا جس کا ابتدائی مہینہ محرم مقرر ہوا سال کا آغاز اس وقت سے کیا جب رسول ا کرم ﷺ نے مکہ سے مدینہ ہجرت فرمائی یہاں پر یہ بات ذہن نشین رہے کہ ہجرت نبوی ﷺ تو یکم ربیع الاول بروز سوموار ۱۴ بعثت نبوی میں ہوئی اور اسلامی سن کا آغاز دو ماہ قبل محرم سے کیا جاتا ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل عرب سال کی ابتداء محرم الحرام سے کرتے تھے اس لئے اس قانون کو برقرار رکھتے ہوئے سال کی ابتداء محرم ہی سے کی گئی ہے ۔
عام طور پر یہ بات مشہور ہے کہ سن ہجری کا آغاز حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد سے ہوا۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ ہجرت سے پہلے لوگ ملکی مفادات ، باہمی معاملات کو یاد رکھنے اور ان کو تاریخی حیثیت دینے کیلئے کعب بن لوئی کے انتقال سے شمار کرتے تھے ۔ کچھ عرصہ کے بعد عام الفیل اور عام الضمار سے تاریخی سنہ شمار ہونے لگا۔ جب اسلام ایک مستقل ضابطہ حیات تھا۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سن کیلئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا اجلاس بلایا۔ اس میں سنہ کے متعلق آراء پیش ہوئیں ۔ بعض کی رائے تھی کہ حضور ا کرم ﷺ کی ولادت طیبہ سے سن شروع کیا جائے ۔ اس رائے پہ نظر عمیق کرتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میلاد ی سنہ کی مشابہت عیسائیوں سے ہوجائیگی کیونکہ ان کا سنہ بھی میلادی ہے لہذا اسلامی سنہ کی بنیاد ایک امتیازی نشان سے ہونی چاہیے ۔ اور بعض حضرات نے فرمایا نزول وحی وعہدہ نبوت کی تاریخ سے اسلامی سال کا آغاز ہونا چاہیے اس رائے پر کافی بحث مباحثہ ہونے کے باوجود کوئی فیصلہ نہ ہو سکا۔آخر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نہایت غوروفکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی سنہ کی بنیاد ماہ ہجرت سے رکھی جائے ۔ اس رائے کو پسند کرتے ہوئے بالاتفاق سنہ ہجری کا فیصلہ ہوا۔ اس واقعہ کی تصدیق مستند کتاب سے نہیں ملتی اصل حقیقت یہ ہے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سرکاری معاملات میں تاریخ کا اندراج لازمی قرار دیا تھا۔ ورنہ سنہ ہجری کی ابتداء خود حضرت محمدﷺ کے حکم سے ہو چکی تھی۔ کیونکہ آپ ﷺ نے سرکاری مراسلات ، خطوط میں تاریخ کا اندراج لازمی قرار دیا تھا البتہ یہ بالکل درست ہے کہ سب سے پہلے اسلام نے تواریخ ، سنوں کی ابتداء کی ورنہ اس سے پہلے اساطیر ، قصہ کہانیاں میلہ وغیرہ سے زیادہ تاریخی واقعات کی پوزیشن نہ تھی۔
واضح رہے کہ قمری سال کو مسلمان کے لئے اختیار کرنا سید البشر ﷺ ہادئ کل حضرت محمد ﷺ کا حکم ہے اس بات کی تائید قرآن بھی کرتا ہے ۔
۱۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿ہُوَ الَّذِی جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَاء وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَہُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُواْ عَدَدَ السِّنِینَ وَالْحِسَابَ ﴾(یونس )
وہی ہے جس نے سورج کو چمکتا ہوا بنایا اور چاند کو روشن اور کچھ چاند کی منزلوں کا اندازہ ٹھہرایا تاکہ تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کر لیا کرو۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے حکمت اور مصلحت کے ساتھ بنایا ہے ۔
ارشاد خداوندی ہے :﴿إِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُورِ عِندَ اللّہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِی کِتَابِ اللّہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَات وَالأَرْضَ﴾(توبہ)
اللہ تعالیٰ کے نزدیک مہینوں کی گنتی بارہ مہینے ہے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ایسا ہی لکھا گیا جس دن آسمانوں اور زمین کو اس نے پیدا کیا یعنی جب سے اجرام سماویہ بنے ہیں خدا کا ٹھہرایا ہوا حساب یہی ہے ان بارہ مہینوں میں سے چار حرمت کے مہینے ہوئے رجب ، ذوالقعدہ ، ذی الحجہ ، محرم۔ ہر صورت تمام اسلامی ودینی اداروں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے حساب وکتاب اور معاملات میں قمری سال جو اسلامی سال اور دینی نظام کی عکاسی کرتا ہے رائج کریں ۔
اسلامی سن کا آغاز ہجرت سے کیوں ؟
اسلام میں سن کے آغاز کے لئے انتہائی اہم واقعات موجود تھے لیکن ان کو نظر انداز کرتے ہوئے اگر واقعہ ہجرت نبوی ﷺ کو اسلامی کیلنڈر کے لئے منتخب کیا تو کیوں ؟
اسلامی تاریخ کا سب سے عظیم واقعہ خود حضرت محمد ﷺ کی ذات گرامی ہے جوکہ کرئہ ارضی پر آفتاب ہدایت بن کر طلوع ہوئے ۔ جس نے انسانیت کی پوری تاریخ کی کایا پلٹ کر رکھ دی اور پھر وہ بھی وقت آیا جب نبی علیہ السلام کے سر پرامام انبیاء علیہم السلام کا تاج رکھ دیا گیا۔ اور ابراہیم ، قاسم بن محمد ﷺ کی خوشی کا بھی موقع آیا۔ ان سے بڑ ھ کر ایک وقت یہ بھی تھا کہ ایک ہی رات میں آسمانوں ، جنت دوزخ کی سیر کرائی جسے معراج کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور ہجرت کے بعد غزوات کا دور آیا بدر کا میدان کفر اور اسلام کی جنگ کی جھلک پیش کرتے ہوئے اسلام کا غلبہ و فتح کی نشان دہی کرتا ہے ۔ جنگ خیبر سے پہلے جنگ احزاب کا منظر دیکھ لو۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے آج کے بعد ہم پر کوئی حملہ آور نہ ہو گا اب ہم حملہ کیا کریں گے تھوڑ ی سی نظر آگے دوڑ ائیں تو فتح مکہ کا نقشہ سامنے آتا ہے جس دن کلی طور پر اسلام کو غلبہ حاصل ہوا۔ اور نہ صرف پورے عرب پر بلکہ پوری دنیا پر اسلام کا سِکہ تسلیم ہوا اور اس طرح اگر حزن وملال اور المناک اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو شہداء بدر ، شہداء احد ، جن میں خصوصی طور پر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت اور آپ کے لخت جگر ابراہیم کی وفات حضرت زینب ، ام کلثوم رضی اللہ عنہما کی وفات ، غزوات میں جنگ احد میں فتح کی تبدیلی ہزیمت جنگ حنین میں شکست کا منظر اور طائف کو بغیر فتح کئے واپسی وغیرہ ایک المناک داستان پیش کرتے ہیں ۔
ان واقعات کو نظر انداز کر دیا اور اسلامی سن وتقویم کے لئے منتخب نہیں کیا کہ اسلام فتح ، نصرت ، شکست ، ہزیمت وغیرہ کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا، فتح بدر فتح مکہ تاریخ اسلام کے عظیم کارنامے کہلا سکتے ہیں لیکن اسلام صرف جہاد کانام نہیں ہے ۔ جنگی واقعات اور لڑ ائی جھگڑ وں میں کامیابی حاصل کرنا مقصد نہیں ہے بلکہ اسلام ضابطہ حیات ہے جس کی نہایت صاف ستھری دعوت ہے اور ذہنی طور پر لوگوں کی کایا اس طرف پلٹنی ہے کہ جو دنیا وآخرت میں کامیابی کامرانی کا باعث بن جائے ۔
جہاد ، جنگ ، شکست ، فتح ، خوشی ، مسرت ، غم ، الم ، اگرچہ اپنی جگہ پر ایک حیثیت رکھتے ہیں لیکن ان کو اسلامی سن تقویم کیلئے منتخب نہیں کیا جا سکتا۔ اب ذرا نظر التفات واقعہ ہجرت پر ڈالتے ہیں کہ جنگ جہاد میں مال غنیمت کا حرص اور خوشی میں ذاتی مسرت اور غم الم میں ذاتی دشمنی باعثِ شائبہ بن سکتی تھی لیکن ہجرت ایک ایسا عزم ہے کہ مہاجرین اسلام نے اپنا وطن چھوڑ ا عزیز اقارب سے تعلقات منقطع کئے اپنے گھر بار کو خیر باد کہا ۔زمین ، جائیداد لوٹادیں اور تمام کاروباری رشتے ختم کر دئیے ۔ اور پیغمبر اسلام ﷺ کے حکم پر ایسی جگہ پر جانے کیلئے تیار ہوگئے جہاں وسائل آمدنی اور ذرائع معاش بہت کم تھے ۔اور بظاہر مستقبل تاریک تھا اور اپنے وطن مقدس جہاں حرم پاک مکہ مکرمہ ہے ، سے دور ہوئے سب کچھ برداشت کر لیا لیکن صرف تبلیغ اسلام کی حدود کو وسیع کرنے ، دینی قدروں کو پھیلانے ، توحید الٰہی کی برکتوں کو عام کرنے اور اسلام کی بتائی ہوئی صاف ستھری تہذیب ، ثقافت کو ہمکنار کرنے کی غرض سے انہوں نے سب کچھ قربان کر دیا۔ اور اللہ و رسول کی اطاعت میں زندگی گزارنے کو ترجیح دی ۔ تو کیوں نہ ایسا ہو کہ ان کے نام سے جنہوں نے اسلام کے غلبہ کی خاطر سب کچھ قربان کر دیا اسلامی سنِ تقویم کا آغاز کیا جائے ۔
حکمت سنہ ہجری
مسلمانوں کا سن نہ میلادی نہ نبوی ﷺ ہوابلکہ مقصد اسلام کے پیش نظر باہمی واقعات کو محفوظ رکھنے کیلئے سنہ ہجری کو مقبولیت حاصل ہوئی جس میں بے شمار حکمتیں مضمر ہیں مثلاً :
۱۔ سنہ ہجری ہر سال سبق دیتا ہے کہ بحکم خدا حضور ا کرم ﷺ نے قرآنی اصول کے مطابق آزادانہ زندگی بسر کرنے کیلئے مصائب کا مقابلہ کرتے ہوئے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی۔ سن ہجری مقصد حیات کو واضح کرتا ہے کہ انسان انسان کا غلام نہیں بلکہ وہ ہم مثل انسان سے آزاد بے مثل اللہ تعالیٰ کا غلام ہے ۔ایسی آزادی کو برقرار رکھنے کیلئے اپنا وطن ، جائیداد اور اقرباء چھوڑ دو خاص کر امتِ محمدیہ کیلئے سنہ ہجری ایک راہ عمل ہے ۔ اگر گہری نظر سے اس کا مطالعہ کیا جائے ۔
۲۔ مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ اس کو اپنے نبی جناب محمدرسول اللہﷺ کے نقش قدم پر چلنے کیلئے اگر وطن چھوڑ نا پڑ ے تو خند ہ پیشانی سے مصائب کا مقابلہ کرتے ہوئے ہجرت کرجائے ۔
۳۔سن ہجری یاد دلاتا ہے کہ نزول قرآن سے کیسا انقلاب برپا ہوا ؟ رسول خدا کو ہجرت کا حکم کیوں ہوا؟ حضور ا کرم ﷺ نے مصائب کیوں برداشت کیے ؟ سردارانِ کفر سے کیسے مقابلہ ہوا ؟ حق کو باطل پہ کیسے غلبہ حاصل ہوا ۔اسلامی اصول کا نفاذ کیسے ممکن ہوا ۔مخالفین اور باغیوں کو کیسے سزا ملی مسلمان کا غیر مسلم سے کیا سلوک تھا ؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رسول اللہ ﷺ کی کیسے فرمانبرداری کی؟ اور انہوں نے ملک ملک شہر شہر پیغام خداکو کیسے پہنچایا اور انہوں نے راہ حق میں کیسے خون بہایا؟ انہوں نے سلاطین باطل سے کیسے مقابلہ کیا ؟ انہوں نے ممالک کفر پر کیسے قبضہ کیا ؟ اور ان پر کیسے حکمرانی کی قلیل جماعت کثیر پر کیسے غالب آئی؟ مومن اور منافق کا کیسے فرق ہوا ؟
۴۔ سن ہجری سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مخالفین کو کیسے تباہ کیا ؟ ان پر عذاب کیسے نازل ہوا؟ وہ دنیا میں کیسے ذلیل ہوئے ؟ اور اہل حق کو غیبی امداد کیسے پہنچی ؟ فرشتوں نے دشمنانِ خدا پر کیسے حملہ کیا؟ بحکم خدا جانوروں اور پرندوں نے کیسے مدد کی ؟ اور بارش سے اہل اسلام کو کیسے فتح ہوئی ؟ کائنات پر اسلام کا عالمگیر غلبہ کیسے ہوا ؟
تقاضائے سن ہجری
ہرسال کا پہلا مہینہ محرم الحرام دعوت دیتا ہے کہ مسلمان کا مقصد حیات نہ وطن ہے نہ جائیداد ہے ۔ نہ عیش وعشرت ہے نہ ا کرام وعزت ہے ، بلکہ قیام دین اور رضائے الٰہی ہے لہذا ہر باطل سے ٹکراتے ہوئے مقصد حیات پر قائم رہو اور کفر ، شرک ، بدعت اور خرافات کو جڑ سے اکھیڑ کر رکھ دو۔ اور صرف ایک اسلام کا ہی غلبہ دنیا اور پوری کائنات پر قائم کرو۔
افسوس صد افسوس ان انسانوں پر جو محرم الحرام کا خوشی مسرت سے استقبال کرنے کی بجائے ماتم رونے دھونے سے استقبال کرتے ہیں بلکہ غیر مسلم بھی سالوں کی ابتداء بڑ ی دھوم دھام سے کرتے ہیں ۔ مثلاً عیسائی لوگ ولادت حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ۲۵ دسمبر کرسمس ڈے مناتے ہیں ۔ تعجب ہے مسلمان مردوزن پر کہ ان میں شریک ہوتی ہیں جبکہ مذہب اسلام اس کا تقاضا نہیں کرتا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اظہار مسرت کرسکتے ہو لیکن دائرہ اسلام میں رہ کر ورنہ حد سے تجاوز کرنا مناسب نہیں ہے اور رونا ماتم کرنا تو بالکل غیر مناسب ہے ۔
مقاصد اسلامی سنہ ہجری
ہجری کیلنڈر کا آغاز صرف حساب وکتاب کا ذریعہ نہیں بلکہ بغور سوچنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ زندگی میں باعمل ہوجانے کا ایسا اشارہ ہے جس کے پس منظر میں پوری تاریخ نظر آتی ہے دیکھئے زمانہ ہر لمحہ تبدیل ہوتا جا رہا ہے ۔ اور اس تبدیلی کا مقصد حرکت ہے اور حرکت باعمل ہونے کا اشارہ ہے اور اسی سے انسانیت کی تکمیل ہوتی ہے ۔ انسان کا باعمل ہونا ہی اس کیلئے راہ نجات بن سکتا ہے اور اسی چیز کو شریعت نے بھی ملحوظ رکھا ہے ۔
اسلامی سن ہجری شروع کرنے کا سب سے بڑ ا مقصد احکام الٰہی کو پابندی سے ادا کرنا ہے کیونکہ ارکان اسلام اس کا تقاضا کرتے تھے ، قرآن اور حدیث کو دیکھیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :﴿إِنَّ الصَّلاَۃَ کَانَت عَلیَ المُؤمِنِینَ کِتَاباً مَوقُوتاً﴾(النساء )
کہ اسلام کے ستون ایک مقررہ وقت کا تقاضا کرتے ہیں اور اگر روزہ کی طرف التفات کرو جس کے بارے میں ارشاد نبوی ﷺ ہے الصوم جنۃ من النار تو قرآن کہتا ہے : ﴿شَہرُ رَمَضَانَ الَّذِی اُنزِلَ فِیہِ القُرآنُ﴾(البقرۃ)
کہ روزے ایک ماہ میں رکھنے فرض ہیں جسے ماہ رمضان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور اسلام کے تیسرے رکن کو دیکھتے ہیں توقرآن کہتا ہے : ﴿وَاٰتُوا حَقَّہُ یَومَ حَصَادِہِ﴾اور ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے : لیس فی مال زکاۃ حتی یحول علیہ الحول کہ زکوۃ ایک سال کی مدت کے اندر نہیں آتی ایک سال سے زیادہ مدت کا تقاضا کرتی ہے اورکلمہ شہادت کے بعد پانچویں رکن پر نظر ڈالتے ہیں جو قرآن کہتا ہے :﴿اَلحَجُّ اَشہُرٌ مَّعلُومَاتٍ﴾ (البقرۃ)
کہ حج بھی چندمہینوں کا تقاضا کرتا ہے ۔ تو معلوم ہوا کہ سن ہجری کو اس لئے شروع کیا گیا تھا کہ ارکان اسلام کو بروقت ادا کیا جا سکے اور حساب کتاب میں کمی بیشی واقع نہ ہو اور انسان ان چیزوں پر بروقت عمل کرتے ہوئے دنیا عقبیٰ کی کامیابی وکامرانی حاصل کرسکے ۔ اللہ عزوجل ہمیں اپنے تمام ترمعاملات میں اسلامی سن کو بطور شعار اپنانے کی توفیق عنایت فرمائے ۔ (آمین )
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟