Thursday, August 13, 2009

فیوض القرآن

از فیض الابرار صدیقی
قسط نمبر - 16

أ ن ث
أنث اس کے بنیادی معانی نرم کے ہیں ۔ مکان أنیث جس زمین میں گھاس وغیرہ جلدی اُگے ۔ اسے أرض أنیثہ یعنی نرم زمین بھی کہا جاتا ہے ۔ سیف أنیث ایسی تلوار جو قاطع نہ ہو یعنی کندتلوار ۔
أنّث لہ : نرم ہونا ، نرمی برتنا (تاج العروس)
اس سے أنثی کا لفظ بنایا گیا جس سے مراد مادہ ہے جو نر کے مقابلہ میں ہو۔
راغب اصفہانی /مفردات میں لکھتے ہیں : أنثی جو ذکر کی ضد ہے اور چونکہ تمام حیوانات میں مؤنث مقابلہ مذکر نرم اور ضعیف ہوتی ہے اس لئے اسے انثی کہا جاتا ہے ۔(المفردات /۹۳) (لسان العرب ۲/۱۱۳)
لہذا ہر وہ چیز جس میں فاعلیت کے بجائے انفعال کا پہلو غالب ہو و ہ انثی کہلائے گی۔ (المفردات /۹۳)
اسی اعتبار سے جمادات کو بھی اِسی نام سے موسوم کیا گیا ہے اور اللہ کے علاوہ جن اشیاء کو معبود بنایا جاتا ہے ۔( فائدہ ) انہیں إناث کہنے میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ وہ کمزور اور ضعیف ہوتے ہیں قوت فاعلیت ان میں نہیں پائی جاتی ضعیف اور کمزورکہنے سے ان کا بطلان بھی واضح ہوجاتا ہے اور ان کی مزعومہ مقام کا رد بھی ہوجاتا ہے ۔
جیسا کہ سورۃ النساء میں کہا گیا ہے ﴿ إِنْ یَدْعُونَ مِنْ دُونِہِ إِلَّا إِنَاثًا﴾(النساء :۱۱۷)
یہ تو اللہ کو چھوڑ کر صرف عورتوں کو پکارتے ہیں ۔
قرآن مجید میں اس کے درج ذیل مشتقات استعمال ہوتے ہیں :
انثی ، الأنثی ، الأنثیین ، إناثا
اور قرآن مجید میں یہ لفظ درج ذیل مفاہیم میں استعمال ہوا ہے ۔
۱۔ بیٹیاں
ارشاد ربانی ہے :
﴿أَلَکُمُ الذَّکَرُ وَلَہُ الْأُنْثَی ﴾(النجم:۲۱ )
کیا تمہارے لیے لڑ کے اور اللہ کیلئے لڑ کیاں ہیں ۔
ارشاد ایزدی ہے :
﴿وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُہُمْ بِالْأُنْثَی ظَلَّ وَجْہُہُ مُسْوَدًّا وَہُوَ کَظِیمٌ ﴾(سورۃ النحل : ۵۸)
ان میں سے جب کسی کے ہاں لڑ کی کے پیدا ہونے کی خبر دی جائے تو اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے اور دل ہی دل میں کڑ نے لگتا ہے ۔
ارشاد خداوندی ہے :
﴿أَوْ یُزَوِّجُہُمْ ذُکْرَانًا وَإِنَاثًا ﴾(الشوری :۵۰)
یا انہیں جمع کر دیتا ہے بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی۔
۲۔ جانوروں میں تانیث
اللہ رب العزت سورۃ الأنعام میں فرماتے ہیں :
﴿ قُل آَلذَّکَرَیْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَیَیْنِ ﴾(الأنعام :۱۴۴)
آپ کہیے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے ان دونوں نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں مادہ کو ۔
۳۔ بتوں میں تأنیث
فرمان باری تعالیٰ ہے :
﴿وَجَعَلُوا الْمَلَائِکَۃَ الَّذِینَ ہُمْ عِبَادُ الرَّحْمَنِ إِنَاثًا أَشَہِدُوا خَلْقَہُمْ﴾(الزخرف :۱۹)
اور انہوں نے رحمان کے عبادت گزار فرشتوں کو عورتیں قرار دے لیا ، کیا ان کی پیدائش کے موقع پر یہ موجود تھے ۔
ارشاد حق تعالیٰ ہے :
﴿إِنْ یَدْعُونَ مِنْ دُونِہِ إِلَّا إِنَاثًا﴾(النساء :۱۱۷)
یہ تو اللہ کو چھوڑ کر صرف عورتوں کو پکارتے ہیں ۔
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟