Thursday, August 13, 2009

معمولات النبی ﷺ

از طیب معاذ
قسط نمبر – 7

محترم قارئین کرام ! رسول معظما نمازِ اشراق کی ادائیگی کے بعد گھر میں آتے تھے گھر میں داخل ہونے کے کچھ آداب ہیں جن کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے ۔
٭ اچانک گھر میں داخل نہ ہوں بلکہ گھر والوں کو کسی بھی ذریعہ سے مثلاً : دستک یا کال بیل بجا کراپنی آمد کی خبر دیں ،
٭ اہل خانہ کو سلام کریں جیسا کہ رسول اللہ انے سیدنا انس بن مالک ص کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ گھر میں داخل ہوتے وقت سلام کرو اس سے تم پر اور اہل خانہ پر رب العالمین کی برکتیں نازل ہونگی ۔(ترمذی /۲۶۹۶ ، کتاب الإستئذان والآداب ، وحسَّنَہُ الشیخ عبد القادر الارنؤوط)
اسی طرح جو شخص سلام کر کے گھر میں داخل ہوتا ہے اس شخص کو اللہ رب العزت جنت میں داخلے کی ضمانت دیتے ہیں ۔(ابوداؤد :۲۴۹۴، اسنادہ صحیح)
اسی طرح صحیح مسلم میں جابر بن عبد اللہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا کہ جب کوئی آدمی اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت اور کھانا کھاتے وقت اللہ کا نام لیتا ہے تو شیطان اپنے رفیقوں سے کہتا ہے کہ نہ تمہارے رہنے کا یہاں ٹھکانہ ہے نہ کھانا ہے اور جب انسان گھر میں داخل ہوتے وقت یا کھانا کھاتے وقت اللہ کا نام نہیں لیتا تو شیطان (خوش ہوکر) اپنے رفیقوں سے کہتا ہے تمہارے رہنے کا ٹھکانہ بھی ہوا اور تمہارے کھانے کا بندوبست بھی ہو گیا۔
٭گھر میں داخل ہوتے وقت یہ دعا پڑ ھیں ۔ اَللّٰہُمَّ إِنیِّ أَسئَلُکَ خَیرَ المَولِجِ وَخَیرَ المَخرَجِ بِاسمِ اللّٰہِ وَلَجنَا بِاسمِ اللّٰہِ خَرَجنَا وَعَلَی اللّٰہِ رَبِّنَا تَوَکَّلنَا ۔(رواہ ابوداؤد/۵۰۹۶ صححہ الشیخ عبد القادر الارنؤوط فی تحقیق زاد المعاد لابن القیم )
ترجمہ:اے اللہ میں آپ سے داخل ہونے اور نکلنے کی بھلائی چاہتا ہوں اللہ ہی کے نام سے ہم نکلتے اور داخل ہوتے ہیں اور ہم اللہ پر ہی (جوکہ ہمارا رب) ہے توکل اور بھروسہ کرتے ہیں ۔
اس کے بعد رسول عربی ا اپنے اہلخانہ سے پوچھتے کہ کیا کوئی کھانے کی چیز ہے اگر تو گھر میں کچھ کھانے کو میسرہوتا تو رسول اللہ ا کو مہیا کر دیا جاتا اور اگرگھر میں کھانے کوکچھ بھی نہ ہوتا تو رسول صابر ا اس دن کے روزے کی نیت کر لیتے تھے ۔ (عن عائشہ رضی اللہ عنہا ، مسلم :۱۱۵۴ )
کھانے کے بعد داعی اعظم ا اپنی دعوتی اصلاحی، گھریلو زندگی میں مشغول ہوجاتے ۔
سنن ترمذی میں صحیح روایت ہے کہ رسول عربی ا زوال کے بعد اور ظہر سے پہلے چار کعتیں ادا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس وقت آسمان کے دروازے واہ ہوتے ہیں پس میں چاہتا ہوں کہ میرا اس وقت نیک عمل بارگاہ الٰہی میں پہنچا دیا جائے ۔ (عن عبد اللہ بن سائب ص ، ترمذی :۴۷۶ تحفہ وصححہ الشیخ سلیم بن عید الہلالی فی تحقیق الأذکار للنو وی رحمہ اللہ )
نمازِ ظہر
رسول اللہ ا آذان ظہر کے بعد فوراً نماز کی تیاری میں مشغول ہوجاتے تھے (وضوء اور نماز کے معمولات محمدیہ ا آئندہ لکھے جائیں گے ۔ اِن شاء اللہ) جبکہ ظہر کی سنتوں کی تعداد کے بارے میں مختلف احادیث وارد ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ظہر کی (۴) یا (۶) رکعتیں سنت ہیں ۔
چار رکعتوں کی دلیل
سیدنا ابن عمر ص ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ا سے دس رکعتیں (علاوہ فرض) حفظ کیں دو رکعتیں ظہر سے پہلے اور دو ظہر کے بعد اسی طرح دو دو رکعتیں مغرب اور عشاء کے بعد اور صبح کی نماز سے پہلے ۲ رکعتیں ۔( رواہ البخاری)
اسی طرح مسند احمد میں ابن عمر ص کی روایت ہے کہ آپ ا ظہر سے پہلے اور اس کے بعد دودو رکعتیں ترک نہیں کرتے تھے ۔
چھ رکعتوں کی دلیل
بعض احادیث نبویہ میں سنتِ ظہر کی تعداد چھ تک مذکور ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں عبد اللہ بن شقیق صروایت کرتے ہیں کہ میں نے صدیقہ کائنات عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ ا کی نماز کی بابت دریافت کیا تو آپ رضی اللہ عنہانے فرمایا کہ آپ ا ظہر سے پہلے چار اور ظہر کے بعد دو رکعتیں ادا کرتے تھے ۔
اسی طرح سنن الترمذی میں ام المؤمنین ام حبیبہ ص کی روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص دن ورات میں بارہ (۱۲) رکعتیں سنت ادا کرتا ہے اللہ اس کیلئے جنت میں ایک گھر تیار کر دیتے ہیں وہ بارہ رکعتیں یہ ہیں :چار ظہر سے پہلے اور دو رکعتیں ظہر کے بعد ، نمازِ مغرب وعشاء کے بعد دو دو رکعتیں جبکہ نمازِ فجر سے پہلے دو رکعتیں ۔
یادرہے کہ مذکورہ بالا احادیث میں کسی قسم کا کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ ا کبھی ظہر سے پہلے دو رکعتیں پڑ ھتے تھے کبھی چار رکعتیں اورابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ممکن ہے کہ آپ ا ظہر سے پہلے گھر میں چار رکعتیں ادا کرتے ہوں جبکہ مسجد میں دو رکعتوں پر اکتفا کرتے ہوں ۔
قیلولہ
دن کے وقت کچھ وقت آرام کی غرض سے لیٹنے کو قیلولہ کہتے ہیں قیلولہ جسم میں چستی و توانائی پیدا کرتا ہے قیلولہ کی اہمیت کو جدید میڈیکل سائنس نے بھی تسلیم کیا ہے اس بارہ میں ترغیبی اور قولی احادیث میں سقم اور ضعف پایا جاتا ہے مگر شہادتِ قرآن اور فعل صحابہ کی رو سے اس عمل کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے ۔
شہادت قرآن
سورۃ النور میں اللہ احکم الحاکمین نے ارشاد فرمایا: ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آَمَنُوا لِیَسْتَأْذِنْکُمُ الَّذِینَ مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ وَالَّذِینَ لَمْ یَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْکُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ مِنْ قَبْلِ صَلَاۃِ الْفَجْرِ وَحِینَ تَضَعُونَ ثِیَابَکُمْ مِنَ الظَّہِیرَۃِ وَمِنْ بَعْدِ صَلَاۃِ الْعِشَاءِثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَکُمْ لَیْسَ عَلَیْکُمْ وَلَا عَلَیْہِمْ جُنَاحٌ بَعْدَہُنَّ طَوَّافُونَ عَلَیْکُمْ بَعْضُکُمْ عَلَی بَعْضٍ کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللَّہُ لَکُمُ الْآَیَاتِ وَاللَّہُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ ﴾ (النور:۵۸)
اے ایمان والو! تم سے تمہاری ملکیت کے غلاموں کو اور انہیں بھی جو تم میں سے بلوغت کو نہ پہنچے ہوں اپنے آنے کی تین وقتوں میں اجازت حاصل کرنا ضروری ہے ۔۱۔نمازِ فجر سے پہلے ، ۲۔ ظہر کے وقت جب تم اپنے کپڑ ے اتارتے ہو ( کیونکہ دوپہر کے وقت انسان دو گھڑ ی طاقت حاصل کرنے کیلئے عموماً اپنے گھر میں بالائی کپڑ ے اتارکر سوتا ہے ) ، ۳۔ عشاء کی نماز کے بعد۔ (تفسیر ابن کثیر ج/۳، ص/۶۳۶ )
فعل صحابہ
عن سَہلِ بن سعد ص قال ما کنّا نقیل ولا نتوضأإلا بعد الجمعۃ۔( صحیح بخاری ، کتاب الجمعۃ )
سہل بن سعد ص فرماتے ہیں کہ ہم نمازِ جمعہ کے بعد قیلولہ اور دوپہر کا کھانا تناول کرتے تھے ۔
امام ابن حجر رحمہ اللہ نے اس اثر کی شرح میں لکھا ہے کہ یہ اثر اس بات کی دلیل ہے کہ قیلولہ اہل عرب کی مسلمہ اور معمول بھا عادت تھی۔ ( فتح الباری ج/۱۲، ص/۸۳ دارالسلام )
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی زندگی رسول اللہا کے اسوئہ حسنہ کے مطابق بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین (جاری ہے )
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟