Thursday, August 13, 2009

یوم آزادی اور ہم

از فضیلۃ الشیخ ابو نعمان بشیر احمد

قرآن مجید وہ آخری کتاب ہے جس میں عبادات اور معاملات انتہائی احسن انداز اور تفصیل سے سمجھائے گئے ہیں اور سابقہ امتوں کے قصص و واقعات سے انجام بھی واضح کر دیا ہے ۔ سابقہ قوموں کے حالات و واقعات صرف تاریخی داستانوں کی حیثیت سے ہی بیان نہیں کیے گئے بلکہ آئندہ آنے والوں کیلئے دعوت فکر اور درس عبرت کیلئے بھی بیان کیے گئے ہیں ۔ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ دنیا میں جتنے رسول تشریف لائے اُتنی امتیں بھی وجو د میں آئی ہوں گی لیکن قرآن مجید میں دو بڑ ی امتوں کا تذکرہ کثرت سے کیا گیا ہے ۔
۱۔ بنی اسرائیل ۲۔ مسلمان
ان دونوں امتوں میں بہت سی چیزوں میں مماثلت پائی جاتی ہے چنانچہ رسول اللہ ا نے فرمایا: لَیَاتِیَنَّ عَلَی اُمَّتِی کَمَا اَتَی عَلَی بَنِی اِسرَائِیلَ حَذوَ النَّعلِ بِالنَّعلِ ۔ (جامع ترمذی)
یقینا میری امت پر بھی وہ حالات آئیں گے جو بنی اسرائیل پر آئے جسطرح ایک جوتا دوسرے جوتے کے مشابہ ہوتا ہے ۔
ایک مرتبہ آپ ﷺ نے اس طرح فرمایا : لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنَ مَن کَانَ قَبلَکُم شِبراً بِشِبرٍ وَذِرَاعاً بِذِرَاعٍ حَتَّی لَو دَخَلُوا جُحرَ ضَبٍّ تَبِعتُمُوہُم قِیلَ : یَارَسُولَ اللّٰہِ ! اَلیَہُودُ وَالنَّصَارَی ؟ قَالَ : فَمَن ؟( بخاری ومسلم)
تم ان لوگوں کی ضرور پیروی کرو گے جو تم سے پہلے گزرے ۔ جیسے بالشت برابر ہوتی ہے بالشت کے اور ہاتھ برابر ہوتا ہے ہاتھ کے ، یہاں تک کے اگر وہ ضب (سانڈہ) کی بل میں گھسے تھے تو تم بھی انکی پیروی کرو گے ۔ آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ اس سے مراد یہود ونصاریٰ ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا اور کون ہو سکتے ہیں ؟
چنانچہ امت مسلمہ نے جس طرح اسلوب زندگی میں بہت سے معاملات میں یہود ونصاری کی پیروی کی ہے اس طرح ہماری تاریخ خصوصاً قیام پاکستان کی تاریخ میں بھی بہت مماثلت پائی جاتی ہے ۔ ذیل میں ہم بنی اسرائیل اور پاکستان کی تاریخ کا موازنہ کرتے ہیں تاکہ نتائج کا سمجھنا آسان ہو۔

تاریخِ بنی اسرائیل کے ساتھ پاکستان کی مشابہت

تاریخِ بنی اسرائیل
۱۔ جس طرح مصر پر عرصہ طویل شرک وکفر کی حکومت رہی۔
۲۔ حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے کافی عرصہ بعد تک اسلامی حکومت کا قیام رہا اور عدل وانصاف اور امن وامان کی زندگی عوام کو میسر آئی۔
۳۔ بنی اسرائیل کے ناخلف حکمران وعوام نے احکام الٰہی کو بھلا دیا، دنیاوی عیش وعشرت میں مشغول ہوگئے اور دین میں تحریف کر کے مرضی کا دین بنا لیا اور دین سے تعلق برائے نام رہ گیا۔
۴۔ احکام الٰہی کو فراموش کرنے اور انعامات کی ناشکری کے نتیجہ میں سنت الٰہی کے مطابق فرعون جیسے ظالم حکمران کو مسلط کر دیا گیا۔
۵۔فرعونی ظالم حکومت کے ہاتھوں سخت مصائب وآلام سے دو چار کیا گیا جیسے قرآن نے بیان کیا: ﴿یَسُومُونَکُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَیُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَکُمْ وَیَسْتَحْیُونَ نِسَاءَکُمْ ﴾ (إبراہیم : ۶) ’’وہ تمہیں بدترین عذاب میں مبتلا کئے ہوئے تھے کہ تمہارے بچوں کو ذبح کردیتے تھے اور بچیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے ۔‘‘ اس طرح تمام تر محنت ومشقت کے باوجود وہ معاشرہ میں ذلیل اور غلام افراد سمجھے جاتے تھے ۔
۶۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دوبارہ احیائے دین کیا اور ظالم حکومت نے انتہاء درجہ کی مخالفت کی تو تحریک آزادی کا آغاز کیا اور تمام بنی اسرائیل نے غلامی سے آزادی کی حمایت کی اور الگ ریاست قائم کر کے دین کے نفاذ کا عہدوپیمان کیا تو دوبارہ آزادی اور الگ ریاست دے کر نفاذ دین کا موقع دیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿وَنُرِیدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَی الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا فِی الْأَرْضِ وَنَجْعَلَہُمْ أَئِمَّۃً وَنَجْعَلَہُمُ الْوَارِثِینَ﴾ القصص:۵
’’ہم نے ارادہ کیا کہ زمین میں جنکو کمزور سمجھا جاتا تھا ان پر احسان کریں اور ان کو رہنما اور وارث بنادیں ۔‘‘
۷۔بنی اسرائیل بے سروسامانی کی حالت میں میدان تیہہ میں پہنچے تو اللہ نے کھانے ، پینے ، سائے اور طرح طرح کے انعامات معجزانہ طور پر عطا کیے ۔
۸۔ بنی اسرائیل انعامات ملنے اور آزادی کا سکون ملنے سے وہ تمام عہد وپیمان بھول گئے اور نفاذ دین کی بجائے شرک وبدعات میں ملوث ہوگئے اور جہاد کا انکار تک کر دیا اور کہنے لگے ﴿قَالُوا یَا مُوسَی إِنَّا لَنْ نَدْخُلَہَا أَبَدًا مَا دَامُوا فِیہَا فَاذْہَبْ أَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا إِنَّا ہَاہُنَا قَاعِدُونَ ﴾ (المائدۃ:۲۴) ’’اور کہنے لگے : اے موسیٰ! ہم اس بستی میں کبھی داخل نہ ہونگے جب تک وہ وہاں موجود ہیں تم اور تمہارا رب جا کر جہاد کرو ہم تو اس جگہ بیٹھے ہیں ۔‘‘چنانچہ بنی اسرائیل نے جہاد کا بھی انکار کر دیا اور اللہ کے وعدوں کی خلاف ورزی بھی تو چالیس سال تک میدان تیہہ میں دھکے کھاتے رہے پھر رجوع الی اللہ کیا اور جہاد کے راستہ کو اپنایا تو ذلت ورسوائی سے نجات ملی اور دوبارہ حکمران بنے ۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب بنی اسرائیل نے جہاد سے انکار کیا تو حصرت موسیٰ وہارون علیہما السلام کی قیادت ومعیت بھی بنی اسرائیل کو ذلت ورسوائی سے نہ بچا سکی۔ لیکن جب ان دونوں نبیوں سے کم درجہ کے حضرت یوشع بن نون کی قیادت ومعیت میں جہاد کیا تو ذلت سے نجات ملی اور فاتح حکمران بنکر زندگی بسر کی ۔

تاریخِ پاکستان

۱۔ اسی طرح برصغیر (پاک وہند) پر عرصہ طویل شرک وکفر کی حکومت رہی۔
۲۔ اسی طرح ۱۷۱۲ء؁ تا ۱۷۵۷ء؁ اسلامی حکومت کا قیام رہا اور عدل وانصاف اور امن وامان کی زندگی عوام کو میسر آئی۔
۳۔ اس طرح عیاش قسم کے حکمران اور اسطرح کی عوام کا دور آیا جنہوں نے احکام الٰہی کو بھلادیا، دنیا طلبی اور عیش وعشرت میں مشغول ہوگئے حتی کہ دین میں تحریف کر کے مرضی کا دین اور فقہ مرتب کرائی اور دین سے برائے نام تعلق رہ گیا۔
۴۔ احکام الٰہی کو فراموش کرنے اور انعامات کی ناشکری کے نتیجہ میں انگریز جیسے ظالم حکمران کو مسلط کر دیا گیا۔
۵۔ اس طرح برصغیر میں مسلمانوں کو انگریزی حکومت کے ہاتھوں سخت مصائب سے دو چار ہونا پڑ ا اور فرعون کے ظلم سے بڑ ھ کر ظلم وستم کیے اور مسلمان نسل کو ختم کرنے کا ہر حربہ استعمال کیا اور تمام تر محنتوں و مشقتوں کے باوجود مسلمان کسی عہدے پر کام نہ کرسکتا تھا بلکہ انگریز اور ان کے حواری ہندوؤں کو تمام سہولیات میسر تھیں ۔
۶۔ اسی طرح برصغیر میں مخلص علماء دین اور مشائخ کرام نے دوبارہ احیائے دین کیلئے محنت کی اور حکومت کی شدید مخالفت پر الگ ریاست قائم کر کے نفاذ اسلام قائم کرنے کی تحریک آزادی شروع کی۔ تو سنت الٰہی ہے کہ جب کوئی قوم اجتماعی طور پر اللہ سے عہد کر کے مطالبہ کرے تو وہ عطا کر کے موقع دیتا ہے تاکہ وہ اپنے عہد کی صداقت ثابت کر سکیں ۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿عَسَی رَبُّکُمْ أَنْ یُہْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَیَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الْأَرْضِ فَیَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُونَ ﴾ (الأعراف:۱۲۹) عین ممکن ہے کہ تمہارا رب دشمن کو ہلاک کر دے اور تمہیں زمین کا وارث بنادے پھر وہ دیکھے کہ تم کیا عمل کرتے ہو۔
۷۔ قیام پاکستان کا معجزانہ وجود بھی اسی سنت الٰہی کے تحت ظاہر ہوا قیام پاکستان کے وقت مسلمان انتہائی بے سروسامانی کے ساتھ پاکستان پہنچے تو جلدی ہی اللہ تعالیٰ نے ہر نعمت سے نوازا اور ترقی یافتہ ممالک کے ہم پلہ ہو گیا حتی کہ ایٹمی قوت جیسی نعمت بھی عطا کر دی۔
۸۔ قیام پاکستان کے بعد انعامات اور آزادی کا سکون ملنے پر ہم بھی وہ تمام عہد وپیمان بھول گئے جو اللہ تعالیٰ سے انفرادی واجتماعی طور پر کیے تھے اور ہر چھوٹے بڑ ے کی زبان پر پاکستان کا مطلب کیا ؟ لا إلہ إلا اللہ کو بھی یکسر بھول گئے اور60 سال سے زائد گزر گئے لیکن وعدہ پورا نہ کیا اور اسلام کی چوٹی اور کہان جہاد کو ترک کر دیا اور 60 سال سے زائد دھکے کھانے کے باوجود رجوع الی اللہ نہیں کیا اور اب تک منزل نہیں ملی اور ذلت ورسوائی سے نجات نہ ملی ۱۹۷۱ء؁ میں سقوط مشرقی پاکستان کی ذلت اٹھائی اور ایک لاکھ فوجیوں اور آفیسروں کو قید بنا کر بھیڑ بکریوں کی طرح ٹرکوں میں لاد کر لے گئے اور آج تک غیر مسلموں کے چنگل میں گرفتار ہیں ۔ آج اسلام کا دشمن یہ سمجھتا ہے کہ اسلام کا غلبہ جہاد میں ہے تبھی تو جہاد پر پابندیاں ہیں لیکن آج مسلمان سمجھتا ہے کہ جہاد بیکار اور پرانا طریقہ عمل ہے اور اس کے ترک کی وجہ سے ذلیل ہوکر رہ گیا ہے ۔ قیام پاکستان کا بھی بنیادی سبب جماعت مجاہدین کی جہادی محنت وکوشش ہے حالانکہ وہ گنتی کے افراد اور بے سروسامانی کے ساتھ تھے لیکن جذبہ جہاد اور استقامت فی الدین کی وجہ سے وقت کے فرعون سے ٹکرا گئے ۔

راہ نجات
قرآن کی بتلائی ہوئی تاریخ نے واضح کر دیا کہ جب تک اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد کو پورا نہ کیا جائے ، رجوع الی اللہ نہ کیا جائے ، اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام نافذ کرنے اور اس کیلئے جہاد نہ کیا جائے ، اس وقت تک ذلت ورسوائی کے سائے نہ ٹلیں گے اور رحمت الٰہی کا ورود نہ ہو گا۔
چمن کے مالی اگر بنالیں ، موافق اپنا شعار اب بھی
چمن میں آ سکتی ہے پلٹ کر روٹھی ہوئی بہار اب بھی - - جگر
پاکستان کی بقا اور ترقی واستحکام کیلئے واحد ممکنہ اساس ، وہ دینی جذبہ بن سکتا ہے جو قومی ونسلی نہیں بلکہ حقیقی وعملی اسلام ہو اور وہ بھی کوئی جدت پسند افراد اور دانشوروں کا کشید کردہ نہ ہو بلکہ علماء حق کا کتاب وسنت سے بیان کردہ اسلام ہو اور فقط جامد مذہبیت نہ ہو بلکہ متحرک اور انقلابی صورت والا ہو اس جگہ ابو الکلام آزاد کا پیغام ذہن نشین کر لینا بھی کیاہی بہتر ہو گا۔ مسلمان۔ ۔ ۔ اگر آزادی کیلئے آسمان کے تارے بھی توڑ لائیں اور ان کے ایک جانب سونے ، چاندی کا ڈھیر ہو اور دوسری طرف فوجوں کی قطاریں ان کے ساتھ ہوں ۔ ۔ ۔ لیکن جب تک وہ خود اپنے اندر ایک مضبوط اور سچی تبدیلی پیدا نہ کریں گے اور ان تمام گنا ہوں اور جرموں کے ارتکاب سے باز نہ آجائیں گے جن کی وجہ سے یہ مصیبتیں ان کو گھیرے ہوئے ہیں ۔ ۔ ۔ انہیں آزادی نصیب نہ ہو گی ۔ ۔ ۔ سچی آزادی کیلئے اپنے آپ کو بدلئیے ۔ ۔ ۔
آزادی کا مطلب صرف زبان سے لفظ آزادی ادا کرنا نہیں بینرزو اشتہارات پر لفظ آزادی مبارک لکھ کر لہرا دینا نہیں بلکہ دین پر آزادی سے عمل کرنا اور اسلامی نفاذ کا آزادانہ نظام قائم کرنا ہے ۔ لیکن اہل پاکستان کی آزادی کس چیز کی آزادی ہے ، ہمارا تعلیمی ، معاشی ، معاشرتی ، عدالتی ۔ ۔ ۔ کونسا پہلو آزاد ہے ؟ بلکہ حقیقت میں ہم آج تک غلام چلے آ رہے ہیں ہاں ہماری آزادی ہے تو لادینیت کو جزوایمان بنانے کی آزادی، شراب نوشی اور قحبہ گری کی آزادی ، حقوق نسواں کو آرٹ اور کلچر کے نام پر بے حیائی پھیلانے کی آزادی، حدود آرڈیننس کے خلاف انسانیت اور خلاف ترقی کہنے کی آزادی ، قوم کے محسنوں کو پابند سلاسل کرنے کی آزادی، نصاب تعلیم سے قرآن خارج کرنے کی آزادی ۔ ۔ ۔ اور پاکستان کو سیکولر اسٹیٹ بنانے کی آزادی اور اس راستہ میں رکاوٹ بننے والوں کو ٹھکانے لگانے کی آزادی۔
میرے مسلمان بہنوں وبھائیو! خدا را اب بھی وقت ہے ، رجوع الی اللہ کا ، توبہ استغفار کا۔ ۔ ۔ ورنہ زلزلے طوفان ، ملک کے اندرن وبیرون فسادات وپریشانیوں کے ساتھ جھنجھوڑ دیا گیا ہے اگر اب بھی عقل کے ناخن نہ لیے تو مزید بڑ ی آفت کیلئے تیار ہو جاؤ کیونکہ قانون الٰہی ہے ﴿عَسَی رَبُّکُمْ أَنْ یَرْحَمَکُمْ وَإِنْ عُدْتُمْ عُدْنَا﴾(بنی اسرائیل :۸) یعنی موجودہ مہلت سے فائدہ اٹھاؤ ورنہ سخت عذاب کیلئے تیار رہو۔
﴿وَإِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ﴾ (محمد:۳۸)
وہ تمہیں ختم کر کے دوسری قوم کو لے آئے گا۔
وہ دور بھی دیکھا تاریخ کی آنکھوں نے
لمحوں نے خطا کی تھی ، صدیوں نے سزا پائی
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟