Thursday, August 13, 2009

اسلامی سن و تقویم اور اس کو رائج کرنے کی ضرورت

از الشیخ محمد نصر اللہ مکی

اسلامی سن کی ابتداء کس نے اورکب کی ؟
اسلامی سن کی ابتداء قمری سال سے کی گئی ہے اور قمری سال جوکہ عرب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے زمانے میں رائج تھا اور اس کے نام بھی اسی ترتیب سے تھے ۔ محرم ، صفر، ربیع الاول وغیرہ ، اور سال کے آخری مہینہ میں حج ہوتا تھا۔ کیونکہ حج ایک مذہبی فریضہ تھا لیکن اس موقع سے تجارتی اور ثقافتی فائدے اٹھانے لگے اور اس کو بڑ ے وسیع پیمانے پر کاروباری اور ادبی اجتماعات کا ذریعہ بنادیا گیا سید الکونین ﷺ کی ولادت سے قبل تین سو برس لوگوں میں بُت پرستی اور دیگر خرابیاں اس قدر بڑ ھیں کہ پورا معاشرہ تہذیب وتمدن سے عاری ہوکر رہ گیا۔ تو غیر مہذب دور میں حج کا مفہوم صرف میلہ تک محدود ہوکر رہ گیا تھا۔

جب امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی تو مدنی اورمکی دونوں کیلنڈر رائج تھے ۔ تاریخوں اور مہینوں کے فرق کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ سن ہجری تک جاری رہا اس سال ذی الحجہ کی نو تاریخ کو جمعہ کے دن حج ہواتو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا کہ اب زمانہ صحیح وقت پر آ گیا ہے ۔ اس کے بعد سے ایک ہی قسم کا قمری سال مقرر کیا گیا جس کا ابتدائی مہینہ محرم مقرر ہوا سال کا آغاز اس وقت سے کیا جب رسول ا کرم ﷺ نے مکہ سے مدینہ ہجرت فرمائی یہاں پر یہ بات ذہن نشین رہے کہ ہجرت نبوی ﷺ تو یکم ربیع الاول بروز سوموار ۱۴ بعثت نبوی میں ہوئی اور اسلامی سن کا آغاز دو ماہ قبل محرم سے کیا جاتا ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل عرب سال کی ابتداء محرم الحرام سے کرتے تھے اس لئے اس قانون کو برقرار رکھتے ہوئے سال کی ابتداء محرم ہی سے کی گئی ہے ۔
عام طور پر یہ بات مشہور ہے کہ سن ہجری کا آغاز حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد سے ہوا۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ ہجرت سے پہلے لوگ ملکی مفادات ، باہمی معاملات کو یاد رکھنے اور ان کو تاریخی حیثیت دینے کیلئے کعب بن لوئی کے انتقال سے شمار کرتے تھے ۔ کچھ عرصہ کے بعد عام الفیل اور عام الضمار سے تاریخی سنہ شمار ہونے لگا۔ جب اسلام ایک مستقل ضابطہ حیات تھا۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سن کیلئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا اجلاس بلایا۔ اس میں سنہ کے متعلق آراء پیش ہوئیں ۔ بعض کی رائے تھی کہ حضور ا کرم ﷺ کی ولادت طیبہ سے سن شروع کیا جائے ۔ اس رائے پہ نظر عمیق کرتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میلاد ی سنہ کی مشابہت عیسائیوں سے ہوجائیگی کیونکہ ان کا سنہ بھی میلادی ہے لہذا اسلامی سنہ کی بنیاد ایک امتیازی نشان سے ہونی چاہیے ۔ اور بعض حضرات نے فرمایا نزول وحی وعہدہ نبوت کی تاریخ سے اسلامی سال کا آغاز ہونا چاہیے اس رائے پر کافی بحث مباحثہ ہونے کے باوجود کوئی فیصلہ نہ ہو سکا۔آخر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نہایت غوروفکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی سنہ کی بنیاد ماہ ہجرت سے رکھی جائے ۔ اس رائے کو پسند کرتے ہوئے بالاتفاق سنہ ہجری کا فیصلہ ہوا۔ اس واقعہ کی تصدیق مستند کتاب سے نہیں ملتی اصل حقیقت یہ ہے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سرکاری معاملات میں تاریخ کا اندراج لازمی قرار دیا تھا۔ ورنہ سنہ ہجری کی ابتداء خود حضرت محمدﷺ کے حکم سے ہو چکی تھی۔ کیونکہ آپ ﷺ نے سرکاری مراسلات ، خطوط میں تاریخ کا اندراج لازمی قرار دیا تھا البتہ یہ بالکل درست ہے کہ سب سے پہلے اسلام نے تواریخ ، سنوں کی ابتداء کی ورنہ اس سے پہلے اساطیر ، قصہ کہانیاں میلہ وغیرہ سے زیادہ تاریخی واقعات کی پوزیشن نہ تھی۔
واضح رہے کہ قمری سال کو مسلمان کے لئے اختیار کرنا سید البشر ﷺ ہادئ کل حضرت محمد ﷺ کا حکم ہے اس بات کی تائید قرآن بھی کرتا ہے ۔
۱۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿ہُوَ الَّذِی جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَاء وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَہُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُواْ عَدَدَ السِّنِینَ وَالْحِسَابَ ﴾(یونس )
وہی ہے جس نے سورج کو چمکتا ہوا بنایا اور چاند کو روشن اور کچھ چاند کی منزلوں کا اندازہ ٹھہرایا تاکہ تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کر لیا کرو۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے حکمت اور مصلحت کے ساتھ بنایا ہے ۔
ارشاد خداوندی ہے :﴿إِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُورِ عِندَ اللّہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِی کِتَابِ اللّہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَات وَالأَرْضَ﴾(توبہ)
اللہ تعالیٰ کے نزدیک مہینوں کی گنتی بارہ مہینے ہے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ایسا ہی لکھا گیا جس دن آسمانوں اور زمین کو اس نے پیدا کیا یعنی جب سے اجرام سماویہ بنے ہیں خدا کا ٹھہرایا ہوا حساب یہی ہے ان بارہ مہینوں میں سے چار حرمت کے مہینے ہوئے رجب ، ذوالقعدہ ، ذی الحجہ ، محرم۔ ہر صورت تمام اسلامی ودینی اداروں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے حساب وکتاب اور معاملات میں قمری سال جو اسلامی سال اور دینی نظام کی عکاسی کرتا ہے رائج کریں ۔
اسلامی سن کا آغاز ہجرت سے کیوں ؟
اسلام میں سن کے آغاز کے لئے انتہائی اہم واقعات موجود تھے لیکن ان کو نظر انداز کرتے ہوئے اگر واقعہ ہجرت نبوی ﷺ کو اسلامی کیلنڈر کے لئے منتخب کیا تو کیوں ؟
اسلامی تاریخ کا سب سے عظیم واقعہ خود حضرت محمد ﷺ کی ذات گرامی ہے جوکہ کرئہ ارضی پر آفتاب ہدایت بن کر طلوع ہوئے ۔ جس نے انسانیت کی پوری تاریخ کی کایا پلٹ کر رکھ دی اور پھر وہ بھی وقت آیا جب نبی علیہ السلام کے سر پرامام انبیاء علیہم السلام کا تاج رکھ دیا گیا۔ اور ابراہیم ، قاسم بن محمد ﷺ کی خوشی کا بھی موقع آیا۔ ان سے بڑ ھ کر ایک وقت یہ بھی تھا کہ ایک ہی رات میں آسمانوں ، جنت دوزخ کی سیر کرائی جسے معراج کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور ہجرت کے بعد غزوات کا دور آیا بدر کا میدان کفر اور اسلام کی جنگ کی جھلک پیش کرتے ہوئے اسلام کا غلبہ و فتح کی نشان دہی کرتا ہے ۔ جنگ خیبر سے پہلے جنگ احزاب کا منظر دیکھ لو۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے آج کے بعد ہم پر کوئی حملہ آور نہ ہو گا اب ہم حملہ کیا کریں گے تھوڑ ی سی نظر آگے دوڑ ائیں تو فتح مکہ کا نقشہ سامنے آتا ہے جس دن کلی طور پر اسلام کو غلبہ حاصل ہوا۔ اور نہ صرف پورے عرب پر بلکہ پوری دنیا پر اسلام کا سِکہ تسلیم ہوا اور اس طرح اگر حزن وملال اور المناک اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو شہداء بدر ، شہداء احد ، جن میں خصوصی طور پر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت اور آپ کے لخت جگر ابراہیم کی وفات حضرت زینب ، ام کلثوم رضی اللہ عنہما کی وفات ، غزوات میں جنگ احد میں فتح کی تبدیلی ہزیمت جنگ حنین میں شکست کا منظر اور طائف کو بغیر فتح کئے واپسی وغیرہ ایک المناک داستان پیش کرتے ہیں ۔
ان واقعات کو نظر انداز کر دیا اور اسلامی سن وتقویم کے لئے منتخب نہیں کیا کہ اسلام فتح ، نصرت ، شکست ، ہزیمت وغیرہ کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا، فتح بدر فتح مکہ تاریخ اسلام کے عظیم کارنامے کہلا سکتے ہیں لیکن اسلام صرف جہاد کانام نہیں ہے ۔ جنگی واقعات اور لڑ ائی جھگڑ وں میں کامیابی حاصل کرنا مقصد نہیں ہے بلکہ اسلام ضابطہ حیات ہے جس کی نہایت صاف ستھری دعوت ہے اور ذہنی طور پر لوگوں کی کایا اس طرف پلٹنی ہے کہ جو دنیا وآخرت میں کامیابی کامرانی کا باعث بن جائے ۔
جہاد ، جنگ ، شکست ، فتح ، خوشی ، مسرت ، غم ، الم ، اگرچہ اپنی جگہ پر ایک حیثیت رکھتے ہیں لیکن ان کو اسلامی سن تقویم کیلئے منتخب نہیں کیا جا سکتا۔ اب ذرا نظر التفات واقعہ ہجرت پر ڈالتے ہیں کہ جنگ جہاد میں مال غنیمت کا حرص اور خوشی میں ذاتی مسرت اور غم الم میں ذاتی دشمنی باعثِ شائبہ بن سکتی تھی لیکن ہجرت ایک ایسا عزم ہے کہ مہاجرین اسلام نے اپنا وطن چھوڑ ا عزیز اقارب سے تعلقات منقطع کئے اپنے گھر بار کو خیر باد کہا ۔زمین ، جائیداد لوٹادیں اور تمام کاروباری رشتے ختم کر دئیے ۔ اور پیغمبر اسلام ﷺ کے حکم پر ایسی جگہ پر جانے کیلئے تیار ہوگئے جہاں وسائل آمدنی اور ذرائع معاش بہت کم تھے ۔اور بظاہر مستقبل تاریک تھا اور اپنے وطن مقدس جہاں حرم پاک مکہ مکرمہ ہے ، سے دور ہوئے سب کچھ برداشت کر لیا لیکن صرف تبلیغ اسلام کی حدود کو وسیع کرنے ، دینی قدروں کو پھیلانے ، توحید الٰہی کی برکتوں کو عام کرنے اور اسلام کی بتائی ہوئی صاف ستھری تہذیب ، ثقافت کو ہمکنار کرنے کی غرض سے انہوں نے سب کچھ قربان کر دیا۔ اور اللہ و رسول کی اطاعت میں زندگی گزارنے کو ترجیح دی ۔ تو کیوں نہ ایسا ہو کہ ان کے نام سے جنہوں نے اسلام کے غلبہ کی خاطر سب کچھ قربان کر دیا اسلامی سنِ تقویم کا آغاز کیا جائے ۔
حکمت سنہ ہجری
مسلمانوں کا سن نہ میلادی نہ نبوی ﷺ ہوابلکہ مقصد اسلام کے پیش نظر باہمی واقعات کو محفوظ رکھنے کیلئے سنہ ہجری کو مقبولیت حاصل ہوئی جس میں بے شمار حکمتیں مضمر ہیں مثلاً :
۱۔ سنہ ہجری ہر سال سبق دیتا ہے کہ بحکم خدا حضور ا کرم ﷺ نے قرآنی اصول کے مطابق آزادانہ زندگی بسر کرنے کیلئے مصائب کا مقابلہ کرتے ہوئے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی۔ سن ہجری مقصد حیات کو واضح کرتا ہے کہ انسان انسان کا غلام نہیں بلکہ وہ ہم مثل انسان سے آزاد بے مثل اللہ تعالیٰ کا غلام ہے ۔ایسی آزادی کو برقرار رکھنے کیلئے اپنا وطن ، جائیداد اور اقرباء چھوڑ دو خاص کر امتِ محمدیہ کیلئے سنہ ہجری ایک راہ عمل ہے ۔ اگر گہری نظر سے اس کا مطالعہ کیا جائے ۔
۲۔ مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ اس کو اپنے نبی جناب محمدرسول اللہﷺ کے نقش قدم پر چلنے کیلئے اگر وطن چھوڑ نا پڑ ے تو خند ہ پیشانی سے مصائب کا مقابلہ کرتے ہوئے ہجرت کرجائے ۔
۳۔سن ہجری یاد دلاتا ہے کہ نزول قرآن سے کیسا انقلاب برپا ہوا ؟ رسول خدا کو ہجرت کا حکم کیوں ہوا؟ حضور ا کرم ﷺ نے مصائب کیوں برداشت کیے ؟ سردارانِ کفر سے کیسے مقابلہ ہوا ؟ حق کو باطل پہ کیسے غلبہ حاصل ہوا ۔اسلامی اصول کا نفاذ کیسے ممکن ہوا ۔مخالفین اور باغیوں کو کیسے سزا ملی مسلمان کا غیر مسلم سے کیا سلوک تھا ؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رسول اللہ ﷺ کی کیسے فرمانبرداری کی؟ اور انہوں نے ملک ملک شہر شہر پیغام خداکو کیسے پہنچایا اور انہوں نے راہ حق میں کیسے خون بہایا؟ انہوں نے سلاطین باطل سے کیسے مقابلہ کیا ؟ انہوں نے ممالک کفر پر کیسے قبضہ کیا ؟ اور ان پر کیسے حکمرانی کی قلیل جماعت کثیر پر کیسے غالب آئی؟ مومن اور منافق کا کیسے فرق ہوا ؟
۴۔ سن ہجری سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مخالفین کو کیسے تباہ کیا ؟ ان پر عذاب کیسے نازل ہوا؟ وہ دنیا میں کیسے ذلیل ہوئے ؟ اور اہل حق کو غیبی امداد کیسے پہنچی ؟ فرشتوں نے دشمنانِ خدا پر کیسے حملہ کیا؟ بحکم خدا جانوروں اور پرندوں نے کیسے مدد کی ؟ اور بارش سے اہل اسلام کو کیسے فتح ہوئی ؟ کائنات پر اسلام کا عالمگیر غلبہ کیسے ہوا ؟
تقاضائے سن ہجری
ہرسال کا پہلا مہینہ محرم الحرام دعوت دیتا ہے کہ مسلمان کا مقصد حیات نہ وطن ہے نہ جائیداد ہے ۔ نہ عیش وعشرت ہے نہ ا کرام وعزت ہے ، بلکہ قیام دین اور رضائے الٰہی ہے لہذا ہر باطل سے ٹکراتے ہوئے مقصد حیات پر قائم رہو اور کفر ، شرک ، بدعت اور خرافات کو جڑ سے اکھیڑ کر رکھ دو۔ اور صرف ایک اسلام کا ہی غلبہ دنیا اور پوری کائنات پر قائم کرو۔
افسوس صد افسوس ان انسانوں پر جو محرم الحرام کا خوشی مسرت سے استقبال کرنے کی بجائے ماتم رونے دھونے سے استقبال کرتے ہیں بلکہ غیر مسلم بھی سالوں کی ابتداء بڑ ی دھوم دھام سے کرتے ہیں ۔ مثلاً عیسائی لوگ ولادت حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ۲۵ دسمبر کرسمس ڈے مناتے ہیں ۔ تعجب ہے مسلمان مردوزن پر کہ ان میں شریک ہوتی ہیں جبکہ مذہب اسلام اس کا تقاضا نہیں کرتا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اظہار مسرت کرسکتے ہو لیکن دائرہ اسلام میں رہ کر ورنہ حد سے تجاوز کرنا مناسب نہیں ہے اور رونا ماتم کرنا تو بالکل غیر مناسب ہے ۔
مقاصد اسلامی سنہ ہجری
ہجری کیلنڈر کا آغاز صرف حساب وکتاب کا ذریعہ نہیں بلکہ بغور سوچنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ زندگی میں باعمل ہوجانے کا ایسا اشارہ ہے جس کے پس منظر میں پوری تاریخ نظر آتی ہے دیکھئے زمانہ ہر لمحہ تبدیل ہوتا جا رہا ہے ۔ اور اس تبدیلی کا مقصد حرکت ہے اور حرکت باعمل ہونے کا اشارہ ہے اور اسی سے انسانیت کی تکمیل ہوتی ہے ۔ انسان کا باعمل ہونا ہی اس کیلئے راہ نجات بن سکتا ہے اور اسی چیز کو شریعت نے بھی ملحوظ رکھا ہے ۔
اسلامی سن ہجری شروع کرنے کا سب سے بڑ ا مقصد احکام الٰہی کو پابندی سے ادا کرنا ہے کیونکہ ارکان اسلام اس کا تقاضا کرتے تھے ، قرآن اور حدیث کو دیکھیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :﴿إِنَّ الصَّلاَۃَ کَانَت عَلیَ المُؤمِنِینَ کِتَاباً مَوقُوتاً﴾(النساء )
کہ اسلام کے ستون ایک مقررہ وقت کا تقاضا کرتے ہیں اور اگر روزہ کی طرف التفات کرو جس کے بارے میں ارشاد نبوی ﷺ ہے الصوم جنۃ من النار تو قرآن کہتا ہے : ﴿شَہرُ رَمَضَانَ الَّذِی اُنزِلَ فِیہِ القُرآنُ﴾(البقرۃ)
کہ روزے ایک ماہ میں رکھنے فرض ہیں جسے ماہ رمضان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور اسلام کے تیسرے رکن کو دیکھتے ہیں توقرآن کہتا ہے : ﴿وَاٰتُوا حَقَّہُ یَومَ حَصَادِہِ﴾اور ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے : لیس فی مال زکاۃ حتی یحول علیہ الحول کہ زکوۃ ایک سال کی مدت کے اندر نہیں آتی ایک سال سے زیادہ مدت کا تقاضا کرتی ہے اورکلمہ شہادت کے بعد پانچویں رکن پر نظر ڈالتے ہیں جو قرآن کہتا ہے :﴿اَلحَجُّ اَشہُرٌ مَّعلُومَاتٍ﴾ (البقرۃ)
کہ حج بھی چندمہینوں کا تقاضا کرتا ہے ۔ تو معلوم ہوا کہ سن ہجری کو اس لئے شروع کیا گیا تھا کہ ارکان اسلام کو بروقت ادا کیا جا سکے اور حساب کتاب میں کمی بیشی واقع نہ ہو اور انسان ان چیزوں پر بروقت عمل کرتے ہوئے دنیا عقبیٰ کی کامیابی وکامرانی حاصل کرسکے ۔ اللہ عزوجل ہمیں اپنے تمام ترمعاملات میں اسلامی سن کو بطور شعار اپنانے کی توفیق عنایت فرمائے ۔ (آمین )
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟