Thursday, August 13, 2009

تحریکِ ختمِ نبوت اور تاریخِ اہلِ حدیث کے عظیم مصنف

از محمد رمضان یوسف
آخری قسط


محترم ڈاکٹرصاحب نے اس کتاب میں فتنہ قادیانیت کی تردید ، اس کی بیخ کنی کے آغاز کی تاریخ ، مرزا قادیانی کی راہ میں حائل شخصیات کا تذکرہ ، سب سے پہلے مرزا قادیانی کے خلاف متفقہ فتوی تکفیر کی داستان اور تحریک ختم نبوت کے حقیقی اولین بانی اور قائدین کے حالات و واقعات پر بڑ ی تحقیق کے ساتھ ضبط کتابت میں لانے کی سعی کی ہے ۔ اس اعتبار سے یہ کتاب تحریک ختم نبوت پر ایک مستند مدلل اور تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کی کیفیت کے لحاظ یہ کہنا درست قطعاً مبالغہ نہیں ہو گا کہ زیر نظر موضوع پر ایسی کتاب اس سے پہلے مرتب نہیں ہوئی۔

اس کتاب کی جلد اول اور ششم کا حرفے چند مورخ اہل حدیث ذہبی دوراں محمد اسحاق بھٹی صاحب نے لکھا ہے اور اس کتاب کی مختلف جلدوں پر مولانا اصغر علی سلفی ناظم اعلیٰ مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند ، مولانا ثناء اللہ سیالکوٹی امیر جمعیت اہلحدیث برطانیہ، پروفیسر ڈاکٹر عبدالرؤف ڈائریکٹر سیرت چیئرمین اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ، مولانا شیر خان جمیل احمد ناظم تعلیمات مرکزی جمعیت اہل حدیث برطانیہ ، مولانا محمد داؤد راشد کوٹلی ورکاں ، کی تقاریظ ہیں ۔ ہندوستان میں یہ کتاب مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند شائع کر رہی ہے اور پاکستان میں کتابت وطباعت کے جملہ محاسن سے آراستہ کر کے مکتبہ قدوسیہ کے زیر اہتمام ڈاکٹر صاحب خود شائع کروا رہے ہیں ۔
٭ تاریخ اہل حدیث : ڈاکٹر بہاء الدین صاحب کی طرف سے اس کتاب کی ترتیب وتدوین جماعت کیلئے بڑ ی خوش آئندہے ایک عرصے سے تاریخ اہل حدیث پر جامع اور مستند کتاب کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی اس سلسلے میں مرکزی جمعیت اہل ہند نے اس کام کی اہمیت وافادیت پر سنجیدگی سے توجہ کی اور اس کام کیلئے مولانا اصغر علی سلفی نے چار پانچ سال بیشتر اپنے ایک دورہ برطاینہ کے دوران ڈاکٹر بہاء الدین صاحب سے ملاقات کر کے انہیں اس اہم ذمہ داری کی انجام دہی پر راضی کیا۔ ڈاکٹر صاحب تاریخ اہل حدیث جلد اول کے مقدمے میں تحریر فرماتے ہیں :
جناب اصغرعلی امام مہدی اپنے تبلیغی تحریکی تنظیمی اسفار کے باعث جہاں گشت بن چکے ہیں چند ماہ قبل وہ برطانیہ تشریف لائے تو جناب شیر خان جمیل احمد عمری کی مدد سے اس فقیر بے نواکوڈھونڈ نکالا۔ جمعیت اہل حدیث ہند جیسی بڑ ی تنظیم کے ناظم اعلیٰ کا ہزاروں میل کا سفر کر کے میرے غریب خانے پر پہنچ جانا پیادہ کے گھر سالار کی تشریف آوری سے کم نہ تھا۔ میں اپنی خوبی قسمت پر ناز ہی کر رہا تھا کہ انہوں نے یہ بتانا شروع کر دیا کہ آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کو قائم ہوئے ایک سو سال ہورہے ہیں لیکن ابھی تک تاریخ اہل حدیث مرتب نہیں ہو سکی اس لئے آپ اپنی دیگر مصروفیات مؤخر کر کے یہ قرض چکا دیجئے اور جمعیت اہل حدیث ہند کو اس کے حقوق دے کر ہمیں اس کی اشاعت کا شرف دے دیجئے ۔
یوں جناب اصغر علی امام مہدی سلفی کی تحریک تشویق سے یہ مرحلہ طے ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے تاریخ اہل حدیث پر لکھنا شروع کیا تو ان کا اشہب قلم چوکڑ یاں بھرنے لگا اس کتاب کی پہلی دو جلدیں تیرہ سو سے زائد صفحات کا احاطہ کئے ہوئے ہیں اور مکتبہ ترجمان دہلی سے شائع ہو چکی ہیں ۔ تیسری جلد عنقریب پریس میں جانے والی ہے ، اور چوتھی اور پانچویں جلدوں کی تیاری ان دنوں مختلف مراحل میں ہے ۔
٭ تاریخ اہل حدیث کی جلد اول تعارفی حیثیت رکھتی ہے اس میں اہل حدیث کے عقائد ، دین خالص کا تعارف ، قرآن وحدیث کی اولیت اور اہمیت ، سلفیت کا مفہوم اور بعض سلفی اکابر کے حالات اجمال وتفصیل سے بیان کئے ہیں اس میں قارئین گاہے گاہے بازخواں ایں قصہ پارینہ را کا لطف اٹھا سکتے ہیں اور وہ قارئین جو جماعت اہل حدیث سے متعارف ہونا چاہتے ہیں وہ اس کے مطالعہ سے اس کے بنیادی عقائد اور تاریخ وخدمات سے واقف ہو سکتے ہیں ۔ اس کتاب میں سلفیت سے متعلق ہر پہلو کا احاطہ کیا گیا ہے توحید وسنت اور سلفی منہج پر اختصار کے ساتھ بڑ ی مستند اور جامع معلومات دی گئیں ہیں ۔
عہد صحابہ ، عہد تابعین میں عمل بالحدیث پر گفتگو ، اہل حدیث کی تعریف ، اہل حدیث کے عقائد، مقام صحابہ ، بدعت حسنہ ، سواداعظم ، شرک کی اقسام ، رفع الیدین آمین بالجہر فاتحہ خلف الامام ، طلاق ثلاثۃ، سینے پر ہاتھ باندھنا ، اقسام حدیث وغیرہ اس کتاب کے اہم عنوانات ہیں اور شاہ فاخر کے رسالہ نجاتیہ، شاہ ولی اللہ کی حجۃ اللہ البالغہ سے چند ضروری مباحث، شاہ اسماعیل کی تقویۃ الایمان ملخصاً اور تنویر العینین ملخصاً ، مولانا ولایت علی صادقپوری کی عمل بالحدیث مکمل ، مولانا محمد حسین بٹالوی کے اشاعۃ السنہ سے بعض ضروری مباحث ، مولانا ثناء اللہ امر تسری کی اہل حدیث کا مذہب مختصراً ، مولانا عبد العزیز رحیم آبادی کی ہدایۃ المعتدی مکمل، مولانا محمد ابراہیم میر کی تاریخ اہل حدیث سے چند ضروری مباحث اس جلد میں شامل کر دیئے گئے ہیں ۔ بلاشبہ تاریخ اہل حدیث کی یہ جلد مرتب کر کے ڈاکٹر صاحب نے جماعت اہل حدیث پر احسان عظیم کیا ہے ۔
٭ تاریخ اہل حدیث کی دوسری جلد ۶۵۶ صفحات کا احاطہ کئے ہوئے ہے اس کے شروع میں مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی ناظم اعلیٰ جمعیت اہل حدیث ہند ، ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری صدر جامعہ سلفیہ بنارس ، شیخ عبد المعید مدنی اڈیٹر الادتقامہ دہلی ، مولانا ثناء اللہ سیالکوٹی امیر جمعیت اہل حدیث برطانیہ ، ڈاکٹر عبد العلی ازہری پروفیسر مسلم کالج لندن ، مولانا شیر خان جمیل احمد عمری ناظم تعلیمات جمعیت اہل حدیث برطانیہ کے تاثرات ہیں ۔ اس کے بعد تاریخ اہل حدیث کے بارے ڈاکٹر بہاء الدین کا نہایت پر مغز اور جامع پیش لفظ ہے جس میں تاریخ اہل حدیث کے مختلف پہلو وں کو اشارۃً بیان کیا گیا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے اس جلد کو مختلف ابواب میں منقسم کر کے ان پر قرآنی آیات سے لطیفانہ استدلال کئے ہیں اس سے لائق مصنف کے اعلیٰ (قرآنی)ذوق کی عکاسی ہوتی ہے ۔ آغاز میں برصغیر میں اسلام کی آمد اور اس خطے میں آنے والے اہلحدیث حضرات کے متعلق تفصیل دی گئی ہے ۔ ظلمات بعضہا فوق بعض ، کے تحت اس خطے میں فقہی جمود ، ارکان اسلام پر ہندی فقہاء کی مشقِ ستم عائلی زندگی پر ہندی فقہاء کی نظرِ کرم ، فقہاء ہند کی قرآن وسنت سے بے اعتنائی کو احاطہ تحریر میں لایا گیا ہے ۔ مصابیح اللیل کا عنوان دے کر ایسے علماء و آئمہ اور شیوخ کا تذکرہ کیا گیا ہے جنہوں نے ہند کے صنم کدہ ظلمت میں توحید وسنت کی ضیا پاشیاں کیں اور لوگوں کو صراط مستقیم دکھائی۔
﴿أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِینَ کَالْمُجْرِمِینَ ٭ مَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُونَ ٭أَمْ لَکُمْ کِتَابٌ فِیہِ تَدْرُسُونَ ﴾کے تحت تکفیری مہم ، باب تاویل اور احناف کی کتب احادیث میں تحریف کے مجرمانہ فعل کو بے نقاب کیا گیا ہے ۔ جماعت اہل حدیث نے ہند میں اہل حدیث کی نشاۃِ ثانیہ کے لئے ابتدائی دور میں احناف سے جو مباحثے کئے اس کی بھی اچھی خاصی تفصیل بیان کی گئی ہے اور بہت سے مباحثات کی تفصیل دے دی ہے اور اس پر انہوں نے ﴿کَم مِنْ فِئَۃٍ قَلِیلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیرَۃً بِإِذْنِ اللَّہِ﴾کا عنوان قائم کیا ہے ۔ اس خطے میں جماعت اہل حدیث پر بہت سے جھوٹے مقدمات بنائے گئے اور انہیں مختلف طریقوں سے تنگ اور پریشان کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب نے ۲۰ کے قریب معروف مقدمات کا ذکر کیا ہے اور بعض مقدمات کے فیصلوں کا متن (اردو ترجمہ) بھی دے دیا ہے ( اور بعض عدالتی فیصلوں کا انگریزی متن بھی نقل کر دیا ہے ) ان مباحث کے علاوہ اس جلد میں ڈاکٹر صاحب نے فقہی مذاہب ، اس خطے میں فقہ حنفی کی ترویج کے اسباب، فقہی جمود اور تقلیدی غلو، اہل حدیث پر جبرو تشدد اور اخراج عن المساجد، اشتہارمسائل عشرہ اور ادلہ کاملہ، مباحثہ فرید کوٹ ۱۸۳۳ء سے متعلق غلط بیانی وغیرہ کے عنوانات پر حقائق ، مستند حوالہ جات کی روشنی میں پیش کر دئیے ہیں ۔ یہ جلد اپنے مشمولات کے اعتبار سے بہت سی تاریخی معلومات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے ، اس کے مطالعہ سے تحریک اہل حدیث کا خوب صورت پہلو نکھر کر سامنے آتا ہے اور قاری کو معلوم ہوتا ہے اس خطے میں توحید وسنت کے احیاء کیلئے جماعت اہل حدیث نے کس قدرجدوجہد کی اور کتنی قربانیاں پیش کی ہیں ۔ اس کتاب کی ترتیب واشاعت پر ڈاکٹر صاحب اور ان کے رفقاء بجا طور پر مبارک باد کے مستحق ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کو صحت وسلامتی سے رکھے کہ وہ اس کتاب کی بقیہ جلدیں بھی جلد از جلد حوالہ قرطاس کرسکیں ۔ آمین
٭ کشف الاسرار بجواب نعیم الابرار ۔ یہ کتاب ڈاکٹر صاحب نے جامعہ سلفیہ فیصل آباد سے تعلق کے دوران مولانا محمد صدیق کرپالوی فیصل آبادی مرحوم (نائب امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان ، شیخ الحدیث جامعہ سلفیہ فیصل آباد) کی رہنمائی میں شیعہ کی ایک کتاب نعیم الابرار کے جواب میں مرتب کی تھی جو ۱۹۷۵ء میں شائع ہوئی ۔
٭ شاہ محمد اسماعیل شہید : حیات وافکار۔ یہ کتاب ڈاکٹر صاحب نے ڈیڑ ھ سال کی محنت شاقہ سے جامعہ سلفیہ فیصل آباد کے صدر میاں فضل حق مرحوم (وفات ۱۲ جنوری ۱۹۹۶ء) کی خواہش پر مرتب کی۔ اس پر نظر ثانی مولانا حافظ محمد ابراہیم کمیر پوری مرحوم نے فرمائی بعد ازاں اس کا مسودہ میاں فضل حق صاحب کی خدمت پیش کر دیا گیا۔ یہ کتاب طبع نہیں ہو سکی اور نہ ہی پتہ چلتا ہے کہ مسودہ کدھر گیا۔
٭ تحریک اہل حدیث کی ایک ناقابل فراموش شخصیت: یہ کتابچہ ڈاکٹر صاحب کی اس تقریر پر مشتمل ہے جو انہوں نے مرکزی جمعیت اہل حدیث برطانیہ کے تربیتی اجتماع منعقدہ بریڈ فورڈ میں فروری ۲۰۰۰ء میں مولانا محمد حسین بٹالوی کی شخصیت اور کارناموں کے تعارف میں کی تھی۔ اس رسالے کی اشاعت بعض جماعتی جرائد کے علاوہ رسالے کی شکل میں برطانیہ میں ادارہ ماہنامہ صراط مستقیم اور ہندوستان میں کلکتہ سے شائع ہوئی۔
٭ اگر برصغیر میں وہابی نہ ہوتے : یہ رسالہ ڈیوزبری برطانیہ میں جمعیت اہل حدیث کے تربیتی اجتماع میں سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کی حیات وخدمات پر کی جانے والی ڈاکٹر صاحب کی تقریر پر مشتمل ہے جسے مکتبہ الفہیم مؤناتھ بھنجن یوپی نے رسالے کی شکل میں شائع کیا۔
٭ برصغیر پاک وہند میں تعلیم وترویج حدیث ۔ یہ رسالہ جامعہ سلفیہ فیصل آباد کی طرف ۱۹۷۰ء کے عشرے میں شائع ہوا۔
٭ ہمارے اکابر ، اہل حدیث کی نمایاں شخصیات: اس رسالے میں اکابرین اہل حدیث کا تذکرہ خوب صورت پیرائے میں کیا گیا ہے ۔ طبع دسمبر ۱۹۷۲ء جامعہ سلفیہ لائل پور فیصل آباد
٭ شیخ محمد بن عبد الوہاب اور ان کی دعوت : یہ رسالہ بعض جماعتی جرائد میں شائع ہونے کے علاوہ جامعہ سلفیہ فیصل آباد سے ۱۹۷۰ء کے عشرے میں کتابی صورت میں شاعء ہوا۔
۱۹۷۰ء کے عشرے کے ابتدائی برسوں میں ڈاکٹر صاحب تین سال جامعہ سلفیہ سے منسلک رہے ۔ آپ جامعہ میں بی اے کرنے کے خواہشمند طلباء کو انگریزی پڑ ھاتے تھے اس کے ساتھ آپ کو جامعہ سلفیہ کی لائبریری کا انچارج بھی بنادیا گیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی کوشش اور توجہ دلانے پر میاں فضل حق مرحوم صدر جامعہ سلفیہ کمیٹی نے لائبریری کیلئے ماہانہ فنڈ منظور کیا۔ یوں لائبریری کیلئے تسلسل کے ساتھ نئی کتب خریدی جانے لگیں ۔ اس خدمت کے علاوہ ڈاکٹر صاحب نے کوشش کر کے مرحوم علماء کے وارثوں سے ان کے کتب خانے جامعہ سلفیہ میں منتقل کرانے شروع کئے اور اس سلسلے میں جماعت اہل حدیث کے دو مشہور مناظرین مولانا ملک عبد العزیز ملتانی رحمہ اللہ اور مولانا احمد دین گکھڑ وی رحمہ اللہ کے کتب خانے ڈاکٹر صاحب نے خود ان کے ورثا سے حاصل کر کے جامعہ سلفیہ کی لائبریری میں شامل کئے ۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب نے جامعہ سلفیہ میں نشر واشاعت اور طبع وتالیف کا ایک شعبہ بنوایا۔ اس کے تحت ہر ماہ باقاعدگی سے چھوٹے چھوٹے خوبصورت کتابچے شائع کئے جاتے تھے ۔ اسی شعبہ کے تحت ڈاکٹر صاحب کے دو کتابچے شیخ محمد بن عبد الوہاب اور ان کی دعوت ، اور برصغیر پاک وہند میں تعلیم وترویج حدیث شائع ہوئے تھے ۔ اس کے علاوہ مولانا غلام احمد حریری اور مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مقالات بھی شائع ہوئے ۔
جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں قیام کے دوران ڈاکٹر صاحب کی تجویز پر یہ طے ہوا کہ تحقیقی کام کے خواہش مند طلباء اپنی تعلیم کے آخری سال کسی منتخب موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھا کریں اور پھر ڈاکٹر صاحب کی نگرانی اور موجودگی میں کئی مقالات لکھے گئے اور ہنوزیہ سلسلہ جاری ہے ۔
ڈاکٹربہاء الدین صاحب نہایت با اخلاق ملنسار اور نیک انسان ہیں ۔ مسلک اہل حدیث سے محبت اور شیفتگی انہیں ورثہ میں ملی ہے ۔ مولانا عبد اللہ گورداسپوری نے اپنے اس لخت جگر کی تعلیم وتربیت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ ڈاکٹر صاحب علمائے سلف اور اکابرین جماعت سے بڑ ی محبت وعقیدت رکھتے ہیں ۔ انہوں نے راقم الحروف کو بتایا ہے کہ جب علمائے کرام والد صاحب کوملنے ہمارے ہاں بورے والا تشریف لایا کرتے تھے تو مجھے ان کی گفتگو سننے اور ان کی خدمت کرنے کا شرف حاصل ہوتا تھا۔ ان علماء میں مولانا محمد اسماعیل سلفی گجرانوالہ، مولانا عبد الستار امام جماعت غرباء اہل حدیث ، حضرت صوفی محمد عبد اللہ صاحب اوڈانوالہ رحمہم اللہ جمیعاً شامل ہیں ۔ بلاشبہ ڈاکٹر صاحب جماعت کا عظیم سرمایہ ہیں ، انہوں نے تصنیف وتالیف سے جماعت کیلئے گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں ۔ اگست ۲۰۰۵ء میں جمعیت اہل حدیث ہند نے انہیں مورخ عصر کے خطاب سے نوازا اور لال گوپال گنج آلہ آباد (بھارت) میں جامعہ ابی ہریرہ الاسلامیہ کی زیر نگرانی انعقاد پذیر ہونے والے یک روزہ علمی سیمینار میں 14 اگست 2008ء کو فریوائی اکادمی ، پریو انارائن پور الہ آباد نے انہیں فریو آئی ایوارڈ برائے خدمت علوم اسلامیہ سے نوازا۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کو صحت وسلامتی سے رکھے اور ان کا را ہو ار قلم جماعت کیلئے لؤلو ولالہ بکھیرتا رہے ۔ آمین
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟