Thursday, August 13, 2009

مصیبتوں ، تکلیفوں اور بیماریوں کے علاج کے لئے اسوۂ حسنہ

بقلم : فضیلۃ الشیخ ابو عبدالمجید
ترتیب: ابراہیم زکریا

قارئین کرام!کسی کی شادی کیلئے فال نکلوانا یا میاں بیوی کے مسائل کیلئے کسی سے فال نکلوانا یا استخارہ کرانا حرام ہی نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ نے اسے کفرقراردیا ہے ۔ مسند احمد، سنن أبی داؤدوابن ماجہ وغیرہ
٭ ہر خیر کے حصول اور ہر برائی سے بچنے کیلئے مندرجہ ذیل امور کا بجالانا ضروری ہے
۱۔ سب سے پہلے یہ عقیدہ رکھنا کہ ہرمخلوق زندہ یا فوت شدہ، نبی ہو یا ولی سب اللہ کے سامنے بے اختیار، اور انتہائی کمزور ہیں ، سارا اختیار اللہ رب العالمین کو ہے وہی اکیلا سب کا خالق اور مالک ہے ۔ وہی اللہ علی کل شئی قدیر (ہر چیز پرقادر ) ہے اور سب کی پیشانی اور دل اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں ۔
۲۔ شیطان ، نفسِ انسان اور اللہ تعالیٰ کے دشمن یعنی یہود ونصاریٰ کو اپنا دشمن سمجھنا۔
شیطان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
إِنَّ عِبَادِی لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطَانٌ إِلَّا مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْغَاوِینَ الحجر:۴۲
جب شیطان نے اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ میں تیرے سارے بندوں کو گمراہ کروں گا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تو جو کچھ کر سکتا ہے کر لے لیکن جو میری بندگی کرنے والے ہوں گے میں ان پر تیرا ایک وار بھی نہیں چلنے دوں گا۔ لیکن جو تیری پیروی کرے گا میں تجھے بھی اور انہیں بھی جہنم میں ڈال دونگا ۔
دوسری جگہ فرمایا ﴿وَمَنْ یَعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمَنِ نُقَیِّضْ لَہُ شَیْطَانًا فَہُوَ لَہُ قَرِینٌ ٭وَإِنَّہُمْ لَیَصُدُّونَہُمْ عَنِ السَّبِیلِ وَیَحْسَبُونَ أَنَّہُمْ مُہْتَدُونَ﴾( الزخرف:۳۶۔۷۳)
یعنی جو بھی رحمن کی فرمانبرداری سے ذرا سا بھی جان بوجھ کر چشم پوشی کرے گا ہم اس پر خود ہی شیطان مسلط کر دیں گے ۔پس وہ شیطان اس انسان کا ساتھی بنا رہے گا اور یہ لوگ انہیں اللہ کے راستے سے روکیں گے اور وہ سمجھیں گے کہ ہم ہی ہدایت پر ہیں ۔
٭ لہذا ہم جتنا بھی اللہ کے قریب ہوں گے قرآن پاک سمجھ کر صحیح پڑ ھیں گے ، زبانی یادکریں گے ، رسول اللہ ﷺ کی صحیح سنت کے مطابق عمل کریں گے اور انہی دو چیزوں (یعنی قرآن اور حدیث) کی دعوت دیں گے تو ہم سے شیطان ڈرے گا اور دور بھاگے گا اور ہم جتنا اللہ سے دور جائیں گے اتنا ہمارے دلوں میں شیطان کا ڈر اور خوف آئے گا اور پھر ہم شیطان کے حوالے ہوجائیں گے ۔
٭ لہذا قرآن ، نماز یا اذکار جو بھی پڑ ھیں سمجھ کر پڑ ھیں ۔ہر قسم کے اذکار کے الفاظ، انہیں پڑ ھنے کے اوقات اور پڑ ھنے کی تعداد کو خاص کرنے کیلئے رسول اللہ ﷺ سے ثبوت ضروری ہے یعنی ان کی سند صحیح احادیث سے ثابت ہو۔
٭آنے والی آفتوں سے بچنے اور آئی ہوئی آفتوں کے علاج، سب کیلئے مسنون اذکار ہی کافی ہیں ۔ اذکار (یعنی فرمان الٰہی کی پابندی) کرنے والے کی مثال رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق یوں سمجھیں جیسا کہ کسی کے پیچھے طاقتور دشمن ہو اور وہ دشمن سے ڈرکر کسی مضبوط قلعہ میں پناہ گزیں ہوجائے ۔
٭ رات کو اٹھ کر کم از کم دو رکعتیں پڑ ھ کر اللہ تعالیٰ سے صحت وعافیت اور ہر غم وپریشانیوں کا علاج طلب کریں کہ خود اللہ رب العالمین آسمان دنیا پر تشریف لا کر بندوں سے کہتا ہے کہ کوئی ہے جو مجھ سے مانگے میں دینے کیلئے آیا ہوں ۔
٭ حقوق اللہ اور حقوق العباد میں تمام کوتاہیوں اور سستی سے توبہ کرے ۔
٭ حقوق فوراً ادا کرے ، کوتاہی پرسخت شرمندگی ہو اور آئندہ کسی بھی قسم کی کوتاہی نہ کرنے کا عزم مصمم کرے ۔
٭ فرض صلوات (پنجوقتہ نمازوں )کو باجماعت تکبیر اولی کے ساتھ ادا کرنے کی پابندی کرے اور کوشش کرے کہ اذان سے پہلے مسجد میں موجود ہو نیز خواتین وقت پر نماز ادا کریں ۔
٭ سنن مؤکدہ ادا کرے ، خوب دعائیں کرے ۔
٭صلوات (نمازوں ) میں خوب رویا کرے اگر رونا نہ آ سکے تو رونے کی کوشش کرے ۔
٭ ہر صلاۃ فریضہ (فرض نماز) کے بعد کے اذکار پابندی سے پڑ ھے ، مثلاً / آیۃ الکرسی ایک مرتبہ، تینوں قل، ایک ایک مرتبہ وغیرہ
٭ حصن المسلم (طبع دار الاندلس یا دار السلام ) حصن المؤمن (طبع جامع مسجد اہلحدیث کورٹ روڈ) یا ان جیسی اذکار کی مستند کتاب ہمیشہ ساتھ رکھے ، جو دعا جس موقع پر اور جتنی تعداد میں پڑ ھنا رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہو اس کی پابندی کرے ، جیسے صبح وشام کے اذکار ، سونے جاگنے کے اذکار، آنے جانے کے اذکار، کھانے پینے کے اذکار وغیرہ۔
صحیح بخاری میں رسو ل اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ جس نے رات کو سونے سے پہلے آیۃ الکرسی پڑ ھ لی اللہ تعالیٰ اس پر فرشتہ نگراں مقرر کرے گا اور صبح تک شیطان اس کے قریب نہیں آ سکے گا۔ اور فرمایا : کہ جو رات کو سورۃ البقرۃ کی آخری دو آیتیں پڑ ھے گا ، یہی دونوں آیتیں اس کیلئے ہر شر (برائی) سے کافی ہوجائیں گی۔
صحیح مسلم میں ہے کہ جس نے أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ صبح وشام پڑ ھ لی ، اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
سنن أبی داؤد میں یہی دعا تین تین دفعہ صبح وشام پڑ ھنے کا آیا ہے ۔ اسی طرح بِسمِ اللّٰہِ الَّذِی لَا یَضُرُّ مَعَ اسمِہِ شَیئٌ فِی الأَرضِ وَلاَ فِی السَّمَائِ وَہُوَ السَّمِیعُ العَلِیمُ صبح وشام تین دفعہ۔
حَسبِیَ اللّٰہُ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ ہُوَ عَلَیہِ تَوَکَّلتُ وَہُوَ رَبُّ العَرشِ العَظِیمِ سات سات دفعہ صبح وشام۔
۱۔ سُبحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمدِہِ سو(۱۰۰) مرتبہ صبح وشام ۔
۲۔ لاَاِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ ، لَہُ المُلکُ وَلَہُ الحَمدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَئٍ قَدِیرٌ۔صبح وشام سو(۱۰۰) دفعہ۔
نوٹ : نمبر (۱) اور نمبر(۲) یہ دونوں دعائیں ہر وقت زبان پر رہنی چاہیے ہیں ۔ (صحیح بخاری)
٭ صبح سے مراد فجر کے بعد اور شام سے مراد عصر یا مغرب کے بعد کا وقت ہے ۔
نوٹ : خواتین ما ہواری کے أیام میں اذکار مسنونہ کا خاص اہتمام کریں وہ صرف نماز نہیں پڑ ھ سکتیں باقی ہر ذکر واذکار کرنا بہت ضروری ہے چونکہ جسمانی اور ایمانی کمزوری ان دنوں میں زیادہ ہوتی ہے اگر اذکار مسنونہ ترک کریں گی شیطان کا تسلط زیادہ ہو گا لہذا ان دنوں میں زیادہ سے زیادہ اللہ کی فرمانبرداری کی کوشش کریں ۔ واللہ الموفق
٭ کسی مریض کو دم کرنا جائز ہے اور یہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت بھی ہے لیکن اس کی عادت ڈالنا کہ ہمیشہ کسی کے محتاج ہوکر دوسروں سے ہی دعا کراتے رہنا اور خود دعا نہ کرنا اور خود کو کمزور سمجھنا کہ ہم گناہ گار ہیں اللہ ہماری نہیں سنے گا ، ایسا درست نہیں ہے بلکہ شریعت کا حکم ہے کہ خود کتاب وسنت کے عالم بنو اور کتاب وسنت پر عامل بنو۔
اللہ رب العالمین فرماتا ہے :﴿أُجِیبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ﴾(البقرۃ:۱۸۲)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں دعا کرنے والے کی دعا کا جوا ب دیتا ہوں پس انہیں چاہیے کہ وہ مجھ سے ہی طلب کریں (مانگیں ) اور مجھ پر ایمان لائیں اسی میں ان کیلئے بھلائی ہے ۔
٭عالم الغیب والشھادۃ ، خالق ومالک کے دروازے پر ہمیشہ دستک دیں ، اور توکل ، بھروسنہ اور یقین صرف اسی پر کریں ۔
٭ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو ہمارے لئے بطور امتحان دشمن بنایا ہے ا سکے اپنے اختیارات بہت محدود ہیں ۔شیطان صرف وسواس کے ذریعے ڈراتا دھمکاتا ہے جیسے دودھ ابلنے لگے ، اگر ہم ڈر کر بھاگیں گے تو کتنا نقصان ہو گا ؟ اور گندگی بھی ہو گی اور اگر آگے بڑ ھ کر آگ بجھا دیں تو کتنا فائدہ ہو گا؟
٭ شیطان کتے کی طرح ہے آپ اگر پتھر اٹھائیں گے کہ میں اس کتے کو مار بھگاؤں لیکن جیسے آپ اس پر پتھر پھینکیں گے وہ پہلے سے بھی زور دار حملہ کرے گا ،۔ اور جب آپ اس کے مالک سے کہیں گے تو وہ اس کتے کو اشارہ کرے گا اور وہ کتا آپ کو چھوڑ کر اپنے مالک کے پاس جا کر دُم ہلانے لگے گا بعینہ شیطان کو بھی اس کا مالک (یعنی اللہ) ہی قابو کرسکتا ہے ۔ اسی لئے اسی سے مدد مانگنی چاہیے ۔
٭ مریض خود پڑ ھ سکتا ہے تو اسے سورۃ الفاتحہ ترجمہ کے ساتھ یاد کرائیں تاکہ سمجھ کر پڑ ھے اور اللہ تعالیٰ پر یقین کرے اور دیگر اذکارِ مسنونہ بھی۔
٭ اگر مریض نہیں پڑ ھ سکتا تو اس کا کوئی قریبی رشتہ دار یا دوست وضوء کر لے اور دو رکعت نماز ادا کرے ، خشوع وخضوع کے ساتھ پڑ ھے ، اللہ تعالیٰ سے خصوصی مدد مانگے ۔
٭ اور اگر خطرہ محسوس ہو کہ مریض لڑ ے گا یا بھاگے گا تو اس کے ہاتھ پیر باندھ دے ۔
٭ مریض اگر مرد ہو یا محرم ہوتو اس کے سر پر یا درد کی جگہ پر ہاتھ رکھ لے اور اگر نا محرم ہوتو مکمل پردہ ہو اور محرم کو ساتھ ضرور بٹھائے اور نامحرم کو ہاتھ نہ لگائے ۔
٭ اگر سورتیں زبانی یاد ہوں تو زبانی پڑ ھ لے ، بلند آواز سے پڑ ھے ، زبانی پڑ ھنے کیلئے مندرجہ ذیل سورتیں کافی ہیں اور بار بار (تکرار) سے پڑ ھتا رہے : سورۃ الفاتحہ، آیۃ الکرسی اور چاروں قل وغیرہ۔
٭ اگر چاہے تو قرآن پاک دیکھ کر بھی پڑ ھ سکتا ہے ، پورے قرآن کو اللہ تعالیٰ نے شفا قرار دیا ہے ۔
٭ کسی خاص سورت کو خاص تعداد کے ساتھ مقرر کرنے کی ضرورت نہیں ہے جب تک کسی صحیح حدیث سے ثابت نہ ہو۔
٭ یہ پابندی نہیں ہے کہ ایک ہی شخص پڑ ھتا رہے ، ضرورت پڑ نے پر کوئی دوسرا بھی پڑ ھ سکتا ہے ، مثلاً : والد صاحب ، والدہ صاحبہ ، بھائی، بہن، بیٹا ، خاوند ، بیوی ، بیٹی ، باری باری پڑ ھ سکتے ہیں ۔
٭ضرورت پڑ نے پر ڈنڈا مارکے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن صرف پاؤں کے تلوے پر یا رانوں پر یا جہاں گوشت ہو، یا ہاتھ کی چھوٹی انگلی (چھنگلی) کو پکڑ کر الٹی طرف ہلکا ہلکا دبایا جائے تاکہ قرآن پاک کے ذریعے خبیث روح کو ذہنی اور جسمانی دونوں طرح تکلیف ہو ، مزید ضرورت پڑ نے پر بیری کے سات تازہ پتے لیکر دھو کر پیس لیں ، بالکل باریک کر کے اور پانی میں حل کر کے پلائیں اور اسی پانی سے پورا جسم تر کریں ، زیتون کا تیل بھی پورے جسم پر ملیں ، جب تک اللہ شفا نہ دے یہ عمل دہراتے رہیں ۔
٭ شہد ، کلونجی، انجیر ، زیتون، زیتون کا تیل اور کھجور وغیرہ بھی کھانے کے استعمال میں رکھیں ۔
٭ علمائے کرام سے رجوع ضرور کریں تاکہ ان سے دینی مسائل پوچھیں ، عقیدہ وعمل کتاب وسنت کی روشنی میں ان سے سیکھیں ، ان سے دینی علم حاصل کریں ، لیکن صرف اس کام کیلئے علماء کو ڈھونڈنا اور عاملوں کو تلاش شروع کرنا یہ (توکل علی اللہ) اللہ پر بھروسہ کے منافی ہے ۔
٭ صرف علماء کو ہی اس کام کا کرنے والا یعنی دم کرنے والا سمجھنا اور خود برائیوں سے نہ بچنا صحیح نہیں ہے ۔ ایسے آدمی کی مثال ایسی ہے کہ صابن سے اپنا جسم صاف کرتا ہے اور گندگی پر بیٹھا رہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں صابن سے اپنا جسم صاف کر رہا ہوں لیکن گندگی سے نہیں بچتا اور جب جسم صاف نہیں ہوتا تو کہتا ہے کہ یہ صابن صحیح نہیں دوسرا صابن استعمال کرتا ہوں ۔
جب تک شرک، فال نکلوانا، نجومیوں کے پاس جانا ، تعویذ باندھنا وغیرہ جیسی گندگیوں سے نہیں بچے گا اور اپنے فرائض کو ان کے وقت پر ادا نہیں کرے گا تو چاہے ساری دنیا کے عالموں کے پاس چلاجائے اور دم کرواتا رہے کچھ فائدہ نہیں ہو گا۔
٭ دنیا میں انسان کو اللہ نے آزمائش کیلئے بھیجا ہے ، جیسا کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
﴿وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِینَ ﴾(البقرۃ:۱۵۵)
کہ اللہ تعالیٰ انسان کو آزماتا ہے ڈر اور خوف سے ، بھوک کی شدت سے ، مال کے نقصان سے ، جان کے نقصان سے اور پھلوں کے نقصان سے (اور اس پر جو صبر کرتا ہے اس کیلئے فرمایا) کہ صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنادیجئیے ۔
ان مصائب پر صبر کرنے سے اللہ خوش بھی ہوتا ہے اور جنت میں درجات بھی بلند ہوتے ہیں ۔
صحیح مسلم میں ایک عورت کا واقعہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے دعا کی درخواست کی کہ دعا کریں کہ میری بیماری ختم ہوجائے تو فرمایا صبر کرو گی تو جنت ملے گی۔
حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں ایسے درجات ہیں کہ نیک عمل کر کے ان درجات کا حصول ناممکن ہے بلکہ تکلیفوں اور بیماریوں پر صبر کرنے سے اللہ تعالیٰ وہ درجات عنایت فرماتا ہے ۔
یادرکھئیے ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ ﴾ (الذاریات:۵۶)
کہ میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے ۔
یہ نہیں کہا کہ روٹی ، کپڑ ا ، مکان کیلئے پیدا کیا ہے ۔ یا یہ نہیں کہا :لَیَأکُلُونَ وَیَتَمَتَّعُونَ کہ بس کھائیں اور عیاشی کریں ۔
یہ سمجھ لیں کہ لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ کا معنی یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے علاہ کسی کی نہیں مانتا اور نہ ہی مانوں گا اور وہی مانوں گا جو اللہ نے محمد رسول اللہ ﷺ کے ذریعے بتایا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ ﷺ کو رسول بنایا ہے لہذا اللہ کی جو بات مجھے صرف رسول اللہ ﷺ نے بتائی ہے میں صرف اسے مانوں گا لہذا قرآن مجید پڑ ھنے ، سمجھنے اور عمل کرنے کیلئے صحیح احادیث کا سہارا ضروری ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ ہر خطبہ میں ارشاد فرمایا کرتے تھے ۔
فإن خیر الحدیث کتاب اللہ وخیر الہدی ہدی محمد صلی اللہ علیہ وسلم وشر الأمور محدثاتہا۔ ۔ ۔
یعنی قرآن مجید پڑ ھنے اور سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کیلئے صرف محمد رسول اللہ ﷺ کا طریقہ ہے وگرنہ دین کے اندر سب سے گندے کام وہ ہیں جو لوگوں نے خود گڑ ھ گڑ ھ کے دین میں ڈالے ہیں ۔
اللہم أرنا الحق حقًا وارزقنا اتباعہ وأرنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ۔
اے اللہ! ہمیں حق کو حق ثابت کر کے دکھا دے اور اس پر چلنے کی توفیق عنایت فرما اور باطل کو باطل کر کے دکھا دے اور ہمیں اس سے بچنے کی توفیق عطا فرما۔
رَبَّنَا آَتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الْآَخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ٭ اللہم اشفنا واشف مرضانا ومرضی المسلمین ۔
وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین وصلی اللہ وسلم علی خیر خلقہ محمد وآلہ وصحبہ أجمعین۔
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟