Thursday, August 13, 2009

دل کی آواز

از فضیلۃ الشیخ بشیر احمد

زندہ اور صاحب بصیرت قومیں اپنے مستقبل کی ترقی وبقا کی خاطر نئی نسل کو حالات کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑ تیں بلکہ ان کے ذہنی ارتقا اور دماغی نشو ونما کیلئے نظام تعلیم اور تعلیمی اداروں کو خوب سے خوب تر بنا کر نئی نسل کی مسلسل راہنمائی کرتی ہیں ۔ تاکہ وہ ترقی کی منازل سے طے کرسکیں ۔ ہر قوم کا نظام تعلیم اس کے نظریہ ، حیات ، امنگوں ، ارادوں اور تہذیبی محاسن کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔اس لئے ہر زندہ قوم اپنے تشخص اور ملی وجود کو برقرار رکھنے کیلئے اپنا نظام تعلیم اس طرح مرتب کرتی ہے کہ اس میں انقلابی رنگ نمایاں نظر آئے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دینی مدارس ہی ملت اسلامیہ کے وہ مضبوط قلعے ہیں جن میں بیٹھ کر کفر والحاد کی تحریکوں کا مقابلہ کیا جاتا رہا ہے اور انہی کے سائے میں روحانیت کی آبیاری ، اذہان کی تطہیر ، کردار کی تعمیر اور نفوس کا تذکیہ ہوتا رہا ہے ۔ اور ایسے افراد کی تعمیر ہوتی رہی ہے جو دین حنیف کی سربلندی اور فتنوں کی سرکوبی کیلئے ہر میدان میں ہمہ وقت مصروف عمل رہے ہیں ۔

ہمارے اسلاف میں مدارس سے فارغ التحصیل ہوتے وقت علمی جامعیت اور شخصی وقار کی خوبیاں بہت نمایاں ہوا کرتی تھیں وہ علوم وفنون کے کسی بھی شعبے میں کسی سے پیچھے نہیں رہتے تھے وہ قاضی ، مفتی ، خطیب اور مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ سرکاری اور انتظامی عہدوں پر کام کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے تھے مگر ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ آج ہمارے طلباء کا یہ معیار باقی نہیں رہا۔
آج اکثر فارغ التحصیل فضلاء عصری مشکلات کا حل پیش کرنے سے قاصر ہیں دور حاضر کے سیاسی ، اقتصادی اور سماجی مسائل سے عدم واقفیت کی وجہ سے ہمارے فضلاء قومی قیادت اور ملّی رہنمائی سے پیچھے ہٹ رہے ہیں ۔ اور خدمت وعمل کا میدان غیر اسلامی فکر وذہن رکھنے والے لوگوں کیلئے خالی چھوڑ تے جا رہے ہیں ۔
جس مقدار میں مدارس ، کتب ، معلم ومتعلم اور اسباب وذرائع آج مہیا ہیں اس سے پہلے اتنی بڑ ی تعداد میں نہیں تھے لیکن اس کے باوجود ہر میدان میں قحط الرجال کا سماں ہے آخر اس کی کیا وجہ ہے ؟
میرے خیال میں اس کے متعدد اسباب میں سے سب سے بڑ ا سبب نصاب تعلیم ، طریقۂ تعلیم اور عملی تربیت کا فقدان ہے جسکا نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ تقریباً ابتداء تا انتہاء تمام جماعتوں میں عربی گرائمر اور ادب پڑ ھا یا جاتا ہے اور طلبانے تمام قواعد وأمثلہ کو حفظ کیا ہوتا ہے لیکن عملی میدان میں عربی زبان میں ایک صفحہ کا مضمون لکھنے یا بولنے سے اکثر قاصر ہوتے ہیں یہی حال اصول فقہ ، اصول حدیث اور دیگر فنون کا ہے ان کے عملی استعمال سے طلباء ناواقف ہوتے ہیں ۔
سب سے بڑ ا المیہ یہ ہے کہ فارغ التحصیل فضلاء کو بغیر تربیت وتجربہ کے عملی میدان میں داخل کر دیا جاتا ہے وہاں بھی وہ بغیر کسی رہنما کے خود ہی تجربات کے میدان عبور کرتے رہتے ہیں آخر کار زندگی کا طویل حصہ طے کرنے کے بعد اور قوم کے بہت سارے افراد اور مال ضائع کرنے کے بعد بمشکل ایسے مقام پر پہنچتے ہیں کہ عملی میدان کا آغاز کرسکیں ۔
علماء کرام کے سامنے تین عملی میدان ہوتے ہیں : تبلیغ ، تصنیف اور تدریس ۔ جب فارغ التحصیل فاضل کو ان تینوں میں سے کسی میدان کی مکمل تربیت اور رہنمائی نہ دی گئی ہوتو وہ کس طرح کامیاب زندگی کی ابتداء کرسکتا ہے ۔
ڈاکٹری کا اعلیٰ ڈپلومہ حاصل کرنے والا ڈاکٹر اس وقت تک کسی مریض کو چیک کرنے کا حقوق نہیں رکھتا جب تک اس نے کسی ہسپتال میں عملی تجربہ نہ کیا ہو۔
میں عرصہ دراز سے اس سوچ میں رہا کہ موجودہ قحط الرجال کا مداوا کیا ہو سکتا ہے ؟ اور رجال العصر کس طرح تیار کیے جا سکتے ہیں ؟
اس حال کیلئے ایک کرن نظر آتی تھی لیکن بے سروسامانی اور کم ہمتی کی وجہ سے کوئی قدم نہ اٹھا سکا اپنے دل کی آواز کو الفاظ کی زبان سے بیان کرنا چاہتا ہوں کہ شاید کوئی دین محمد ﷺ کا درد رکھنے والا اور بلند حوصلہ آدمی اس کو عملی جامہ پہنا سکے ۔
وہ یہ کہ اولاً ملکی سطح پر پھر صوبائی سطح پر تعمیر انسانیت کا ایسا ادارہ قائم کیا جائے جس میں مدارس کے ایسے فارغ التحصیل طلبائے کرام کو کورس کرایا جائے جودینی وعصری دونوں تعلیموں سے آراستہ ہوں اور اس میدان میں مزید نکھار پیدا کرنے کے خواہشمند ہوں انہیں پہلے سال میں علوم اسلامیہ کے پڑ ھے ہوئے فنون میں مہارت تامہ کے ساتھ عملی میدان سے گزارا جائے اور دوسرے سال میں طلباء کی صلاحیت اور ذوق کے مطابق تدریس ، تبلیغ اور تصنیف کی الگ الگ جماعت بندی کی جائیں اور ہر میدان کے اصول وضوابط ماہر اساتذہ کرام کے ذریعہ مکمل کرائے جائیں اور آخری مکمل سال طلباء کرام کو عملی میدان سے اس طرح گزارا جائے کہ مشکل سے مشکل مرحلہ کو بھی باآسانی عبور کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجائے ۔ مثلاً
مبلغین کو ادارہ کے علاوہ مختلف مساجد، علمی مجالس، عوامی جلسوں اور کانفرنسوں میں شریک کیا جائے اور اساتذہ کی نگرانی میں انتہائی علمی اور مدلل انداز میں بیان کرایا جائے اور روزانہ انٹرنیٹ پر دروس کرائے جائیں ۔ اس طرح طلباء کی تربیت اور عالمی سطح پر تبلیغ دونوں کے مفید نتائج پر آمد ہونگے ۔ اور شعبہ تدریس کو تدریس کے جدید اسلوب کی عملی مشق کرائی جائے ۔ اور مختلف مدارس، سکولوں اور کالجوں میں اساتذہ کی زیرنگرانی اسباق پڑ ھانے کے مواقع دئیے جائیں اور اساتذہ مکمل رہنمائی کرتے رہیں ۔
اور اس طرح شعبہ تصنیف کے طلباء کرام کو مختلف عنوانات پر مضامین لکھنے ، عربی کتب کے تراجم اور تخریج وتحقیق کی مشق کرائی جائے الغرض تینوں شعبہ جات کے طلبائے کرام کو اس قدر پختہ کیا جائے کہ فی البدیہہ کسی بھی موضوع پر بہترین تقریر وتصنیف کی لیاقت رکھتے ہوں ۔اگر ہر سال ہر شعبہ کے دس افراد بھی تیار ہوجائیں تو چند سالوں میں قحط الرجال میں کافی قلت آ سکتی ہے ۔ایسے افراد کی تیاری کیلئے ضروری ہے کہ کسی بڑ ے شہر کے اچھے ماحول میں ، جدید سہولیات سے آراستہ عمارت کا انتظام کیا جائے طلباء کے بہترین قیام وطعام کے ساتھ اچھا وظیفہ مقرر کیا جائے اور دینی وعصری تعلیم سے آراستہ انتہائی محنتی وماہر اساتذہ کرام کا انتخاب کیا جائے اور گاہے بگاہے جیّد علمائے کرام ، قائدین پروفیسرز، ایڈیٹرز اور سکالر حضرات کے علمی پروگرام کرائے جائیں ۔
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟