Thursday, August 13, 2009

عزت غیرتِ ایمانی سے ملتی ہے

از حمزہ طارق برکی

الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعین .
قال اللہ تعالیٰ : ﴿وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ ﴾ (الأنعام :۱۵۱)
وقال صلی اللہ علیہ وسلم : إِنَّ مِمَّا أَدرَکَ النَّاسُ مِن کَلاَمِ النُّبُوَّۃِ الأُولَی إِذَا لَم تَستَحی فَاصنَع مَا شِئتَ (رواہ البخاری فی کتاب الأدب )
مسلمان کے پاس سب سے بڑ ا زیور اس کی زندگی کا سب سے بڑ ا سرمایہ اس کی غیرت ایمانی ہے ، اور اسلام نے اس کے مٹ جانے کو اور اس کے ختم ہوجانے پر انسان کو پھر گناہ سے نہیں روکا بلکہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :
إِذَا لَم تَستَحی فَاصنَع مَا شِئتَ کہ جب تیرے اندر سے شرم وحیا کا جنازہ نکل گیا تو اب جو دل میں آئے کر اب تجھے کھلی چھٹی ہے ، اب تجھ سے ایک ہی دن سوال ہو گا ، ایک ہی دن حساب وکتاب ہو گا ، دنیا میں اب تجھے جو کرنا ہے کرگزر۔

اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ گناہ اور معاصی سے روکنے والی جو چیز ہے وہ غیرت ہے ۔ آج ہمارے معاشرے میں بے حیائی پھیل چکی دشمنوں نے جو بیج ہمارے درمیان بونا تھا اس میں وہ کامیاب ہو چکے ہیں ، آج ہمارے درمیان جو تعصب کی لہر دوڑ ی ہے اس نے ہمارے اندر نسبی غیرت ، لسانی غیرت ، اور علاقائی غیرت کو ابھارا ہے ، ہمیں یہ مذمتی غیرت کرنے سے اچھا اپنی دینی غیرت کو ابھاریں جو ہمارے دین کی خاص صفت ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : ہر دین کی ایک صفت ہوتی ہے جو اس میں عمدہ ہوتی ہے اور وہ حیا ہے ۔ (مؤطا امام مالک)
غیرت کا ایک حیرت انگیز واقعہ
قارئین کرام! غازی علم الدین شہید رحمہ اللہ ایک غریب آدمی کے بیٹے تھے ، شرافت انہیں وراثت میں ملی تھی پیشہ ان کا نجار تھا۔ ایک دن حسب معمول علم الدین اپنے گھر واپس لوٹ رہے تھے غروب آفتاب کے وقت ، تو دلّی دروازہ جو بھارت (India) کے شہر دلّی (Delhi) میں واقع ہے ، کیونکہ یہ واقعہ پاکستان کے آزاد ہونے سے پہلے کا ہے اسی لئے تفصیلاً بیان کر رہا ہوں ، علم الدین جب وہاں سے گزرے تو لوگوں کا ہجوم دیکھا تو رک گئے ، ایک جوان تقریر کر رہا تھا، کچھ دیر سنتے رہے ، لیکن کچھ خاص سمجھ میں نہیں آ رہی تھی ، کیونکہ تقریر اردو زبان میں تھی ، اور وہ خودپنجانی زبان سمجھتے تھے ، اردو سے ان کا زیادہ پالا نہیں پڑ ا تھا۔انہوں نے لوگوں سے دریافت کیا ، تو انہوں نے بتایا کہ ایک راج پال نامی ہندو نے کتاب لکھی ہے جس میں نبی مکرم ﷺ کی توہین کی گئی ہے ، اسی لئے اس کے خلاف جلسے جلوس ہورہے ہیں ، اس کے بعد پنجابی زبان میں مقرر حاضر ہوا جس نے پنجابی میں تقریر کی ، اور انہوں نے تقریر میں راج پال نامی اس خبیث کو واجب القتل قرار دیتے ہوئے کہا : اس کو قتل کر دو اور نبی ا کرم ﷺ کی شان میں گستاخی کی سزا دو ، کہا اپنی جان قربان کر دو ، اور اس خبیث کو اس کے انجام تک پہنچا دو ، وہ بہت کچھ کہتے رہے ، لیکن علم الدین کے کانوں سے ایک ہی آواز ٹکراتی رہی کہ اس کو قتل کر دو ، اور نبی ﷺکی شان میں گستاخی کی سزا دو ، اس جوان کی تقریر نے ان کے دل ودماغ پر ایسا اثر کیا ، کہ ہلچل مچ گئی وہ گھر پہنچتے خیالوں میں کھو گئے ، ان کے گھر والوں نے دیر سے آنے کی وجہ دریافت کی تو کچھ اور ہی کہہ دیا۔
اب علم الدین کی غیرت ایمانی کاتقاضہ دیکھئے کہ وہ اور کچھ سوچتے ہی نہیں ، سوائے اس کے میں اس راج پال کو کس طرح قتل کروں ، اور وہ مجھے کہاں ملے گا ، قریب ہی انار کلی ہسپتال کے پاس ایک پبلکیشن ہاؤس تھا ، اس میں راج پال کا دفتر تھا ، جہاں وہ بیٹھتا تھا ، پاس ہی ایک لکڑ ی کا ٹال تھا ، اس کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا کھوکھا تھا۔ علم الدین وہاں پہنچے اور ایک آدمی سے راج پال کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ وہ ابھی تک نہیں آیا ہے علم الدین نے پوچھا وہ کب آئے گا؟ تو اس نے لاعلمی کا اظہار کیا ، وہ ابھی باتوں ہی میں مصروف تھے کہ ایک گاڑ ی رکی اس میں سے راج پال نکلا ، تو اس آدمی نے علم الدین کو بتایا کہ یہ راج پال ہے ۔ علم الدین کی آنکھوں میں تو خون اتر آیا ، اس کی غیرت کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے آپ کو قابو نہ کرسکا ، اور سیدھا اس کے دفتر کا رخ کیا، اور اب علم الدین کی قوت سماعت سے صرف ایک ہی آواز ٹکرا رہی تھی کہ دیر نہ کرو، اسے قتل کرو ، یہ تمہارا کام ہے ۔ جو نہی علم الدین دفتر میں داخل ہوا راج پال اپنی کرسی پر بیٹھا تھا ، علم الدین سیدھا اس کی طرف آ رہا تھا ۔ راج پال کے سامنے ایک میز (Table) پڑ ی ہوئی تھی ، علم الدین نے پلک چھپکتے ہی چھری نکالی ، اور ان کے ہاتھ نظر ٹِکنے کے مقام پر ضرب لگانے کے مشتاق تھے ہاتھ فضا میں اٹھا اور پھر راج پال کے سینے میں جا لگا ، ایک ہی وار اتنا کارگرد ثابت ہوا کہ راج پال کہ منہ سے صرف ہائے کی آواز نکلی اور خبیث جہنم واصل ہو گیا۔ یہاں دفتر میں موجود آدمیوں نے علم الدین کو پکڑ لیا ، پولیس بھی آ گئی ، اب مقدمے عدالت تک پہنچ گئے ، لیکن غیرت کا عالم دیکھئے کہ چیخ چیخ کے کہہ رہے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کا بدلہ لے لیا ۔
اب عدالت میں بڑ ے بڑ ے مقدمے چلے ان کے خلاف کافی عرصہ تک یہ مقدمات چلتے رہے ، اور پھر لا ہور رجسٹرا رہائی کورٹ نے پھانسی کی سزا سنا دی اور اسی طر ح یہ غیرت کا پیکر ، یہ غیرت کی خاطر جان لینے والے اور جان دینے والے نے جام شہادت نوش کیا۔ إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ
قارئین کرام! دیکھئے ذرا غور فرمائیے ان کی غیرت کا یہ منظر دیکھئے کہ موت تو قبول ہے ، لیکن بے غیرتی اور اپنے دین پر کوئی آنچ انہیں قبول نہیں ۔
دوستی اور دشمنی کا معیار
قارئین کرام ! ہماری غیرتوں کا یہ تقاضہ ہونا چاہیے کہ ہم کفار اور مشرکین کے ساتھ عداوت اور بغض کی ہر حد پار کر دیں ، نہ کہ ان کی دوستی اور محبت پہ آسرے لگائیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آَمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّی وَعَدُوَّکُمْ أَوْلِیَاءَ﴾ (الممتحنۃ : ۱)
اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔
قارئین کرام! کچھ مہینے پہلے کی بات ہے ۔ تقریباً اپریل کے مہینے میں میرا اپنے آبائی شہر جانے کا اتفاق ہوا وہاں میں نے کچھ لڑ کیوں اور لڑ کوں کو یہ کہتے ہوا سنا کہ میں اس فلاں اداکار کی طرح ہوں اور میں اس فلاں کی طرح ہوں ۔ یہ کلام سن کر میں بہت حیرت زدہ ہوا کہ ایک مسلمان کی غیرت کا یہ تقاضا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایک ہندو سے تشبیہ دے رہا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿إِنَّ الْکَافِرِینَ کَانُوا لَکُمْ عَدُوًّا مُبِینًا ﴾ ( النساء : ۱۵۱)کافر تو تمہارے کھلے دشمن ہیں ۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :﴿لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِلَّذِینَ آَمَنُوا الْیَہُودَ وَالَّذِینَ أَشْرَکُوا﴾ ( المائدۃ : ۸۲)
مسلمانوں سے دشمنی کرنے میں یہودیوں اور مشرکوں کو باقی سارے لوگوں کے مقابلہ میں سخت پاؤگے ۔
اور اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: الرَّجُلُ عَلَی دِینِ خَلِیلِہِ فَلیَنظُر اَحَدُکُم مَن یُّخَالِل (رواہ الترمذی فی کتاب الزہد ، وحدیث حسن)
آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے ، لہذا ہر آدمی کو سوچنا چاہیے کہ وہ کسے اپنا دوست بنا رہا ہے ۔
لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم ان کفار اور مشرکین سے عداوت کی ہر حد پار کر دیں ، نہ کہ ان کی طرح بنیں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔
أُولَئِکَ کَالْأَنْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ - الأعراف:۱۷۹
یہ کفار تو جانوروں جیسے بلکہ ان سے بھی گئے گزرے ہیں ۔
لہذا آج ہمیں اس غفلت کی نیند سے جاگنے کی ضرورت ہے ، اپنے دشمنوں اور دوستوں میں فرق کرنے کی ضرورت ہے ۔ اور جو یہ کفار اور مشرکین ہمارے درمیان نفرت ، تعصب ، بے شرمی وبے حیائی کا بیج بوچکے ہیں اسے ختم کیا جائے ، اور پھر سے مسلمان بنیانٌ مرصوص کی طرح کفار پر غالب آ کر ان کا صفایا کر دے ۔
اے مسلمانوں جاگو
قارئین کرام! آج ہمارے وطن عزیز پر جو مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں ۔ اُس سے کوئی بھی لاعلم نہیں ، آج ہمیں بے حد مشکلات کا سامنا ہے ۔ ذرا سوچئے ! یہ کیوں ہورہا ہے ؟ ان منافقین اور کفار نے جو عصبیت ہمارے درمیان پھیلائی ہے ، جو اُخوت، اور پیار اور محبت ہمارے درمیان تھی اس کو تباہ وبرباد کر دیا ہے ، کیونکہ ان کفار مشرکین اور ہندؤون سے مسلمانوں کی محبت اور آپس میں اخوت اور رواداری کے جذبات برداشت نہیں ہوتے ، اسی لیے مسلمانوں کے مابین انتشار برپا کرنے پر تلے ہوئے ہیں ، یہ وہ شیاطین ہیں جن کا نہ کوئی دین ہے اور نہ کوئی مذہب یہ کبھی عبد اللہ بن اُبی منافق کی شکل میں آتے ہیں تو کبھی یہود ونصاری کی شکل میں ، اور ہم سمجھے بغیر ان اشرار الناس کی باتوں پر کان دھرتے ہیں اور ان کے کلام پر یقین کرتے ہوئے دست و گریباں ہوجاتے ہیں اور ان کے فریب میں آ کر اسلامی روایات کو پس پشت ڈال کر حسب ونسب، عصبیت وجاہلیت کے گرویدے بن جاتے ہیں اور اپنے آباؤ اجداد پر فخر اور اپنے نفس نفیس کو افضل ، ا کرم وبرتر تصور کرتے ہوئے زمین پر متکبرانہ چال چلتے ہیں اور دوسروں کو ذلیل ، حقیر ، کمزور اور کمتر جانتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَلَا تَمْشِ فِی الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْأَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولًا ﴾ (بنی اسرائیل :۳۷)
اور تو زمین پر متکبرانہ چال نہ چل تو زمین کو ہرگز پھاڑ نہیں سکتا اور نہ ہی پہاڑ وں کی طوالت کو پہنچ سکتا ہے ۔
اور انسان یہ کیوں بھول جاتا ہے کہ اس کی پیدائش ایک ہی طریق اور ایک ہی قطرے سے ہوئی ہے ۔ارشاد ربانی ہے :
﴿فَلْیَنْظُرِ الْإِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ ٭ خُلِقَ مِنْ مَاءٍ دَافِقٍ ٭یَخْرُجُ مِنْ بَیْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَائِبِ ﴾ (الطارق:۵تا۷)
انسان غور کر لے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے ؟ وہ پیدا کیا گیا ہے اچھلتے ہوئے پانی سے جو نکلتا ہے ریڑ ھ اور پسلیوں کے بیچ سے ۔
مگر انسان پھر بھی عقل کے ناخن نہیں لیتا اور تمام حدود کو پامال کرجاتا ہے ۔
قارئین کرام! ذرا غور کیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا میں کیوں بھیجا؟ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ :﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ﴾ (الذاریات:۵۶)
ہم نے جن وانس کو فقط اپنی عبادت کیلئے تخلیق کیا ہے ۔
اب ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عبادت کیا ہے ؟ عبادت تو یہ ہے کہ :اسم جامع لکل ما یحبہ اللہ ویرضاہ من الأقوال والأفعال الظاہرۃ والباطنۃ۔
یہ ایک ایسا جامع اسم ہے کہ انسان کے تمام اقوال وافعال ، ظاہری اور پوشیدہ جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا ذریعہ بنے وہ عبادت ہے ۔
جب کہ اس کے برعکس آج کے نام نہاد مسلمان عصبیت کی لوگوں کو دعوت دیتا ہے اور قتال پر آمادہ کرتا ہے ، اور عصبیت کی خاطر غصے میں آ جاتا ہے ، جوکہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے ۔جیسے نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : لیس منا من دعا إلی عصبیۃ ولیس منا من قاتل علی عصبیۃ، ولیس من من غضب لعصبیۃ۔ (مسلم)
جس نے عصبیت کی طرف بلایا وہ ہم میں سے نہیں اور جو عصبیت پہ لڑ ا وہ ہم میں سے نہیں ، اور جو عصبیت کی وجہ سے غصے ہوا وہ ہم میں سے نہیں ۔
قارئین کرام! تقویٰ ، پرہیز گاری ، خدا ترسی ، صبر واستقامت جیسی اعلیٰ صفات اپنے اندر پیدا کیجئے ، اور عصبیت جاہلیت ، فخر ، تکبر جیسی مذموم صفات وعادات سے اپنے آپ کو پاک رکھئیے ، اس میں دین اور دنیا کی بھلائی ہے ، جن مصائب ومشاکل کا ہمیں سامنا ہے یہ ہمارے اعمال اور آپس میں تفارق کی بنا پر ہے ، یہ وطن عزیز جو کلمہ طیبہ کے نام پر آزاد کروایا تھا ، اور جسے مسلمانوں کی ریاست تسلیم کیا گیا تھا آج یہ پنجابی ، سندھی، بلوچی، پٹھان، مہاجر، سرائیکی اوردوسری قوموں کی ریاست بن گیا ہے ، نہ کے مسلمانوں کی۔
یوں تو سید بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کا شغر
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام اہل اسلام کو ایک بنیان مرصوص کی مانند بنادے تاکہ ان کی صفوں کو کوئی کاٹ نہ پائے ، اور ان کے دل آپس میں الفت ومحبت کی ایک عظیم مثال پیش کر لے ۔ آمین
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟