Thursday, August 13, 2009

شعبان المعظم اور ہمارا طرزِ عمل

از الشیخ حبیب الرحمٰن

اسلام دین فطرت ہے ، فطرت یا فطری چیزوں میں تغیر یا انکی زبوں حالی اگرچہ کسی مصلحت یزداں کے تحت کچھ عرصہ تک ممکن ہے مگر اس کو دوام کسی صورت ممکن نہیں ۔ کچھ یہی کیفیت موجودہ گردشِ دوراں میں اسلام اورمسلمانوں کو درپیش ہے ۔ موجودہ دور میں مسلمانوں کی زبوں حالی اور ذلت ورسوائی کی بڑ ی وجہ یہ ہے کہ وہ توحید کے تقاضوں سے دور اور شرک وبدعت کے شکنجے میں گرفتار ہیں ۔ شرک وبدعت پر نکیر ایک اہم فریضہ ہے جس کا ادا کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے اس سے گریز دینی نقطۂ نگاہ سے بہت بڑ ا جرم ہے جبکہ ہماری بدبختی ہی یہی ہے کہ ہمارے معاشرے میں بدعات نے حسنات کا ایسا لبادہ اوڑ ھ لیا ہے کہ ان سے انحراف یا ان پر قدغن ناقابل معافی جرم گردانا جاتا ہے ۔ہمارے معمولات کچھ اس طرح بدعات و خرافات سے مزین ہو چکے ہیں عام آدمی اُسے دین کا لازمی جزوہی تصور کرتا ہے ۔ ان بدعات ولغویات کی لمبی لسٹ میں چند بدعات شعبان معظم کے مہینے میں بھی مروج ہو چکی ہیں جن کی طرف قارئین کرام کی توجہ مبذول کروانا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان شرکیہ بدعات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
۱۔شعبان کی پندرھویں رات کو مردوں کی روحوں کے آنے کا عقیدہ رکھنا
بعض دین سے نابلد لوگوں کا یہ نظریہ ہے کہ شعبان کی پندرھویں رات کو فوت شدہ حضرات و خواتین کی روحیں زمین پر اترتی ہیں اور اپنی پسندیدہ چیزیں بھی تناول فرماتی ہیں جبکہ یہ عقیدہ سراسر قرآن وسنت کے منافی اور رب کائنات کے قوانین میں مداخلت کے مترادف ہے ۔ رب کریم کا ارشاد ہے ﴿وَمِن وَرَائِہِم بَرزَخٌ إِلَی یَومِ یُبَعَثُونَ ﴾ (المؤمنون:۱۰۰)قیامت کے دن تک ان کے آگے ایک آڑ ہے ۔
اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی روح کا فوت ہونے کے بعد دنیا میں آنا محال ہے اس لیے پندرھویں شعبان کی رات کو مردوں کی روحوں کے واپس آنے کا عقیدہ رکھنا سراسر باطل ہے ۔
۲۔ اس رات کو خصوصی اہتمام کے ساتھ حلوہ تیار کر کے تقسیم کرنا
اس کے علاوہ جو ایک عمل اسی دن سے منسوب ہے وہ یہ ہے کہ خصوصی اہتمام کے ساتھ حلویات اور نذونیاز کا بندوبست کیا جاتا ہے اور اس کے جواز میں جو وجوہات یا دلائل دیے جاتے ہیں وہ نہ صرف قرآن وسنت سے متصادم ہیں بلکہ انتہائی ضعیف عقیدے کا مظہر بھی ہیں ۔
اس کی دلیل میں جو پانچ وجوہات پیش کی جاتی ہیں وہ یہ ہیں :
۱۔ آپ ﷺ کا جنگ احدمیں ایک دانت ٹوٹ گیا تھا جس وجہ سے آپ ﷺ کھانا نہیں کھا سکتے تھے اس لیے آپ ﷺ نے حلوہ تناول فرمایا تھا۔
۲۔ دوسری سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی نیاز سمجھی جاتی ہے ۔
۳۔ یہ اویس قرنی کی نیاز ہے ۔
۴۔ یہ شیعوں کے بارہویں امام غائب کی ولادت کی خوشی میں پکایا جاتا ہے ۔
۵۔ یہ دیکھا دیکھی پکایا جاتا ہے ۔
جبکہ قرآن وسنت میں ان وجوہات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا بلکہ جو نذونیاز غیر اللہ کے نام ہو قرآن نے اسے حرام قراردیا ہے ۔
۳۔ صلوٰۃ الفیہ پڑ ھنا
صلوٰۃ الفیہ یہ بھی شعبان کی ایک ایسی بدعت ہے جس کا خصوصی طور پر اہتمام کیا جاتا ہے بعض مقامات پر اسے باقاعدہ باجماعت ادا کیا جاتا ہے ۔ جس کا طریقہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ سو رکعات نماز اس طرح پڑ ھنا کہ ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد دس دفعہ سورۃ اخلاص پڑ ھی جائے اس طرح سورۃ اخلاص ہزار دفعہ مکمل ہوتی ہے ۔
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب اقتضاء الصراط المستقیم میں اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے اور ملا علی قاری حنفی رحمہ اللہ کی کتاب شرح مشکوۃ کے صفحہ (۷۸) اور نواب قطب الدین صاحب حنفی کی کتاب مظاہر الحق ص (۴۴۹) میں مرقوم ہے شعبان کی پندرھویں شب کو صلاۃ الفیہ جو لوگوں نے ایجاد کر رکھی ہے یہ بالکل بدعت ہے ۔
۴۔ آتش بازی اور مساجد، مکانوں ، دیواروں ، بازاروں پر چراغاں کرنا اور اگر بتیاں جلانا۔
اس طرح کا اہتمام فضول خرچی اور اسراف کے زمرے میں آتا ہے جبکہ اسلام میں اسراف اور فضول خرچی کو باغی اور حدود اللہ سے تجاوز کرنے والوں کی صفت بیان کیا ہے جبکہ مؤمنین کے بارے میں ارشادباری تعالیٰ ہے ﴿وَکُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا ﴾(الأعراف:۳۱) اورکھاؤ پیو اور اسراف نہ کرو ایک اور جگہ پر ارشاد گرامی ہے ﴿اِنَّ المُبَذِّرِینَ کَانُوا إِخوَانِ الشَّیَاطِینِ﴾ (الإسراء :۲۷) فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں ۔
۵۔ اس رات کا قیام اور دن کا روزہ رکھنا
ایک اور عمل جو اس رات میں کثرت سے کیا جاتا ہے وہ ہے قیام اللیل یعنی رات کی عبادت۔ ساری رات نفل عبادت کرنا ذکر واذکار کرنا وغیرہ۔ اگرچہ نفل پڑ ھنا یا ذکر وغیرہ کرنا بدعات تو نہیں مگر جس انداز میں خصوصاً اس رات سے منسوب کرنا اور اس کا اہتمام اور دن کو روزہ رکھنا ضروری اور دین کا حصہ سمجھا جاتا ہے یہ کلی طور پر قرآن وسنت سے انحراف کے مصداق ہے اور اسی ضمن میں ابن ماجہ کی جس روایت سے دلیل پیش کی جاتی ہے وہ سخت ضعیف ہے ۔ (تحفۃ الاحوذی ۲ص/۵۳)
۶۔ اس رات قبر ستان جا کر دعائیں کرنا
ہمارے ہاں اسی رات قبر ستان جا کر کثرت سے دعائیں کرنا ، چراغاں کرنا، مختلف محفلیں منعقد کرنا بھی رائج ہے اور اس کو اجر وثواب کا باعث سمجھا جاتا ہے جبکہ اس کے بارے میں کوئی بھی صحیح حدیث نہیں ملتی۔
۷۔اس رات سورۃ یٰسین پڑ ھنا اور اس کے ایک مبین سے دوسرے مبین کے درمیان دعا کرنا یہ بھی رائج الوقت بدعت ہے ۔
نصف شعبان کی حقیقت
امام ابوبکر بن العربی مالکی رحمہ اللہ نے احکام القرآن میں لکھا ہے کہ نصف شعبان کی رات کے متعلق کوئی حدیث قابل اعتماد نہیں ہے ، نہ اس کی فضیلت کے بارے میں اور نہ اس امر میں کہ اس رات قسمتوں کے فیصلے ہوتے ہیں لہذا اس سلسلہ میں بیان کی جانے والی روایات کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہیے ۔
امام ابن العربی رحمہ اللہ کا اشارہ ان روایات کی طرف ہے جن میں ذکر ہے کہ شعبان کی پندرھویں رات عمروں کا اندراج کیا جاتا ہے ، قسمتوں کے فیصلے ہوتے اور بنوع کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر گناہ معاف کئے جاتے ہیں وغیرہ۔ تو یہ تمام روایات باطل اور بے اصل ہیں ان میں سے کوئی ایک روایت بھی ہرگز ہرگز صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ امتیازی خصوصیت تو لیلۃ القدر کو حاصل ہے کہ اللہ کی شاہی نظم ونسق میں یہی وہ رات ہے جس میں وہ اپنے کے ان تمام فیصلوں کو جو اس نے افراد اور قوموں اور ملکوں کی عمروں اور ان کے رزق کے بارے میں لکھ دیے ہیں ۔ ان میں سے ایک سال کے فیصلے عمل درآمد کیلئے فرشتوں کے سپرد کر دیے جاتے ہیں ۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ شعبان میں خصوصی عبادات وافضلیت کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ، اس کی اہمیت ، عظمت، فضیلت اور اس میں قسمتوں کے فیصلوں کے بارے میں تمام روایات باطل اور بے اصل ہیں اور ان میں سے کوئی ایک روایت بھی صحیح نہیں ہے ۔
لیکن ذرا ٹھہرئیے ! اگر ان روایات کو کھینچ تان کر صحیح تسلیم کربھی لیا جائے تو خدارا بتائیں کہ اس رات کروڑ وں روپے نذرآتش کر دینے کا کیا جواز ہے آتش بازی کا اس رات کی عظمت اور فضیلت سے کیا تعلق ہے ؟ کیا اس رات قسمتوں کے فیصلے فرمانے والے خالق ومالک کو ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہمیں تیرے فیصلوں کی ضرورت نہیں ، ہم نے تو اپنی قسمتوں کو خود اپنے ہاتھوں سے آگ لگا دی ہے آتش بازی کی نذر کئے جانے والے کروڑ وں روپے ہمارے کتنے دکھوں کا علاج اور کتنے دردوں کا درماں ثابت ہو سکتے ہیں ۔ ان سے کتنے یتیموں کے آنسو پونچھے جا سکتے ہیں کتنی دختران وطن کے ہاتھ پیلے کئے جا سکتے ہیں اور کتنے زخموں پر مرہم رکھا جا سکتا ہے مگر آہ! ہماری بدبختی اور حرماں نصیبی کہ ہم نے رحمان کے بندے بننے کی بجائے شیطان کے بھائی بن جانے کو ترجیح دی ۔
مسلمان بھائیوں اور بہنوں ! آئیے ہم سب صدق دل سے یہ عہد کریں کہ اس خود ساختہ بدعات اور افضلیت کے موقعہ پر شیطان کے بھائی نہیں بنیں گے ۔ انشاء اللہ
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟