Tuesday, March 2, 2010

خطبۂ حجۃ الوداع

از ڈاکٹر ممتاز عمر
عالم انسانیت گھٹاٹوپ اندھیرے میں بھٹک رہی تھی طاقت کی حکمرانی تھی ایک طرف قیصر وکسریٰ جنگوں کے ذریعے غالب ومغلوب ہوتے تو دوسری طرف انسانوں کو غلام بنا کر انسانیت کی توہین کی جا رہی تھی۔ عرب کا معاشرہ قبائلی روایات کے مطابق ایک
دوسرے پر بالادستی کے حصول میں کوشاں تھا۔ قبائلی جنگیں محض چھوٹی چھوٹی بات پر طوالت پکڑ تیں اور انسانیت کا خون کرتیں عورت کو معاشرے کا پست ترین حصہ بنادیا گیا تھابلکہ دوسرے لفظوں میں لڑ کی کو پیدا ہوتے ہی دفن کر دیا جاتا مگر اسے جہالت کا
وہ پہلو نہیں کہا جا سکتا جسے آج کے زمانے میں لکھنے پڑ ھنے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے کیوں کہ یہ بات تو طے ہے کہ یہ عرب لکھنا پڑ ھنا جانتے تھے کیوں کہ جنگِ بدر کے موقع پر کفار مکہ کے چند قیدیوں کو لکھنا پڑ ھنا سکھانے کے عوض مشروط رہائی دی
گئی تھی۔ یہ جہالت کا وہ پہلو ہے جہاں مہذب معاشروں کی گردن جھک جایا کرتی ہے روایات واقدار پامال ہوجایا کرتی ہیں ۔ محض وقتی مصلحتوں کے پیش نظر اصول وضوابط ترتیب دئیے جاتے ہیں عربوں کی جنگیں اور ان کی بنیاد ہمارا موضوع نہیں لیکن ان کی
تہذیب ومعاشرت اور اس میں آنے والی تبدیلیاں جن کی بدولت یہی صحرانشین محض ۲۵۔۳۰ سالوں میں عرب کے ریگستانوں سے اٹھتے ہیں اور قیصر وکسریٰ کی سلطنت سکڑ تے سکڑ تے ختم ہوجاتی ہے تو افریقہ کی جانب سے یورپ میں داخل ہوتے ہیں یہ سب
کچھ قوتِ ایمانی ، مصمم ارادوں اور یقین محکم کی بدولت حاصل ہوتا ہے ۔ وسط ایشیا اور چین کی سرحدوں تک قتیبہ بن مسلم رحمہ اللہ کی فتوحات، ۱۷ سالہ سپّہ سالار محمد بن قاسم ہندوستان کے قلب تک جا پہنچتا ہے ۔ ادھر طارق بن زیاد فتح وشکست سے بے پرواہ
کشتیوں کو جلا کر آگے بڑ ھنے کے ارادے سے پیش قدمی کرتا ہے یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوا؟ وہ سبق کیا تھا؟ تربیت کیسی تھی؟ اور ارادے کہاں تک بلند؟
عرب کے اسی معاشرے میں جبسیدہ آمنہ کے یہاں نبی آخر الزماں محمد مصطفیٰ ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی تو جہالت کے ان ہی اندھیروں میں نور کی وہ کرن منور ہوتی ہے جو اندھیروں میں روشنی کا سبب بنی۔ آپ ﷺ نے تہذیب سے عاری اس
معاشرے میں اپنی موجودگی کے وہ معجزے پیش کئے کہ اپنے تو اپنے ، غیر بھی آپ ﷺ کی امانت ودیانت وسچائی کے قائل نظر آتے ہیں ۔زندگی کے ۴۰ برس اس حسن وخوبی سے گزارے کہ لوگ ایک ندا پر لبیک کہتے اور پھر کوہِ فاراں کی بلندی پر کھڑ ے
ہوکر اللہ کے اس حکم کی تعمیل میں کے ’’ اے اوڑ ھ لپیٹ کر لیٹنے والے ! اٹھ‘‘ لوگوں کو اکٹھا کرتے ہیں ۔ یہ لوگ جو آپ ﷺ کی سچائی کے اس قدر قائل ہیں کہ اگر آپ ﷺ یہ کہہ دیں کہ پہاڑ کی دوسری جانب دشمن کی فوج ہے تو یقین کر لیں مگر اللہ
کا وہ پیغام جو بتوں کی پوجا سے رکنے اور وحدانیت کا درس دیتا ہے ساتھ ہی نبوت پر ایمان لانے کا حکم دیتا ہے تو یہ لوگ تتّر بتّر ہوجاتے ہیں ۔ یہیں تک نہیں مخالفت پر کمر باندھ لیتے ہیں ۔ آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھیوں کو ایذائیں دی جاتی ہیں خاندان
کے افراد کو گھاٹی میں محصور کر دیا جاتا ہے اور پھر جب نبی ا کرم ﷺ طائف کے شمول خاندان کے سامنے اللہ کا پیغام پہنچاتے ہیں تو وہاں کا دن تو اور سخت گزرتا ہے نبی کریم ﷺ نے ایک موقع پر سیدہعائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا تھا کہ ’’
میری زندگی کا سخت ترین دن طائف کے لوگوں کے ساتھ وہ دن تھا کہ جب وہاں کے لڑ کے مجھ پر تاک تاک کر پتھر مارتے اور اگر میں ان زخموں کی وجہ سے بیٹھ جاتا تو مجھے اٹھا کر کھڑ ا کر دیتے ۔‘‘ تکالیف ومصائب ایک طرف مگر نبی محترم ﷺ کی یہ دعا کہ
’’یہ لوگ آج میری بات نہیں سمجھتے ، ان کے بعد والے میری بات سمجھیں گے ۔‘‘ کتنی درست ثابت ہوئی۔ بالخصوص برصغیر کے مسلمانوں کیلئے کہ انہیں دائرہ اسلام اور نور ہدایت سے روشناس کرانے کا سہرا حجاز کے جس سپّہ سالار محمد بن قاسم کے سر ہے اس
کے آباء واجداد کا تعلق طائف ہی سے تھا۔ طائف میں ناکامی کے بعد نبی محترم ﷺ ہجرت مدینہ کرتے ہیں کہ یہاں انصار کا ایک قبیلہ آپ ﷺ پر مرمٹنے کیلئے تیار ہے مگر منکرینِ حق کو یہ بھی گوارا نہ تھا۔ وہ تو اس چراغ کو بجھانے پر تُلے ہوئے تھے کہ معرکہ
بدر پیش آیا جس میں تعداد اور جنگی ہتھیاروں کا کوئی موازنہ نہیں مگر غالب تو وہی رہے کہ جن کیلئے نبی محترم ﷺ رب کریم سے دعا کرتے ہیں کہ ’’دورِ نبوت کی تمام کمائی لے آیا ہوں اگر آج یہ مٹ گئے تو پھر توحید کا نام لیوا کوئی نہ ہو گا۔‘‘دعا قبول ہوئی
تعداد اور جشن وجلوس ناکام ہوا مگر یہ کفار بھی کہاں ماننے والے تھے پھر آئے اور زیادہ تیاری سے آئے ۔ اُحد کے مقام پر پھر معرکہ درپیش تھا کہ بظاہر فتح یقینی ہے مگر نبی محترم ﷺ کے فرمان سے ذرا سی لاپرواہی برتنے والے چند صحابہ کی لغزش پانے سے
شکست میں بدل دیا۔ یہاں بھی درس ہے اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول ﷺ کی اور پھر یہ سلسلہ غزوات جاری رہا۔ جنگِ خندق ہوکہ صلح حدیبیہ ، حنین کا معرکہ ہوکہ غزوئہ تبوک ۔ آپ ﷺ کی قیادت اور اطاعت کے پیش نظر مسلمانوں کی قوت
وطاقت میں اضافہ نظر آتا ہے ۔ اور پھر فتح مکہ کا وہ تاریخی انقلاب کہ ایک سلطنت فتح ہوگئی خون کا ایک قطرہ تک زمین پرنہیں گرا۔ اپنے دشمنوں کے ساتھ نبی مکرم ﷺ نے وہی سلوک کیا جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا۔ محض
سولہ یا تیرہ افراد کو سزائیں دینے کا فیصلہ کیا گیا جن میں سے صرف تین پر عمل کیا گیا ۔ ابو لہب کی بیٹی بھی معافی کیلئے اس طرح پیش ہوئی کہ نقاب اس کے چہرے پر تھا۔ یہ وہی ہندہ ہے جس نے آپ ﷺ کے پیارے چچا سیدالشہداء امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کا
کلیجہ چبایا تھا اور ان کے جسم کے اعضاء کاٹ کر ہار میں پرو کر پہنے تھے مگر میرے نبی محترم ﷺ نے اسے بھی معاف کر دیا۔
دورِ نبوی ﷺ کا اہم ترین واقعہ حجۃ الوداع ہے کہ نبی محترم ﷺ نے اللہ کے حکم سے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی ایک بڑ ی جماعت کے ہمراہ حج بیت اللہ کا ارادہ کیا تمام علاقوں میں جہاں جہاں مسلمان رہتے تھے ، پیغام بھیجا تاکہ لوگ حج میں شرکت کیلئے
آئیں اور لوگ جوق درجوق لبیک اللہم لبیک کہتے ہوئے آنے لگے ۔ اس اعلان کا مقصدیہ تھاکہ لوگ کثیر تعداد میں آئیں تاکہ جزیرۃ العرب کے لوگوں کیلئے خصوصاً اور ساری دنیا کیلئے عموماً اسلام، اس کی شریعت اوراخلاق کے تمام اساسی اصولوں کا اعلان ہو سکے ۔
۲۶ذی القعدہ کو وسول ا کرم ﷺ تمام امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن کے ہمراہ مکے کی طرف روانہ ہوئے ۔ ذوالحلیفہ پہنچ کر احرام باندھا انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر آپ کے چاروں جانب تھا۔ جب آپ ﷺ لبیک کی صدا بلند کرتے تو جواباً دشت وجبل
گونج اٹھتے ۔مکے میں داخل ہوکر کعبے کا طواف کیا اسی موقع اور صفا ومروہ پر سعی کے مواقع پر بھی ارشاداتِ عالیہ میں توحید اور رب کعبہ کی عنایات اور اسلام کی سربلندی کا تذکرہ کیا۔ ۸ ذی الحجہ منیٰ میں تشریف لے گئے ۹ ذی الحجہ کو نمازِ فجر کے بعد عرفات
تشریف لائے اور اپنی مشہور اونٹنی قصواء پرسوار ہوکر خطبہ حجۃ الوداع دیا۔ جو بنی نوع انسان کیلئے سراسر ہدایت اور تزکیے کا باعث ہے ۔ یہ اسلامی شریعت اور اصولِ زندگی کیلئے کامیابی کی شاہراہ کی مانند ہے آپ ﷺ نے فرمایا :
’’ ہاں جاہلیت کے تمام دستور میرے پاؤں کے نیچے ہیں لوگو! ہاں بیشک تمہارا رب ایک ہے ، اور تمہارا باپ ایک ہے ۔ ہاں عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے ۔اللہ تعالیٰ نے تم سے
جاہلیت کی جہالت اور آباء واجداد پر فخر کو مٹادیا۔ انسان خدا سے ڈرنے والا مومن ہوتا ہے یا اس کا نافرمان شقی۔ تم سب کے سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے ۔ اسلام کے رشتے نے مختلف رنگ ونسل کے انسانوں کو باہم بھائی بنا دیا۔ ہر مسلمان
دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔تمہارے غلام! جو خود کھاؤ وہی ان کو کھلاؤ اور جو خود پہنو وہی ان کو پہناؤ۔ جاہلیت کے تمام خون(انتقام) باطل کر دئیے گئے اور سب سے پہلے میں (اپنے خاندان کے ) ربیعہ بن حارث کے
بیٹے کا خون باطل کرتا ہوں ۔ جاہلیت کے تمام سود باطل کر دئیے گئے اور سب سے پہلے اپنے خاندان عباس بن عبدالمطلب کا سود باطل کرتا ہوں ۔ عورتوں کے معاملہ میں خدا سے ڈرو۔ تمہارا عورتوں پر اور عورتوں کا تم پر حق ہے ۔تمہارا خون اور تمہارا مال
تاقیامت اسی طرح حرام ہے جس طرح یہ دن یہ مہینہ اوریہ شہر حرام ہے ۔ میں تم میں ایک چیز چھوڑ تا ہوں اگر تم نے اس کو مضبوطی سے پکڑ لیا تو گمراہ نہ ہوگئے وہ چیز کیا ہے ؟ کتاب اللہ۔ رب العزت نے ہر حقدار کو (ازروئے وراثت) اس کا حق دے دیا۔ اب
کسی وارث کیلئے وصیت جائز نہیں ہے ۔ لڑ کا اس شخص کا ہے جس کے بستر پر پیدا ہوا۔ زنا کار کیلئے پتھر ہے اور ان کا حساب خدا کے ذمے ہے ۔ جو شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کے نسب سے ہونے کا دعویٰ کرے اور جو غلام اپنے آقا کے علاوہ کسی اور کی طرف
اپنی نسبت کرے اس پر اللہ کی لعنت ہے ۔ ہاں عورت کو اپنے شوہر کے مال میں سے اس کی اجازت کے بغیر کچھ لینا جائز نہیں ہے قرض ادا کیا جائے عاریت واپس کی جائے ، ضامن تاوان کا ذمہ دار ہے ۔
یہ احکام بیان فرما کر مجمع سے سوال کیا ’’ تم سے اللہ میری نسبت پوچھے گا تو تم کیا جواب دو گے ؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے جواب دیا: ہم کہیں گے کہ آپ ﷺ نے خدا کا پیغام پہنچا دیا اور اپنا فرض ادا کر دیا۔ آپ ﷺ نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور
فرمایا: ’’اے اللہ تو گواہ رہنا ، اے اللہ تو گواہ رہنا ، اے اللہ تو گواہ رہنا۔‘‘
عین اُس وقت جب آپ ا نبوت کے آخری فرائض ادا فرما رہے تھے ، یہ آیت نازل ہوئی ﴿الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِینًا ﴾ (المائدۃ:۳)
’’ آج ہم نے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور تمہارے لئے مذہبِ اسلام کا انتخاب کیا۔‘‘
خطبہ حجۃ الوداع تمام بنی نوع انسانیت کیلئے وہ رہنما اصول ہیں جو معاشروں کی تعمیر وتکمیل اور ترقی کیلئے ضروری ہیں کہ ان کے بغیر نہ تو بہتری پیدا ہو سکتی ہے اور نہ کامیابی کی کوئی سبیل ہو گی۔ نبی مکرم ﷺ نے ہر عمل کا آغاز اپنی ذات وخاندان سے کیا خواہ وہ
دورِ جاہلیت میں خون کے بدلے کا ہو یا سود کے لین دین کا ، کہ ہر چیز کو باطل کر دیا۔ مالک وغلام کو ایک صف میں کھڑ ا کر دیا مگر کائنات کے شہنشاہ اور تمام جہانوں کیلئے رحمت بنائے جانے والے نبی محترم ﷺ کی یہ ہدایات ہم نے فراموش کر دی ہیں ۔
ارباب حل وعقد مسندِ اقتدار پر جلوہ افروز ہوکر ظلم کے ذریعے اپنے واجبات ضرورت سے زائد اور منافع کے ساتھ وصول کرتے ہیں تو رعایا کے ساتھ غلاموں سے بدتر سلوک ان کا شیوہ ہے ۔ آج کے اس دور میں جب حکمران طبقہ بلٹ پروف Bullet
Proofکاروں اور جیکٹوں کے استعمال کے علاوہ حفاظتی حصار میں خود کو محفوظ نہیں جانتا۔ لاقانونیت اور عدم تحفظ نے عوام الناس کا جینا دوبھر کر دیا ہے ۔ رہزن موبائل جیسی چھوٹی چیز بھی آپ کی جان لیکر چھین لینے کے درپے ہیں ۔آپ کی رقوم ، گاڑ ی اور
دیگر قیمتی اشیاء محفوظ نہیں اور جب یہ سب کچھ لٹ جائے تو داد نہیں فریاد نہیں اور بات یہیں تک نہیں کسی واقعے کی رپورٹ تک درج کرانے کیلئے رشوت دیجئے ۔ نبی محترم ﷺ غلام کے ساتھ برابری کے سلوک کا حکم دیتے ہیں کاش خطبے کے یہ احکامات
ارباب اقتدار تک پہنچ جائیں کہ آج مملکتِ خداداد پاکستان میں ایک تہائی سے زیادہ آبادی غربت سے نیچے کی لکیر پر زندگی گزار رہی ہے اور سفید پوشوں کا ایک بڑ ا طبقہ اپنے مسائل ناگفتہ بہ جان کرخاموش آسمان کی طرف دیکھتا ہے اور جو یہ حوصلہ بھی نہیں
رکھتے وہ خود کشی کا راستہ اختیار کرتے ہیں ۔ عورت کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم ہے نہ کہ اسے اس قدر مظلوم ومجبور بنادیا جائے کہ مردوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑ ی ہوکر ملازمت کرے ۔ یہ ملازمت شوقیہ نہیں کی جاتی۔ حالات اس قسم کے پیدا کر
دئیے گئے ہیں کہ گھر کا ہر فرد کمائے تو بھی گزارہ نہیں ہوتا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وہ خود ساختہ قوانین جو خطبہ حجۃ الوداع میں دئیے گئے خواتین کے حقوق پر زک لگاتے ہیں کہ اگر کسی عورت کا شوہر سرکاری ملازمت کے دوران فوت ہوجائے تو پنشن اور
کموٹیشن کے ذریعے ملنے والی رقوم نصف ہوجاتی ہیں ۔ یہ ظلم کا نظام ہے کہ بیوہ تو شوہر سے محروم ہوئی ، خاندان کی ذمہ داریاں اس پر آن پڑ یں ، حکومت کو اس کی آمدنی میں اضافہ کرنا چاہیے یہاں جو کچھ مل سکتا تھا وہ بھی نصف کر دیا جاتا ہے ۔ رہی رنگ ونسل
کی بات تو یہاں تو عہدوں اور اختیارات کی بنیاد پر حکمرانی کو اپنا حق سمجھا جاتا ہے ۔ چہرے بدلے جاتے تھے مگر اب تو چہرے بدلنے کیلئے بھی تیار نہیں کہ اقتدار کی ہوس موت کی نیند سوکر ہی ختم ہوتو ہو۔ ہمارا معاشرہ تنزلی کا شکا رہے حکومت کے دعوے کچھ بھی
ہوں ، خزانے کتنے بھرجائیں ۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر کسی قدر بڑ ھ جائیں مگر عام آدمی تو آٹے دال کی سیاست میں الجھ گیا ہے ۔ کیا خطبہ حجۃ الوداع کی اہمیت ، افادیت اور مفہوم سے ہمارے حکمران واقف ہیں ؟ یا خود کو اس سے مبرا جانتے ہیں ؟؟؟۔
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟