Tuesday, March 2, 2010

اپریل فول اسلامی تعلیمات کے تناظر میں

از حسان دانش
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أُوصِیکُمْ بِأَصْحَابِی ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ ثُمَّ یَفْشُو الْکَذِبُ حَتَّی یَحْلِفَ الرَّجُلُ وَلَا یُسْتَحْلَفُ وَیَشْہَدَ الشَّاہِدُ وَلَا یُسْتَشْہَدُ أَلَا لَا یَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَۃٍ إِلَّا کَانَ ثَالِثَہُمَا الشَّیْطَانُ عَلَیْکُمْ بِالْجَمَاعَۃِ وَإِیَّاکُمْ وَالْفُرْقَۃَ فَإِنَّ الشَّیْطَانَ مَعَ الْوَاحِدِ وَہُوَ مِنَ الِاثْنَیْنِ أَبْعَدُ مَنْ أَرَادَ بُحْبُوحَۃَ الْجَنَّۃِ فَلْیَلْزَمِ الْجَمَاعَۃَ
مَنْ سَرَّتْہُ حَسَنَتُہُ وَسَاءَتْہُ سَیِّئَتُہُ فَذَلِکُمُ الْمُؤْمِنُ قَالَ أَبو عِیسَی ہَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ غَرِیبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رَوَاہُ ابْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَۃَ وَقَدْ رُوِیَ ہَذَا الْحَدِیثُ مِنْ غَیْرِ وَجْہٍ عَنْ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّم۔
(ترمذی، کتاب الفتن، باب ما جاء فی لزوم الجماعۃ، )
’’میں تمہیں وصیت کرتا ہوں اپنے صحابہ ، ان کے بعد تابعین ، اور ان کے بعد تبع تابعین کے بارے میں ، ان کے بعد جھوٹ اس قدر عام ہو جائے گا کہ جس سے قسم کا مطالبہ بھی نہ کیا جائے گا وہ بھی قسمیں اٹھائے گا اور جس سے گواہی طلب نہ کی جائے گی وہ
بھی گواہی دے گا‘‘
آپ ﷺ کے ارشاد کے عین مطابق آج کے موجودہ دور میں جھوٹ عام ہو چکا ہے اور اس کو پھیلانے کیلئے مختلف قسم کے حیلے بہانوں کا سہارا لیکر امت اسلامیہ کو گمراہی کے تاریک گڑ ھے میں دھکیلنے کی مذموم سعی کی جا رہی ہے اور جہاں تک مسلمانوں کے
حال کا تعلق ہے تو وہ اسلامی احکامات سے اس قدر غافل ہو چکے ہیں کہ اسلام کے روشن اوامر کو ترک کر کے کفر کے دکھائے ہوئے تاریک راستے کا انتخاب کرتے ہوئے ان کی تقلید کرنے میں انتہائی فخر محسوس کرتے ہیں اور جو لوگ اس ضلالت میں ان کے شانہ
بشانہ کھڑ ے نہ ہوں ان کو دقیانوسی خیالات کا مالک جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے اس کی ایک کڑ ی اپریل فول بھی ہے جس کی ابتدائی تاریخوں میں لوگ بطور مذاق جھوٹ کے ذریعے دوسرے لوگوں کو بے وقوف بنا کر خوشیاں مناتے ہیں اور لطف اندوز ہوتے
ہیں اسی پاگل پن کو ’’اپریل فول ‘‘سے موسوم کیا جاتا ہے ، یہ احمقانہ کام خصوصا یکم اپریل کو کیا جاتا ہے ۔
اپریل فول کی تاریخ:
اپریل Aprilانگریزی سال کا چوتھا مہینہ ہے جس کے تیس دن ہوتے ہیں اوریہ لفظ قدیم لاطینی لفظ aperire سے ماخوذ ہے جس کو وہ لوگ موسم بہار کی آمد اور پھولوں کے کھلنے اور نئی کونپلیں پھوٹنے کو کہتے ہیں ۔
اس کی ابتداء روم سے ہوئی چونکہ موسم بہارکی ابتداء عموما اپریل سے ہوتی ہے تو رومیوں نے اس مہینے کے پہلے دن کو محبت ، خوبصورتی کے خدا ، خوشیوں ، ہنسی اور خوش قسمتی کی ملکہ جسے وہ ’’فینوز‘‘ کہتے تھے کے حوالے سے منعقدہ تقریبات کے لیے مخصوص
کر دیا۔اوتر روم کی بیوائیں اور دوشیزائیں اس دن کو عبادت خانہ میں جمع ہو کر ان خداؤں کے سامنے اپنے جسمانی اور نفسانی عیوب رکھ کر اس سے درخواست کرتی تھیں کہ ان کے عیوب کو ان کے خاوندوں پر ظاہر نہ ہونے دے ۔
بعض لوگوں کے خیال کے مطابق اپریل فول کی ابتداء فرانس میں 1564؁ء میں نیا کیلنڈر جاری ہونے کے بعد یوں شروع ہوئی کہ جو لوگ نئے کیلنڈر کو تسلیم نہ کرتے اور اس کی مخالفت کا اظہار کرتے تو انہیں مذاق اور استہزاء کا نشانہ بنایا جاتا اور ان کے ساتھ
انتہائی بدسلوکی کا معاملہ کیا جاتا ۔
جبکہ بعض لوگوں کی رائے کے مطابق یہ رسم بد بت پرستی کا باقی ماندہ اثر ہے جو کہ اپریل فول منانے والوں کے لیے بنیاد ثابت ہوئی۔
اپریل فول احمق اور پاگل لوگوں کا دن :
انگریز لوگ اس دن کو All Fool Dayکہتے ہیں جس سے مراد پاگلوں اور احمقوں کادن ہے اس لیے اس دن جھوٹ اس طرح بولا جاتا ہے کہ سننے والا اسے سچ سمجھتا ہے اور پھر وہ مل کر اس کامذاق اڑ اتے ہیں ۔ یکم اپریل کو ہونے والے واقعات میں سے ایک یہ
بھی ملتا ہے کہ ایک انگلش اخبار نے 31 مارچ 1846؁ء کو ایک خبر شائع کی کہ ایک زراعتی فارم میں گدھوں کی نمائش اور عام میلہ منعقد ہو رہا ہے جسے دیکھنے کے لئے لوگ دور دراز سے انتہائی شوق سے جمع ہوئے اور مذکورہ فارم میں میلے کا انتظار کرنے لگے
۔جب وہ انتظار کرتے کرتے تھک گئے تو انہوں نے پوچھناشروع کیا کہ میلہ کب شروع ہو گا مگر انہیں کوئی خاطر خواہ جواب نہ مل پایا بالآخر انہیں بتایا گیا کہ جو لوگ میلہ دیکھنے کیلئے جمع ہوئے ہیں وہ خود گدھے ہیں ۔
اپریل فول اور اسلام :
اپریل فول کو منانا شرعی اعتبارسے بالکل ناجائز اور باطل ہے جس کی چند نقلی وعقلی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں :
۱۔ غلط بیانی اور جھوٹ: مسلمان کبھی بھی غلط بیانی کا مرتکب نہیں ہو سکتا خصوصا جہاں اسے کچھ فائدہ نہ نظر آ رہا ہو ، جھوٹ جہنم کا راستہ ہے اس راستہ پرچلنے کا ایک مومن آدمی سوچ بھی نہیں سکتا ۔کسی آدمی کے دل میں جھوٹ اور ایمان جمع نہیں ہو سکتے کیونکہ
ایمان کی بنیاد سچائی جبکہ نفاق کی بنیاد جھوٹ پر مبنی ہے لہذا ان دونوں کا اجتماع ایک دل میں محال ہے ۔ چونکہ اپریل فول میں بنیادی چیز جھوٹ ہے اس لیے اس کی مذمت میں چند احادیث پیش کرنا ضروری ہے ۔
۱۔عن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ مرفوعا أَرْبَعٌ مَنْ کُنَّ فِیہِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا وَمَنْ کَانَتْ فِیہِ خَصْلَۃٌ مِنْہُنَّ کَانَتْ فِیہِ خَصْلَۃٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّی یَدَعَہَا إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ وَإِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَإِذَا عَاہَدَ غَدَرَ وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَِ (متفق علیہ واللفظ لمسلم ، البخاری کتاب الایمان ، باب علامات
المنافق)
ترجمہ:’’سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس شخص میں چار خصلتیں ہوں وہ پکا منافق ہے اور جس شخص میں ان میں سے ایک خصلت بھی ہو گی تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے یہاں تک کہ وہ اسے
چھوڑ نہ دے
٭ جب بات کرے گا تو جھوٹ بولے گا۔
٭ جب کوئی معاہدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے گا۔
٭ جب کوئی وعدہ کرے گا تو وعدہ خلافی کرے گا۔
٭جب کسی سے جھگڑ ے تو اسے گالیاں دے گا‘‘
:’’سیدنا عبد اللہ بن عامر رضی اللہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ ہمارے گھر تشریف فرما تھے کہ اس اثنا میں میری والدہ نے مجھے بلایا کہ ادھر آؤ میں تمہیں کچھ دوں گی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم اسے کیا دینا چاہتی ہو اس نے کہا میں اسے کھجور
دوں گی اس پر آپ ﷺ نے فرمایا : خبردار اگر تم اسے کچھ نہ دیتیں تو یہ بات تمہارے حق میں جھوٹی لکھی جاتی ‘‘(ابو داؤد کتاب الادب ، باب التشدید فی الکذب۔ ۴۹۹۱)
۳۔عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ: إِنَّ الصِّدْقَ یَہْدِی إِلَی الْبِرِّ وَإِنَّ الْبِرَّ یَہْدِی إِلَی الْجَنَّۃِ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَصْدُقُ حَتَّی یَکُونَ صِدِّیقًا وَإِنَّ الْکَذِبَ یَہْدِی إِلَی الْفُجُورِ وَإِنَّ الْفُجُورَ یَہْدِی إِلَی النَّارِ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَکْذِبُ حَتَّی یُکْتَبَ عِنْدَ اللَّہِ کَذَّابًا ۔
(متفق علیہ وللفظ لمسلم، البخاری کتاب الادب باب قول اللہ تعالیٰ ﴿یا ایھا الذین آمنو ا اتقوا اللہ وکونوا مع الصادقین﴾وما نھی عن الکذب ۶۰۹۴، مسلم:۲۰۱۳)
ترجمہ: ’’سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سچائی جنت کی طرف لے جاتی ہے ، جو شخص سچ بولتا ہے اور سچ کی کوشش کرتا ہے اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں سچا لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچو بے شک جھوٹ گنا
ہوں کی طرف لیجاتا ہے اور گناہ جہنم کی طرف لے جاتے ہیں ، جو شخص ہمیشہ جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ کی کوشش کرتا رہتا ہے اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے ‘‘
۴ ۔ عن سعید بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ قال :قال رسول اللہ ﷺ : یُطبَعُ المُؤمِنُ عَلَی کُلِّ خَصلَۃٍ غَیرَ الخِیَانَۃِ وَالکَذِب۔(رواہ البزار)
ترجمہ: ’’سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مومن کو خیانت اورجھوٹ کے علاوہ ہر وصف پر پیدا کیا جاتا ہے ‘‘
۵۔ عن ابی امامۃ قال قال رسول اللہ ﷺ :َ أَنَا زَعِیمٌ بِبَیْتٍ فِی رَبَضِ الْجَنَّۃِ لِمَنْ تَرَکَ الْمِرَاءَ وَإِنْ کَانَ مُحِقًّا وَبِبَیْتٍ فِی وَسَطِ الْجَنَّۃِ لِمَنْ تَرَکَ الْکَذِبَ وَإِنْ کَانَ مَازِحًا وَبِبَیْتٍ فِی أَعْلَی الْجَنَّۃِ لِمَنْ حَسَّنَ خُلُقَہُ (ابو داؤد ، کتاب الادب ، باب فی حسن الخلق، )
ترجمہ: ’’سیدنا ابو امامۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص جھگڑ ا چھوڑ دے اگرچہ وہ سچ پر ہو ، میں اس کیلئے جنت کے کنارے ایک محل کی ضمانت دیتا ہوں ، اور جو شخص جھوٹ ترک کر دے خواہ وہ مذاق ہی کر رہا ہو میں اس
کیلئے جنت کے وسط میں ایک محل کی ضمانت دیتا ہوں ، اور جو شخص اچھے اخلاق کا مالک ہو میں اس کیلئے جنت کے اعلی اور بلند درجات میں ایک محل کا ضامن ہوں ‘‘
اگر ان احادیث مبارکہ کو دل کی آنکھیں کھول کر دیکھا جائے تو صاحب عقل کے سامنے مندرجہ ذیل مسائل آئیں گے ۔
٭ جھوٹ بولنا نفاق کی علامت ہے ۔
٭ مومن کے لیے جھوٹ بولنا بہت مشکل ہے اس لیے اسے اس سے ہر ممکن احتیاط کر نی چاہیے ۔
٭ چھوٹوں کے ساتھ جھوٹ بولنا بھی اسی میں شمار ہو تا ہے کیونکہ شریعت میں اس معاملے میں چھوٹے بڑ ے کا فرق بیان نہیں کیا گیا ہے ۔
٭جھوٹ کی بری عادت سے چھٹکارا پانے والے کیلئے جنت کے وسط میں ایک محل کی خوشخبری ہے ۔
٭ مذاق میں بھی جھوٹ نہیں بولنا چاہیے ۔
۲۔ دھوکہ دہی:
اپریل فول دوسرے بھائیوں کو دھوکہ دینے کا نام ہے جو ایک مسلمان کا شیوہ نہیں ہو سکتا ۔
۳۔ امن وسکون کی تباہی؛
اپریل فول اسلامی معاشرہ کے سکون اورامن کو برباد کرنے کا ایک بہت بڑ ا ذریعہ ہے جس میں لوگوں کو پریشان کرنے کیلئے مختلف طرح کی بے بنیاد خبریں اڑ ائی جاتی ہیں ۔
۴۔ اخلاقی اقدار کی خلاف ورزی:
یہ فعل اس لحاظ سے بھی قبیح تصور کیا جا سکتا ہے کہ اس میں تمام اخلاقی اقدار کو بالائے طاق رکھ کر بد اخلاقی کا سرعام مظاہر ہ کر کے فخر محسوس کیا جاتا ہے ۔
۵۔ معاشرتی انتشار کا سبب؛
اسلام کسی بھی ایسی چیز کے کرنے کی اجازت نہیں دیتا جس کے ذریعے اسلامی معاشرہ انتشار کا شکار ہو اور جو معاشرہ کی اکائی کو توڑ نے میں معاون ہو جبکہ اپریل فول واضح طور پر انتشار وفسادکا ذریعہ ہے کیونکہ جب کسی آدمی کامذاق اڑ ایا جائے گا اور بعد ازں حقیقت کا
علم ہونے پر ان دونوں میں لڑ ائی جھگڑ ا اور دیگر فسادات مثلاً قطع تعلق جیسا مذموم فعل بھی ہو سکتا ہے لہذا اسلام اس طرح کے کاموں کی بھر پور حوصلہ شکنی کرتا ہے ۔
۶۔ کفار کے ساتھ مشابہت:
شریعت اسلامیہ نے ہمیں سیدھا راستہ دکھا دیا ہے اور ا سکے ساتھ ساتھ ان راستوں کی نشاندہی بھی کر دی ہے جو ضلالت وگمراہی کا باعث ہیں ان میں ایک راستہ کفار کی مشابہت بھی ہے جس سے دین اسلام نے نہایت سختی سے منع فرمایا ہے چنانچہ نبی کریم
ﷺ نے ارشاد فرمایا: مَن تَشَبَّہَ بِقَومٍ فَہُوَ مِنہُم۔
(ابوداؤد، ۳۵۱۲) ’’
جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی گویا وہ انہی میں سے ہے ‘‘
دین اسلام کی مزاح کے بارے میں تعلیمات:
اسلام ایک کامل اور مکمل دین ہے جو کہ امن وسکون کا متقاضی ہے اور کسی پر اتنی سختی نہیں کرتا جس سے لوگوں پر اس قدر قدغنیں لگائے کہ ان کا جینا بھی دشوار ہو جائے بلکہ اسلام تو چاہتا ہے کہ معاشرہ میں لوگ خوش باش رہیں اس لیے مزاح سے منع نہیں کیا
گیا ہے ، لیکن مزاح سے مراد کسی سے شغل کرنا ، دل کو خوش کرنا اور محبت کا اظہا رہے نہ کہ اس کو باتوں سے ایذادینا یا اس کا دل دکھانا ہے اسی مفہوم کی روشنی میں مزاح اور استہزاء میں فرق ہے ۔اس کے علاوہ مزاح کرنا آپ ﷺسے بھی ثابت ہے جیسا کہ
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو ا اور کہا :یارسول اللہ ﷺمجھے کوئی سواری عنایت فرمائیں ، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ہم تجھے اونٹنی کا بچہ دیں گے ، وہ بولا :میں اونٹنی کا بچہ لیکر کیا کروں گا تو آپ
ﷺ نے فرمایا: اونٹنی ہی تو اونٹ کو جنم دیتی ہے ۔(سنن ابو داؤ ، کتاب الادب، باب ما جاء فی المزاح)
ایک اور حدیث میں وارد ہے ، سیدنا حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بڑ ھیانبی کریم ﷺکے پاس آئی اورکہا:اے اللہ کے رسول ﷺ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں داخل کر دے ، آپ ﷺنے فرمایا: اے ام فلاں : جنت میں بوڑ ھے داخل
نہیں ہو ں گے ، تو وہ روتے ہوئے واپس جانے لگی تو آپ ﷺ نے فرمایا: اسے بتاؤ کہ یہ بڑ ھاپے کی حالت میں جنت میں نہیں جائے گی ، اللہ تعالیٰ کا رشاد ہے ﴿إِنَّا أَنْشَأْنَاہُنَّ إِنْشَاء ً ٭ فَجَعَلْنَاہُنَّ أَبْکَارًا ٭ عُرُبًا أَتْرَابًا﴾
(الواقعۃ :۳۵/۳۷)
’’بے شک ہم ان عورتوں کو نئے سرے سے پید ا کریں گے اورانہیں با کرہ بنا دیں گے جو خوش اطوار اور اپنے شوہروں کی ہم عمر ہوں گی‘‘
کثرت مزاح کے مفاسد:
٭ مزاح کی کثرت اللہ کے ذکر سے غافل کرنے کا ذریعہ ہے ۔
٭ کثرت مزاح کے سبب انسان دین کے اہم امور اور دین کی تفکیر سے غافل ہو جاتا ہے ۔
٭ کثرت مزاح ہنسی کا ذریعہ ہے جس سے دل پختہ اور مردہ ہو جاتا ہے ۔
٭ اس سے انسان کے اندر سنجیدگی اور شخصی وقار زائل ہوجاتا ہے ۔
٭ زیادہ مزاح کرنے والے کی بات پر اعتماد کرنا مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ سامع اس کے مزاح اور سنجیدگی میں فرق نہیں کر سکتا۔
٭ کثرت مزاح سے انسان کے اندر استہزاء پیدا ہونے کا خدشہ بھی رہتا ہے ۔
لہذاہم سب کو مسلمان ہونے کی حیثیت سے اسلام پر عمل کر کے اپنے ایمان کا عملی ثبوت دینا چاہیے تاکہ کفار کے منصوبے پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکیں اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کام کرنے والوں کا منہ کالا ہو۔
الغرض مذکورہ بالا شرعی وعقلی وجوہا ت کے بعد یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اپریل فول میں کسی بھی انداز میں شرکت باعث گناہ ومعصیت ہے ۔
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟