از احسان الہٰی ضامرانی
دوستی کے آداب
(بروایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا:’’ انسان اپنے دوست کے دین پرہوتا ہے ‘‘۔ دوستی قائم کرنے سے پہلے تمہیں دیکھ لینا چاہئے کہ تم دوستی کس سے کر رہے ہو۔
(بروایت مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب کوئی شخص اپنے کسی مسلمان بھائی سے محبت رکھتا ہو، تو اسے چاہیے کہ اس کو بتلا دے کہ وہ اسے محبوب رکھتا ہے ‘‘۔
٭ ابو سعیدرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے ہوئے سنا: صرف مومن سے رفاقت اور دوستی اختیار کرو، اور تمہارے دسترخوان پر صرف پاکباز لوگ ہی بیٹھیں ۔ توضیح: اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے
کہ بے ضر ر قسم کے کفار و فساق سے بھی کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہیے ۔ بلکہ اصل منشایہ ہے کہ گہرے دوستانہ روابط اور رازدارانہ تعلقات صرف انہی لوگوں سے ہونے چاہیں جن کی سیرت و اخلاق پر پورا پورا اعتماد ہو۔
دوستی کے اثرات
٭ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ نیک ساتھی اور برے ساتھی کی مثال مشک عنبر اٹھانے والے اور لوہار کی بھٹی دھونکنے والے جیسی ہے ۔ مشک عنبر والا یا تو تمہیں کچھ دے دے گا یا تم اس سے کچھ خرید
لو گے یا کم از کم تم اس کے ہاں خوشبو سونگھ لو گے لیکن بھٹی دھونکنے والا تو تمہارے کپڑ ے جلا دے گا یا تم اس کے ہاں دماغ کو سڑ ا دینے والی بدبو پاؤ گے ‘‘
دوستی اور دشمنی میں میانہ روی
سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’تمہاری محبت جنون کی شکل نہ اختیار کرنے پائے اور تمہاری دشمنی ایذا رسانی کا باعث نہ بننے پائے میں نے کہا وہ کیسے ؟ آپ نے فرمایا: وہ یہ ہے کہ جب تم محبت کرو تو طفلانہ حرکات کرنے لگو اور جب کسی سے ناراض ہو تو اس کی
جان و مال تک کی تباہی اور بربادی کی آرزو کرو‘‘
عبید کندی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سناآپ فرما رہے تھے اپنے دوست سے دوستی میں نرمی میانہ روی اختیار کرو، ہو سکتا ہے کہ کسی وقت وہ تمہارا دشمن بن جائے اسی طرح دشمن سے دشمنی کا برتاؤ کرنے میں بھی نرمی
اعتدال کی راہ اختیار کرو، ہو سکتا ہے کہ کسی دن وہ تمہاری دوستی کا دم بھرنے لگے ۔
خوش مزاجی
٭ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ نے ایک بوڑ ھی عورت سے فرمایا کہ بوڑ ھی عورت جنت میں داخل نہیں ہو گی اس نے عرض کیا کہ بوڑ ھی عورتوں نے کیا گناہ کیا ہے ؟ یہ عورت قرآن پڑ ھا کرتی تھی۔ آپ نے
فرمایا: کیا تم نے قرآن میں یہ نہیں پڑ ھا کہ ہم انہیں دوبارہ پیدا کریں گے ۔ اس طرح کہ وہ نوجوان ہوں گی ہم عمر ہوں گی اور ان کے دلوں میں اپنے شوہروں کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہو گی۔
تشریح: بڑ ھیا جنت میں داخل تو ہو گی لیکن بڑ ھاپے کی ناتوانیوں اور چہرے کی جھریوں کے ساتھ نہیں بلکہ جوانی کی بہار سے لطف اندوز ہوتے ہوئے وہ اللہ تعالیٰ کی اس ابدی نعمت سے فراز ہو گی۔
٭ بروایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدناحسن رضی اللہ عنہ یا سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے دونوں پاؤں اپنے دونوں قدموں پر رکھے پھر فرمایا: بچے ! چڑ ھ جا۔
تشریح بچوں کے ساتھ خوش مزاجی سے پیش آنا، زہد و تقویٰ کے منافی نہیں ہے ہاں اگر خوش مزاجی حد سے بڑ ھ جائے تو بچوں میں غلط عادتیں پیدا ہو سکتی ہیں ۔
والدین کے حقوق
اولا د پر والدین کی فضیلت ایک معروف اور مسلم حقیقت ہے کیونکہ والدین ہی اولاد کے وجود میں آنے کا ذریعہ ہیں ، لیکن آج کے اس معاشرے میں یہی ہو رہا ہے کہ وہ بچہ کہ جب چھوٹی سی عمر میں ماں کی گود میں کھیلتا تھا اس وقت اس کے والدین (ماں اور
باپ)اسے آرام پہچانے کیلئے طرح طرح کی تکلیفیں اٹھاتے رہے لیکن جب وہ بڑ ا ہوتا ہے تو اپنا سارا ماضی بھول جاتا ہے حالانکہ اے انسان ! تیری ماں نے تجھے نو(۹) ماہ تک اپنے پیٹ میں رکھا اور اس کا خون تیری غذا کا باعث بنتا رہا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
﴿حَمَلَتہُ اُمُّہُ وَھنًا عَلی وَھنٍ﴾(لقمان)
’’‘اس کی ماں نے اسے تکلیف پر تکلیف اٹھا کر اپنے پیٹ میں رکھا ‘‘
پھر دوسال دودھ پلانے کا وقت آیا جس میں تھکن بھی ہوتی ہے ، صعوبت بھی اور کوفت بھی لیکن تیری ماں نے ان تمام تکالیف کو تیری خاطر برداشت کیا اس طرح تیرا باپ تیری زندگی کی بقا اور اس میں خوشیاں بکھیرنے کیلئے تیرے بچپن سے ہی دوڈ دھوپ
کرنے لگا حتی کہ تو خوداپنے پاؤں پر کھڑ ا ہو گیا اس وقت بھی وہ تجھے قابل عزت بنانے کے لیے کوشاں رہا اس میں اسے بہت مشکل پیش آئی لیکن اس نے صرف تیری آسانی کی خاطر ہر مصیبت کا سامنا کیا پھر جب تو جوان ہو گیا تو وہ بڑ ھاپے کی عمر کو پہنچ چکے تھے
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :وَوَصَّینَا الاِنسَانَ بِوَالِدَیہِ حَمَلَتہُ اُمُّہُ وَھنًا عَلی وَھنٍ وَفِصَالُہُ فِی عَامَینِ اَنِ اشکُر لِی وَلِوَلِدَیکَ اِلَیَّ المَصِیر-لقمان ، ۱۴
’’اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں تاکید کی، اس کی ماں نے تکلیف پر تکلیف اٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دوسال میں اس کا دودھ چھڑ ایا ، کہ(اے انسان)تو میرا اوراپنے والدین کا شکرگزار رہے اور تجھے با لآخر میری طرف لوٹ کرآنا ہے ‘‘
والدین کا یہ حق ہے کہ ان کے ساتھ ہر طرح سے نیکی کا برتاؤ کیاجائے ان کا حکم بجا لایاجائے لیکن اگر ان کے کسی حکم میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی ہو تو وہ حکم نہیں ماننا چاہیے ، جب وہ بڑ ھاپے کی عمرکو پہنچ جاتے ہیں تو اولاد کی مدد کے زیادہ محتاج ہوتے ہیں لہذا اس عمر میں ان کے ساتھ بطور خاص حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے کہ ان کو ’’اُف ‘ ‘تک نہیں کہنا چاہیے کیونکہ جس نے اپنے والدین سے نیکی کی تو اس کی اولاداس سے نیکی کرے گی اور جس نے والدین کو ستایا تو اس کی اولاد بھی اس کے ساتھ ایساہی برتاؤکرے گی۔
دوستی کے آداب
(بروایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا:’’ انسان اپنے دوست کے دین پرہوتا ہے ‘‘۔ دوستی قائم کرنے سے پہلے تمہیں دیکھ لینا چاہئے کہ تم دوستی کس سے کر رہے ہو۔
(بروایت مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب کوئی شخص اپنے کسی مسلمان بھائی سے محبت رکھتا ہو، تو اسے چاہیے کہ اس کو بتلا دے کہ وہ اسے محبوب رکھتا ہے ‘‘۔
٭ ابو سعیدرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے ہوئے سنا: صرف مومن سے رفاقت اور دوستی اختیار کرو، اور تمہارے دسترخوان پر صرف پاکباز لوگ ہی بیٹھیں ۔ توضیح: اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے
کہ بے ضر ر قسم کے کفار و فساق سے بھی کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہیے ۔ بلکہ اصل منشایہ ہے کہ گہرے دوستانہ روابط اور رازدارانہ تعلقات صرف انہی لوگوں سے ہونے چاہیں جن کی سیرت و اخلاق پر پورا پورا اعتماد ہو۔
دوستی کے اثرات
٭ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ نیک ساتھی اور برے ساتھی کی مثال مشک عنبر اٹھانے والے اور لوہار کی بھٹی دھونکنے والے جیسی ہے ۔ مشک عنبر والا یا تو تمہیں کچھ دے دے گا یا تم اس سے کچھ خرید
لو گے یا کم از کم تم اس کے ہاں خوشبو سونگھ لو گے لیکن بھٹی دھونکنے والا تو تمہارے کپڑ ے جلا دے گا یا تم اس کے ہاں دماغ کو سڑ ا دینے والی بدبو پاؤ گے ‘‘
دوستی اور دشمنی میں میانہ روی
سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’تمہاری محبت جنون کی شکل نہ اختیار کرنے پائے اور تمہاری دشمنی ایذا رسانی کا باعث نہ بننے پائے میں نے کہا وہ کیسے ؟ آپ نے فرمایا: وہ یہ ہے کہ جب تم محبت کرو تو طفلانہ حرکات کرنے لگو اور جب کسی سے ناراض ہو تو اس کی
جان و مال تک کی تباہی اور بربادی کی آرزو کرو‘‘
عبید کندی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سناآپ فرما رہے تھے اپنے دوست سے دوستی میں نرمی میانہ روی اختیار کرو، ہو سکتا ہے کہ کسی وقت وہ تمہارا دشمن بن جائے اسی طرح دشمن سے دشمنی کا برتاؤ کرنے میں بھی نرمی
اعتدال کی راہ اختیار کرو، ہو سکتا ہے کہ کسی دن وہ تمہاری دوستی کا دم بھرنے لگے ۔
خوش مزاجی
٭ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ نے ایک بوڑ ھی عورت سے فرمایا کہ بوڑ ھی عورت جنت میں داخل نہیں ہو گی اس نے عرض کیا کہ بوڑ ھی عورتوں نے کیا گناہ کیا ہے ؟ یہ عورت قرآن پڑ ھا کرتی تھی۔ آپ نے
فرمایا: کیا تم نے قرآن میں یہ نہیں پڑ ھا کہ ہم انہیں دوبارہ پیدا کریں گے ۔ اس طرح کہ وہ نوجوان ہوں گی ہم عمر ہوں گی اور ان کے دلوں میں اپنے شوہروں کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہو گی۔
تشریح: بڑ ھیا جنت میں داخل تو ہو گی لیکن بڑ ھاپے کی ناتوانیوں اور چہرے کی جھریوں کے ساتھ نہیں بلکہ جوانی کی بہار سے لطف اندوز ہوتے ہوئے وہ اللہ تعالیٰ کی اس ابدی نعمت سے فراز ہو گی۔
٭ بروایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدناحسن رضی اللہ عنہ یا سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے دونوں پاؤں اپنے دونوں قدموں پر رکھے پھر فرمایا: بچے ! چڑ ھ جا۔
تشریح بچوں کے ساتھ خوش مزاجی سے پیش آنا، زہد و تقویٰ کے منافی نہیں ہے ہاں اگر خوش مزاجی حد سے بڑ ھ جائے تو بچوں میں غلط عادتیں پیدا ہو سکتی ہیں ۔
والدین کے حقوق
اولا د پر والدین کی فضیلت ایک معروف اور مسلم حقیقت ہے کیونکہ والدین ہی اولاد کے وجود میں آنے کا ذریعہ ہیں ، لیکن آج کے اس معاشرے میں یہی ہو رہا ہے کہ وہ بچہ کہ جب چھوٹی سی عمر میں ماں کی گود میں کھیلتا تھا اس وقت اس کے والدین (ماں اور
باپ)اسے آرام پہچانے کیلئے طرح طرح کی تکلیفیں اٹھاتے رہے لیکن جب وہ بڑ ا ہوتا ہے تو اپنا سارا ماضی بھول جاتا ہے حالانکہ اے انسان ! تیری ماں نے تجھے نو(۹) ماہ تک اپنے پیٹ میں رکھا اور اس کا خون تیری غذا کا باعث بنتا رہا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
﴿حَمَلَتہُ اُمُّہُ وَھنًا عَلی وَھنٍ﴾(لقمان)
’’‘اس کی ماں نے اسے تکلیف پر تکلیف اٹھا کر اپنے پیٹ میں رکھا ‘‘
پھر دوسال دودھ پلانے کا وقت آیا جس میں تھکن بھی ہوتی ہے ، صعوبت بھی اور کوفت بھی لیکن تیری ماں نے ان تمام تکالیف کو تیری خاطر برداشت کیا اس طرح تیرا باپ تیری زندگی کی بقا اور اس میں خوشیاں بکھیرنے کیلئے تیرے بچپن سے ہی دوڈ دھوپ
کرنے لگا حتی کہ تو خوداپنے پاؤں پر کھڑ ا ہو گیا اس وقت بھی وہ تجھے قابل عزت بنانے کے لیے کوشاں رہا اس میں اسے بہت مشکل پیش آئی لیکن اس نے صرف تیری آسانی کی خاطر ہر مصیبت کا سامنا کیا پھر جب تو جوان ہو گیا تو وہ بڑ ھاپے کی عمر کو پہنچ چکے تھے
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :وَوَصَّینَا الاِنسَانَ بِوَالِدَیہِ حَمَلَتہُ اُمُّہُ وَھنًا عَلی وَھنٍ وَفِصَالُہُ فِی عَامَینِ اَنِ اشکُر لِی وَلِوَلِدَیکَ اِلَیَّ المَصِیر-لقمان ، ۱۴
’’اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں تاکید کی، اس کی ماں نے تکلیف پر تکلیف اٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دوسال میں اس کا دودھ چھڑ ایا ، کہ(اے انسان)تو میرا اوراپنے والدین کا شکرگزار رہے اور تجھے با لآخر میری طرف لوٹ کرآنا ہے ‘‘
والدین کا یہ حق ہے کہ ان کے ساتھ ہر طرح سے نیکی کا برتاؤ کیاجائے ان کا حکم بجا لایاجائے لیکن اگر ان کے کسی حکم میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی ہو تو وہ حکم نہیں ماننا چاہیے ، جب وہ بڑ ھاپے کی عمرکو پہنچ جاتے ہیں تو اولاد کی مدد کے زیادہ محتاج ہوتے ہیں لہذا اس عمر میں ان کے ساتھ بطور خاص حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے کہ ان کو ’’اُف ‘ ‘تک نہیں کہنا چاہیے کیونکہ جس نے اپنے والدین سے نیکی کی تو اس کی اولاداس سے نیکی کرے گی اور جس نے والدین کو ستایا تو اس کی اولاد بھی اس کے ساتھ ایساہی برتاؤکرے گی۔