الشیخ عبدالحمید اثری
بعض لوگ توحید، قیامت اور رسالت کے یکتا اصول کے تحت ارکان اسلام کو تاقیامت باقی اور جدید وقدیم کے تقاضوں سے ہم آہنگ قرار دیتے ہوئے اسلامی قانون کا مسلم اصول یہ بیان کرتے ہیں کہ جس کام سے شریعت میں منع نہیں کیا گیا تو اس کی اجازت ہے
۔
گویا انسان کے لیے کھلا میدان چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ فرائض وسنن اور مستحبات کی ادائیگی اور حرام ومکروہات سے اجتناب کرتے ہوئے وہ امور جن کی حلت وحرمت کے بیان سے شریعت خاموش ہے انہیں مباح اور جائز سمجھتے ہوئے ان میں جب چاہے جتنا
چاہے اضافہ کرے اور قولی، فعلی اور مالی عبادت میں آزاد ہے ۔
اگر کوئی شخص اس بات کو غلط کہے کہ جو عبادت سنت میں نہیں ہے تو اس کو جواب دیا جائے کہ اس کی ممانعت ثابت کرو حالانکہ جس عمل کی ممانعت بالصراحت نہیں وہ مباح کی ذیل میں آتا ہے اور فقہ اسلامی میں اس کا حکم کیا ہے ؟ ملاحظہ فرمائیں ۔
تمام اہل اسلام سے یہ بات مخفی نہیں کہ دین اسلام کامل ہے اور اس میں قیامت تک کے پیش آمدہ مسائل کا حل اور رہنمائی موجود ہے جو سعادت دارین کی کامیابی کی ضامن ہے ۔اور یہ دین وحی الہی سے ظہور پذیر ہوا اور یہ بنی نوع انسان کی زندگی کے ہر شعبے کو
محیط ہے ، تخلیق انسان کا مقصد وحید اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے اور عبادت کی حقیقت وتفصیل ازخود معلوم کرنا انسان کے بس میں ہر گز نہیں ہے ورنہ تو وحی کا انتظام ہی نہ ہوتا ، اسلام کے سارے نصاب کو شریعت سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس کے دو پہلو ہیں ایک
عبادات کا اور دوسرا معاملات باہمی کا ۔ یا یوں کہا جائے کہ دین اسلام حقوق اللہ اورحقوق العباد پر مشتمل ہے ، اللہ تعالیٰ کا حق اس کی عبادت ہے ، جس کی قبولیت کی دو شرطیں ہیں ، خلوص اور سنت نبوی ﷺ کی موافقت ۔ ان میں کوئی ایک شرط بھی مفقود ہو
گی تو عبادت رائیگاں ہو گی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان حدیث قدسی میں ہے :
أنا أغنی الشرکاء عن الشرک۔ میں تمام شریکوں کے شرک سے بے نیاز ہوں اور جس کام میں شرک شامل ہو میں مشرک او ر اس کے شرک سے دستبردار ہو جاتا ہوں اور اسے چھوڑ دیتا ہوں اور سنت کی موافقت نہ ہونے کی صورت میں آپ ﷺ نے فرمایا:
’’ جو میری سنت سے بے رغبتی کرے وہ مجھ سے نہیں ۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان دونوں شقوں کو ملحوظ رکھا اور ان میں کوتاہی کو عبادت میں کوتاہی سے تعبیر کیا ، مثلا: عبادت خواہ قولی ہے تو اس میں وصف کی تبدیلی کو بدعت، ضلالت اور گمراہی سے تعبیر کیا ۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود اور ابو موسیٰ اشعری
رضی اللہ عنہما اجلّہ صحابہ مسجد میں اسوہ نبی سے ہٹ کر ذکر الہی کرنے والوں کی سرزنش فرماتے ہیں اور اسے بدعت اور گمراہی سے تعبیر کرتے ہیں بلکہ ذا کرین کو فرماتے ہیں کہ اپنی خطائیں شمار کرو نیکیوں کے ہم ضامن ہیں ، اور کیا تمہار ا طریقہ رسول اللہ کے
طریقہ سے اچھا ہے ؟اوریہ حدیث صحیح ہے جس کی تفصیل کتب سنن میں دیکھی جا سکتی ہے ، اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عید گاہ میں نمازعید سے پہلے ایک شخص کو نما ز پڑ ھتے ہوئے دیکھا توا سے منع فرمایا اس نے کہا :میں نماز ہی تو پڑ ھ رہا ہوں تو فرمایا: جو
عبادت رسول اللہ ﷺ نے نہیں کی اس میں تم آپ ﷺ کی مخالفت کر رہے ہو بجائے ثواب عذاب پاؤ گے اور تیرا یہ نماز پڑ ھنا بھی عبث ہے اور عبث حرام ہے یہاں اس شخص نے یہ نہیں کہا کہ آپ ﷺ نے منع تو نہیں فرمایا یا کثرت عبادت عبث اور
حرام کیسے ہو گی ؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تیرا یہ نماز پڑ ھنا شاید رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کی وجہ سے عذاب الہٰی کا سبب بنے ۔
معلوم ہوا کہ عبادت کے کاموں میں اگر کوئی عمل بدون اذن شرع اور شارع علیہ الصلاۃ والسلام کے کیا جائے تو وہ مردودہو گا ۔ بعض لوگوں نے اہل اسلام کا مسلم اصول یہ پیش کیا ہے کہ اصل اشیاء میں اباحت اور مباح کو یہ مقام حاصل ہے کہ جتنا چاہیں کریں
خواہ عبادت قولی ، فعلی یا مالی ہو اور جس وقت چاہیں کریں اگر سنت ہونے کا استفسار کرے تو بڑ ی ڈھٹائی سے کہو کہ تم منع دکھاؤ ۔ اس جوابی نکتے کی تکرار کی تلقین کی جاتی ہے ۔
کتاب وسنت تو یہ تقاضا کرتی ہے کہ شریعت کی اتباع کی تلقین کریں اور من مرضی کے اضافوں کو بدعت سے تعبیر کریں لیکن یہاں اسلام کی ہمہ گیری اور وسعت کے تقاضے ہیں کہ ہر شخص مباح میں آزاد ہے اور امت مسلمہ کو مباح کی ڈھیل میں بدعت کی
دلدل میں دھکیلا جا رہا ہے ۔
مباح کی کیا حیثیت ہے ، اصول فقہ میں تواس کا فعل وترک برابر لکھا گیا ہے یعنی کرے تو ثواب ، نہ کرے تو گناہ نہیں ۔ (اصول فقہ کی کتابوں کا حوالہ )
یہ اس کی قانونی حیثیت ہے لیکن لوگ اسے تشریعی حکم کا درجہ دے رہے ہیں حالانکہ شارع علیہ السلام نے اسے نظرا نداز کر دیا ہے لہذا سنت کا مطالبہ کرنے والوں کے مقابلہ میں اس موقف سے مذکور عمل کی تشریع کا وہم پڑ تا ہے چنانچہ یہ عدم ثبوت اس کی
ممانعت کی دلیل ہو گا پھر یہ اصول متفقہ نہیں ہے امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اصل تحریم ہے ، یہ ملحوظ رہے کہ اہل سنت کے ائمہ اس با ت پر متفق ہیں کہ عبادت میں اصل یہ ہے کہ کوئی عبادت تب تک
مشروع نہ کہلائے گی جب تک شرع شریف سے اس کا اذن واجازت نہ ہو یعنی عبادات میں اصل تحریم ہے جیسا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’فروع فقہ شافعیہ ‘‘ میں جو کہ ’’الاشباہ والنظائر‘‘ کے نام سے مشہورہے میں
ص:۶۰ پر ذکر کیا ہے ۔ جب عبادات میں بدون اذن شرع اضافہ خواہ اصلی شکل میں یعنی مشروع عبادت کی شکل میں تبدیل حرام ہے اور آپ کے مباح پر جو فعلاً وترکاً برابر ہے ۔ حرام کا فتویٰ علی رضی اللہ عنہ نے لگایا ہے ، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی اصل تحریم کا
مورد بھی ہے اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بھی اس پر بدعت کا حکم لگایا ہے ۔
ہمارے لیے قرآن مجید اور احادیث مبارکہ آئینہ ہیں اگر کوئی ہمیں دکھائے تو سعادت مندی ہے ان سے ہماری غلطیوں کی اصلاح ہو سکتی ہے ۔
جملہ عبادات میں اصل ممانعت ہے الّا یہ کہ شرع اجازت دے ہم اپنی طرف سے اختراع نہیں کرسکتے اس لیے ائمہ محدثین نے رسول اللہ ﷺ کی اتباع کو جہاں فرض قرار دیا ہے وہاں کسی کام کے آپ سے عدم ثبوت کی بناپر ترک کرنے کو بھی ضروری قرار
دیا ہے ۔ چنانچہ اس کی تفصیل علامہ ملّا علی القاری اور الشیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے بیان کی ہے اور بالصراحت یہ لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے افعال مبارکہ کی فعلا وترکا اتباع ضروری ہے ، چنانچہ آپ ﷺ سے کسی عمل کے منقول نہ ہونے یعنی
عدم ثبوت اور عدم نقل پر اس کے مکروہ اوربدعت ہونے کا حکم لگایا گیا ہے جیسا کہ فجر کی سنتوں کے بعد مزید نوافل ادا کرنے کے بارے میں مذکور ہے ۔
قاضی ابراہیم حنفی فرماتے ہیں کہ جس فعل کا سبب رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں موجود ہو اور کوئی رکاوٹ بھی نہ ہو اور باوجود اس کی اقتضیٰ کے رسول اللہ ﷺ نے اسے نہ کیا ہو تو ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے دین کو بدلنا ہے کیونکہ اس کام میں کوئی مصلحت ہوتی
تو رسول اللہ ﷺ اس کام کو ضرور کرتے یا ترغیب فرماتے اور جب آپ ﷺ نے نہ خود کیا اور نہ کسی کو ترغیب دی تو معلوم ہوا کہ اس میں کوئی بھلائی نہیں ہے بلکہ وہ بدعت قبیحہ سیئہ ہے ۔
(نقائص الاظہار ، ترجمہ مجالس الابرار ص:۱۲۷)
مسکوت عنہ کے ترک پر صاحب ھدایہ کی رائے ملاحظہ کریں فرماتے ہیں ’’ لا یتنفل فی المصلی قبل صلوۃ العید لان النبی ﷺ لم یفعل ذالک مع حرصہ علی الصلوۃ‘‘
(ھدایۃ ۔ج:۱، ص:۱۵۳)
ترجمہ:’’ اور عید گاہ میں نماز سے پہلے نوافل نہ پڑ ھے کیونکہ نبی ﷺ نے باوجود نمازکی حرص کے ایسا نہیں کیا ‘‘
’’لایتنفّل‘‘ نہی اور ممانعت کا صیغہ ہے یہ کونسی نہی ہے آپ فیصلہ کریں تحریمی ہے ، تنزیہی ہے یا ارشادی کہ جس میں ترک ہر صور ت ہے اگر نفی کا صیغہ ہو تو یہ اس سے بھی ابلغ ہے اور عید گاہ میں نماز عید سے پہلے نفل نماز پڑ ھنے والے کو سیدنا علی رضی اللہ
عنہ نے نہ صرف روکا بلکہ اس فعل کو جو بظاہر نیکی ہے اور رسول اللہ ﷺ سے اس کی ممانعت کا ذکر بھی نہیں آیا، اسے عبث اور حرام ٹھہرایا اور اس کو رسول اللہ ﷺ کے عدم فعل اور عدم ثبوت کی وجہ سے اسے آپ ﷺ کی مخالفت تعبیر فرما کر اس کو
عذاب کا مستحق ٹھہرایا ہے ۔
مگر بعض لوگ مسکوت عنہ یعنی وہ مسائل جن میں خاموشی اختیار کی گئی ہے اس پر خاموش رہنے کی تلقین کے باوجود خود اس پر کاربند ہونے کا اظہار واعلان ہی نہیں بلکہ اس پر سنت کے حوالہ کے طلبگاروں کو فروعی مسائل میں الجھانے کا الزام بھی دیتے ہیں ۔
مذکورہ حوالہ جات سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سنت کی موافقت کے مطالبہ کی سوچ درست بھی ہے اور مفید بھی ، اور اس سے بڑ ھ کر پیارے پیغمبر ﷺ کی نافرمانی اور مخالفت سے بچنے کا ذریعہ بھی۔ اس لیے اگر آپ ﷺ کی اتباع میں ساری دنیا
سے اختلافات ہو جائیں تو کوئی پرواہ نہیں ہونی چاہیے ۔
انسان کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے اور اس کے باہمی معاملات کے درجہ سے رب تعالیٰ کا حق مقدم ہے اس کی ادائیگی میں اصل اور وصف کے لحاظ سے بدون اذن شرع کے ہم عبادت کا ایجاد واختراع نہیں کر سکتے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو
روایت حدیث ، درایت اور ہدایت میں کامل تھے انہوں نے تو عبادات میں رسول اللہ ﷺ کی ایک ایک ادا اور نوا اپنائی اور اس کی مخالفت تو کُجا اس سے سرِمُو انحراف بھی برداشت نہیں کیا جیسے کہ آدابِ دعا میں بعض صحابہ نے آپ ﷺ کے لیے ہاتھ اٹھانے
کی بلندی کے موافق ہاتھ نہ اٹھانے کو بدعت قرار دیا ہے ۔
بقول سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ :’’تمہارا دعا کے لیے اوپر ہاتھ اٹھانا بدعت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے سینے سے اوپر ہاتھ نہیں اٹھائے ‘‘ (مشکوٰۃ کتاب الدعوات)اب اس حدیث سے صحابہ کرام کی سوچ متعین ہوتی ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی سنت
کی عدم موافقت کو بدعت شرعی سے تعبیر کرتے تھے ، حالانکہ بعض لوگوں کے خیال میں شریعت میں مباح کے ضمن میں کھلا میدان ہے او ر دعا کیلئے جتنے ہاتھ اٹھائیں بلکہ جب چاہیں اٹھائیں سنت کی موافقت ہو نہ ہو۔
لہذا مباح کی اسا س پر عبادات کی عمارت تعمیر کرنے کو گمراہی سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے ، جب عبادات اصل مقصد زندگی ہیں تو ان کی اساس بھی کتاب وسنت ہے اور اختلافات کے وقت انہی دونوں سرچشموں سے ہی رفع اختلاف ہو سکتا ہے ۔ اس لئے
مسکوت عنہ مسائل جن کا تعلق عبادات سے ہے انہیں عبادا ت میں کھلی چھوٹ دینے کی بجائے اس پر کراہت ، حرام ہونے اور اس کے بدعت ہونے اور رسول اللہ ﷺ کی مخالفت ہونے کے سبب انہیں عذاب الہی کا مستوجب قرار دیا گیا ہے ۔ اس میں نہ شیخ
عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ اس مباح کے ہم نوا ہیں نہ شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی ہم نوا ہیں بلکہ انہوں نے ہر طرح سے اپنی بے زاری کا اعلان فرمایا ہے اور ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ ’’اطلبوا الاستقامۃ ولا تطلبوا الکرامۃ‘‘ کتاب وسنت پر استقامت مانگو اور کرامتوں کے
طلبگار نہ بنو ۔کیونکہ کرامت تو استقامت میں ہی ہے ۔ کتاب وسنت پر قناعت میں اختلاف ہو ہی نہیں سکتا البتہ خود ساختہ عبادات میں کوئی بضد واصرار کرے اور ان پر کتاب وسنت سے ثبوت مانگنے والے کو دین میں افتراق ڈالنے والے کہے تو یہ محل کو گرا جھونپڑ
ی میں ڈالنے والی بات ہے نبوت کا محل تو مکمل ہے مگر اس متعصب کے تقاضے پورے نہ ہوئے اور آپ ﷺ سے بڑ ھ کر متقی یا اللہ سے زیادہ ڈرنے کا اعتقاد لے کر عبادت میں مسابقہ درازی کرے تو اس کو قرآن وحدیث میں تکلف سے تعبیر کیا گیا ہے یعنی
تصنع اور بناوٹ فرمایا گیا ہے ، آپ ﷺ کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ آپ فرمادیں (وما انا من المتکلفین ) ’’میں تکلف کرنے والوں میں سے نہیں ہوں ‘‘
سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جسے امام ترمذی اور امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے جبن ، سمن اور فراء کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ حلال وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال فرما دیا
اور حرام وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا ہے اور جس سے اس نے خاموشی اختیار کی وہ اس کی طرف سے رحمت اور عفوہے ‘‘
اور حدیث کے اور بھی طُرق ہیں جن میں ہے کہ عفو سے خاموشی اختیار فرمائی ۔ حدیث پاک میں سوال کھانے پینے کی اشیاء سے ہے اور ’’فرا‘‘ حمار وحشی ہے ۔ نہ کہ عبادت سے اگر دونوں سے تعلق سمجھا جائے تو ہر ایک اپنی اصل کی طرف لوٹ جائے گی یعنی
عبادات میں اصل تحریم وممانعت ہو گی جب تک شرع اجازت نامہ جاری نہ کرے اور عادات ومعاملات وماکولات میں اصل اباحت ہو گی جب تک شرع منع نہ کرے جنگلی گدھے کے شکار کا تعلق بھی عبادات سے نہیں ہے ، ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ سے روایت
ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ اللہ تعالیٰ نے فرائض مقرر فرمائے انہیں ضائع نہ کرو اور بعض چیزوں سے نہی فرمائی ان کی حرمت کو پامال نہ کرو اور بعض چیزوں سے بھولے بغیر خاموشی اختیار کی ان سے بحث نہ کرو ‘‘
اور ایک روایت میں ہے کہ بہت سی باتوں سے بھولے بغیر خاموشی اختیار کی ان میں تکلف اختیا رنہ کرو جو تم پر رحمت فرمائی ہے اسے قبول کرو ۔
تکلف کے معنی میں امام راغب اصفہانی ’’مفردات القرآن ‘‘ میں رقم طراز ہیں ’’ کوئی کام کرتے وقت خوش دلی ظاہر کرنا باوجودیکہ اس کے کرنے میں مشقت پیش آ رہی ہو اس لیے عرف عام میں کلفت مشقت کو کہتے ہیں اور تکلف اس کام کے کرنے کو جو
مشقت بتصنّع یا اوپرے جی سے دکھاوے کے لیے کیا جائے اس لیے تکلیف دوقسم پر ہے ، محمود اور مذموم ، اگر کسی کام کو اس لیے محنت سے سرانجام دیا جائے کہ وہ کام اس پر سہل اور آسان ہو جائے اور اسے اس کام کے ساتھ خوش دلی اور محبت ہو جائے تو ایسا
تکلف محمود ہے چنانچہ اس معنی میں عبادات کا پابند بنانے میں تکلیف کا لفظ استعمال ہو ا ہے اور اگر وہ کام تکلف محض اور ریاکاری کیلئے ہو تو مذموم ہے اور آپ ﷺ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمانا کہ کہیے میں تکلف کرنے والوں میں سے نہیں اورحدیث پاک
میں ہے :
’’میں اور میری امت کے پرہیزگار لوگ تکلف سے اور بناوٹ سے بری ہیں ‘‘ اور فرمان الہی ہے : اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا (۲۔ ۲۸۶)
احادیث مبارکہ میں جہاں خاموشی کا ذکر ہو ا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شرع جس کسی چیز پر حکم میں اثبات اور ممانعت سے خاموش ہے وہ مسکوت عنہ میں شامل ہے اور وہ عفو کے قبیل سے ہے جس کا کرنا جائز اور مباح ہونا چاہئے لہذا ان کی مرضی سے اعمال
خواہ عبادات قولی ، فعلی یا مالی سے ہو یامعاملات دنیا سے وہ سب مسکوت عنہ کے تحت آتے ہیں ۔
لیکن جبکہ یہ محقق امر ہے کہ جو کام شرع کی اجازت کے بغیر حادث اور نو ایجاد ہو وہ بدعت اور ضلالت وگمراہی ہے اور بدعت ممنوع اور حرام ہے تو وہ چیزیں اور اعتقاد واعمال مسکوت عنہ نہ ہوئے ۔
مسکوت عنہ اس چیز کو کہتے ہیں جس کا حکم کسی خاص یا عام دلیل سے معلوم نہ ہو بلکہ عفو کی احادیث سے بدعت کی تردید ہوئی ہے اور تحدیدوتعیین وتخصیص کی وجہ سے بدعت عفو کی احادیث کے خلاف ہوئی اور اس کے معنی کے خلاف ہوئی جو آپ نے لیے ہیں
۔شیخ ملاعلی القاری شرح مشکوۃ میں لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی اتباع جس طرح آپ کے اعمال مبارکہ میں واجب ہے اسی طرح آپ ﷺ کے چھوڑ ے ہوئے کاموں میں بھی ضروری ہے سو جو شخص ایسے کام پر ہمیشگی اختیار کرے جسے شارع علیہ السلام
نے کیا ہی نہیں تو وہ مبتدع اور بدعتی ہے اور بدعت کے مرد ود اور ضلالت وگمراہی ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں کیونکہ وہ فعلاً رسول اللہ ﷺ کی مخالف ہوتی ہے ۔
تنبیہ: بعض لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ بدعات کو روکنے والے ہر نئے کام کو بدعت قبیحہ کہتے ہیں خواہ دین کا ہو یا دنیا کا ، یہ سراسر بہتان وافتراء ہے ۔ مانعین صرف اس بات کو بدعت قبیحہ کہتے ہیں جو دین میں بدون اذن شرع کے ایجاد کیا گیا ہو حالانکہ اس
کا تقاضا رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بدون معارض موجود ہو اور نیا متقاضی بدون معصیت عباد پیدا نہ ہوا ہو۔ مثال: جیسے عیدین کی اذان نہیں کہی جاتی تقاضا بلانے اور جمع کرنے کا موجود تھا کوئی مانع بھی نہ تھا اس کے باوجود اس کو دعوت الی اللہ کے دلائل
سے ثابت کر کے جاری کیا جا سکتا ہے لیکن ایسا نہ کرنا آپ ﷺ کی سنت ترکیہ کی اتباع ہے اور اب اگر کوئی اس کے لیے علت ومصلحت بیان کرے تو وہ معتبر نہ ہو گی کیونکہ شارع علیہ السلام نے اس علت کو نظرا نداز کر دیا ہے ۔ لہذا یہاں ممانعت کی دلیل نہ
ہونے کے باوجود اذان نہ کہی جائیگی۔ اور عام ادلّہ سے استدلال درست نہ ہو گا اگر مباح کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیا جائے اور ممانعت کی شریعت پاک سے دلیل طلب کی جائے تو اس سے شریعت محمدی ﷺ بازیچہ اطفال بن جائیگی ۔ حالانکہ اس کی حدود
وقیود ہیں جیسے کہ قرآن پاک کے الفاظ کی من مرضی کی تفسیر پر حدیث وسنت نے قدغن لگائی ہے جس کا مفاد یہ ہے کہ قرآن کے معانی اور بیان عرف نبوی او ر اسوئہ نبوی ﷺ کے پابندہیں اور (کان خُلُقُہ القُرآن ) کا یہی مقصد ہے کہ قرآن کا مطلوب اسوئہ
رسول ﷺ ، ا سوئہ کامل اور مجسم قرآن ہے ۔ اور آپ ﷺ کی اتباع ہی اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول اور اس کی بارگاہ میں نجات کا ذریعہ ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو محمد رسول اللہ ﷺ کی تابعداری کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔ (آمین)
ایسے بھی لوگ تھے
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہو ا کہ فلاں مسئلہ تو مجھے معلوم ہے لیکن جو الفاظ رسول اللہ ﷺ کی زبا ن سے نکلے تھے وہ بھول گیا ہوں تو وہی الفاظ سیدنا عبدا للہ بن انیس رضی اللہ عنہ کی زبان سے سننے کیلئے شام کے دارالحکومت دمشق پہنچے ۔ اس کے لیے
منڈی سے جا کر سواری خریدی اور سفر کیا وہاں پہنچ کر ان کے دروازے پر دستک دی اور کہا کہ میں جابر (رضی اللہ عنہ)ہوں ، آپ سے ملاقات کیلئے مدینہ منورہ سے آیا ہوں ، انہوں نے کہا : جابر بن عبد اللہ ؟ کہا : جی ہاں تو جلدی سے باہر تشریف لائے ، معانقہ
کیا اور بہت خوش ہوئے پھر دریافت کیا کہ آپ نے اتنا لمبا سفر کیوں کیا؟ فرمایا: مجھے پتہ چلا کہ آپ کو رسول اللہ ﷺ سے اس مسئلے کے بارے میں وہ الفاظ یاد ہیں جو اس وقت آپ نے بیان کیے تو مجھے خطرہ ہوا کہ کہیں میں وہ الفاظ سننے سے پہلے مرنہ جاؤں
انہوں نے جب وہ الفاظ سنائے وہ کہنے لگے اجازت دیجئے میں واپس چلتا ہوں عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ کوکھانے کی ضرورت ہے اور اس کے بعد واپس جاناہی ہے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا : اگر میں کھانے پینے اور آرام کرنے کی غرض سے رک
جاؤں تو یہ میرے مشن اور اخلاص کے منافی ہے جس کے لیے میں نے اتنا لمبا سفر کیا ہے ۔(ماخوذ از ’’مقالات تربیت‘‘)
بعض لوگ توحید، قیامت اور رسالت کے یکتا اصول کے تحت ارکان اسلام کو تاقیامت باقی اور جدید وقدیم کے تقاضوں سے ہم آہنگ قرار دیتے ہوئے اسلامی قانون کا مسلم اصول یہ بیان کرتے ہیں کہ جس کام سے شریعت میں منع نہیں کیا گیا تو اس کی اجازت ہے
۔
گویا انسان کے لیے کھلا میدان چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ فرائض وسنن اور مستحبات کی ادائیگی اور حرام ومکروہات سے اجتناب کرتے ہوئے وہ امور جن کی حلت وحرمت کے بیان سے شریعت خاموش ہے انہیں مباح اور جائز سمجھتے ہوئے ان میں جب چاہے جتنا
چاہے اضافہ کرے اور قولی، فعلی اور مالی عبادت میں آزاد ہے ۔
اگر کوئی شخص اس بات کو غلط کہے کہ جو عبادت سنت میں نہیں ہے تو اس کو جواب دیا جائے کہ اس کی ممانعت ثابت کرو حالانکہ جس عمل کی ممانعت بالصراحت نہیں وہ مباح کی ذیل میں آتا ہے اور فقہ اسلامی میں اس کا حکم کیا ہے ؟ ملاحظہ فرمائیں ۔
تمام اہل اسلام سے یہ بات مخفی نہیں کہ دین اسلام کامل ہے اور اس میں قیامت تک کے پیش آمدہ مسائل کا حل اور رہنمائی موجود ہے جو سعادت دارین کی کامیابی کی ضامن ہے ۔اور یہ دین وحی الہی سے ظہور پذیر ہوا اور یہ بنی نوع انسان کی زندگی کے ہر شعبے کو
محیط ہے ، تخلیق انسان کا مقصد وحید اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے اور عبادت کی حقیقت وتفصیل ازخود معلوم کرنا انسان کے بس میں ہر گز نہیں ہے ورنہ تو وحی کا انتظام ہی نہ ہوتا ، اسلام کے سارے نصاب کو شریعت سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس کے دو پہلو ہیں ایک
عبادات کا اور دوسرا معاملات باہمی کا ۔ یا یوں کہا جائے کہ دین اسلام حقوق اللہ اورحقوق العباد پر مشتمل ہے ، اللہ تعالیٰ کا حق اس کی عبادت ہے ، جس کی قبولیت کی دو شرطیں ہیں ، خلوص اور سنت نبوی ﷺ کی موافقت ۔ ان میں کوئی ایک شرط بھی مفقود ہو
گی تو عبادت رائیگاں ہو گی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان حدیث قدسی میں ہے :
أنا أغنی الشرکاء عن الشرک۔ میں تمام شریکوں کے شرک سے بے نیاز ہوں اور جس کام میں شرک شامل ہو میں مشرک او ر اس کے شرک سے دستبردار ہو جاتا ہوں اور اسے چھوڑ دیتا ہوں اور سنت کی موافقت نہ ہونے کی صورت میں آپ ﷺ نے فرمایا:
’’ جو میری سنت سے بے رغبتی کرے وہ مجھ سے نہیں ۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان دونوں شقوں کو ملحوظ رکھا اور ان میں کوتاہی کو عبادت میں کوتاہی سے تعبیر کیا ، مثلا: عبادت خواہ قولی ہے تو اس میں وصف کی تبدیلی کو بدعت، ضلالت اور گمراہی سے تعبیر کیا ۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود اور ابو موسیٰ اشعری
رضی اللہ عنہما اجلّہ صحابہ مسجد میں اسوہ نبی سے ہٹ کر ذکر الہی کرنے والوں کی سرزنش فرماتے ہیں اور اسے بدعت اور گمراہی سے تعبیر کرتے ہیں بلکہ ذا کرین کو فرماتے ہیں کہ اپنی خطائیں شمار کرو نیکیوں کے ہم ضامن ہیں ، اور کیا تمہار ا طریقہ رسول اللہ کے
طریقہ سے اچھا ہے ؟اوریہ حدیث صحیح ہے جس کی تفصیل کتب سنن میں دیکھی جا سکتی ہے ، اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عید گاہ میں نمازعید سے پہلے ایک شخص کو نما ز پڑ ھتے ہوئے دیکھا توا سے منع فرمایا اس نے کہا :میں نماز ہی تو پڑ ھ رہا ہوں تو فرمایا: جو
عبادت رسول اللہ ﷺ نے نہیں کی اس میں تم آپ ﷺ کی مخالفت کر رہے ہو بجائے ثواب عذاب پاؤ گے اور تیرا یہ نماز پڑ ھنا بھی عبث ہے اور عبث حرام ہے یہاں اس شخص نے یہ نہیں کہا کہ آپ ﷺ نے منع تو نہیں فرمایا یا کثرت عبادت عبث اور
حرام کیسے ہو گی ؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تیرا یہ نماز پڑ ھنا شاید رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کی وجہ سے عذاب الہٰی کا سبب بنے ۔
معلوم ہوا کہ عبادت کے کاموں میں اگر کوئی عمل بدون اذن شرع اور شارع علیہ الصلاۃ والسلام کے کیا جائے تو وہ مردودہو گا ۔ بعض لوگوں نے اہل اسلام کا مسلم اصول یہ پیش کیا ہے کہ اصل اشیاء میں اباحت اور مباح کو یہ مقام حاصل ہے کہ جتنا چاہیں کریں
خواہ عبادت قولی ، فعلی یا مالی ہو اور جس وقت چاہیں کریں اگر سنت ہونے کا استفسار کرے تو بڑ ی ڈھٹائی سے کہو کہ تم منع دکھاؤ ۔ اس جوابی نکتے کی تکرار کی تلقین کی جاتی ہے ۔
کتاب وسنت تو یہ تقاضا کرتی ہے کہ شریعت کی اتباع کی تلقین کریں اور من مرضی کے اضافوں کو بدعت سے تعبیر کریں لیکن یہاں اسلام کی ہمہ گیری اور وسعت کے تقاضے ہیں کہ ہر شخص مباح میں آزاد ہے اور امت مسلمہ کو مباح کی ڈھیل میں بدعت کی
دلدل میں دھکیلا جا رہا ہے ۔
مباح کی کیا حیثیت ہے ، اصول فقہ میں تواس کا فعل وترک برابر لکھا گیا ہے یعنی کرے تو ثواب ، نہ کرے تو گناہ نہیں ۔ (اصول فقہ کی کتابوں کا حوالہ )
یہ اس کی قانونی حیثیت ہے لیکن لوگ اسے تشریعی حکم کا درجہ دے رہے ہیں حالانکہ شارع علیہ السلام نے اسے نظرا نداز کر دیا ہے لہذا سنت کا مطالبہ کرنے والوں کے مقابلہ میں اس موقف سے مذکور عمل کی تشریع کا وہم پڑ تا ہے چنانچہ یہ عدم ثبوت اس کی
ممانعت کی دلیل ہو گا پھر یہ اصول متفقہ نہیں ہے امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اصل تحریم ہے ، یہ ملحوظ رہے کہ اہل سنت کے ائمہ اس با ت پر متفق ہیں کہ عبادت میں اصل یہ ہے کہ کوئی عبادت تب تک
مشروع نہ کہلائے گی جب تک شرع شریف سے اس کا اذن واجازت نہ ہو یعنی عبادات میں اصل تحریم ہے جیسا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’فروع فقہ شافعیہ ‘‘ میں جو کہ ’’الاشباہ والنظائر‘‘ کے نام سے مشہورہے میں
ص:۶۰ پر ذکر کیا ہے ۔ جب عبادات میں بدون اذن شرع اضافہ خواہ اصلی شکل میں یعنی مشروع عبادت کی شکل میں تبدیل حرام ہے اور آپ کے مباح پر جو فعلاً وترکاً برابر ہے ۔ حرام کا فتویٰ علی رضی اللہ عنہ نے لگایا ہے ، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی اصل تحریم کا
مورد بھی ہے اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بھی اس پر بدعت کا حکم لگایا ہے ۔
ہمارے لیے قرآن مجید اور احادیث مبارکہ آئینہ ہیں اگر کوئی ہمیں دکھائے تو سعادت مندی ہے ان سے ہماری غلطیوں کی اصلاح ہو سکتی ہے ۔
جملہ عبادات میں اصل ممانعت ہے الّا یہ کہ شرع اجازت دے ہم اپنی طرف سے اختراع نہیں کرسکتے اس لیے ائمہ محدثین نے رسول اللہ ﷺ کی اتباع کو جہاں فرض قرار دیا ہے وہاں کسی کام کے آپ سے عدم ثبوت کی بناپر ترک کرنے کو بھی ضروری قرار
دیا ہے ۔ چنانچہ اس کی تفصیل علامہ ملّا علی القاری اور الشیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے بیان کی ہے اور بالصراحت یہ لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے افعال مبارکہ کی فعلا وترکا اتباع ضروری ہے ، چنانچہ آپ ﷺ سے کسی عمل کے منقول نہ ہونے یعنی
عدم ثبوت اور عدم نقل پر اس کے مکروہ اوربدعت ہونے کا حکم لگایا گیا ہے جیسا کہ فجر کی سنتوں کے بعد مزید نوافل ادا کرنے کے بارے میں مذکور ہے ۔
قاضی ابراہیم حنفی فرماتے ہیں کہ جس فعل کا سبب رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں موجود ہو اور کوئی رکاوٹ بھی نہ ہو اور باوجود اس کی اقتضیٰ کے رسول اللہ ﷺ نے اسے نہ کیا ہو تو ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے دین کو بدلنا ہے کیونکہ اس کام میں کوئی مصلحت ہوتی
تو رسول اللہ ﷺ اس کام کو ضرور کرتے یا ترغیب فرماتے اور جب آپ ﷺ نے نہ خود کیا اور نہ کسی کو ترغیب دی تو معلوم ہوا کہ اس میں کوئی بھلائی نہیں ہے بلکہ وہ بدعت قبیحہ سیئہ ہے ۔
(نقائص الاظہار ، ترجمہ مجالس الابرار ص:۱۲۷)
مسکوت عنہ کے ترک پر صاحب ھدایہ کی رائے ملاحظہ کریں فرماتے ہیں ’’ لا یتنفل فی المصلی قبل صلوۃ العید لان النبی ﷺ لم یفعل ذالک مع حرصہ علی الصلوۃ‘‘
(ھدایۃ ۔ج:۱، ص:۱۵۳)
ترجمہ:’’ اور عید گاہ میں نماز سے پہلے نوافل نہ پڑ ھے کیونکہ نبی ﷺ نے باوجود نمازکی حرص کے ایسا نہیں کیا ‘‘
’’لایتنفّل‘‘ نہی اور ممانعت کا صیغہ ہے یہ کونسی نہی ہے آپ فیصلہ کریں تحریمی ہے ، تنزیہی ہے یا ارشادی کہ جس میں ترک ہر صور ت ہے اگر نفی کا صیغہ ہو تو یہ اس سے بھی ابلغ ہے اور عید گاہ میں نماز عید سے پہلے نفل نماز پڑ ھنے والے کو سیدنا علی رضی اللہ
عنہ نے نہ صرف روکا بلکہ اس فعل کو جو بظاہر نیکی ہے اور رسول اللہ ﷺ سے اس کی ممانعت کا ذکر بھی نہیں آیا، اسے عبث اور حرام ٹھہرایا اور اس کو رسول اللہ ﷺ کے عدم فعل اور عدم ثبوت کی وجہ سے اسے آپ ﷺ کی مخالفت تعبیر فرما کر اس کو
عذاب کا مستحق ٹھہرایا ہے ۔
مگر بعض لوگ مسکوت عنہ یعنی وہ مسائل جن میں خاموشی اختیار کی گئی ہے اس پر خاموش رہنے کی تلقین کے باوجود خود اس پر کاربند ہونے کا اظہار واعلان ہی نہیں بلکہ اس پر سنت کے حوالہ کے طلبگاروں کو فروعی مسائل میں الجھانے کا الزام بھی دیتے ہیں ۔
مذکورہ حوالہ جات سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سنت کی موافقت کے مطالبہ کی سوچ درست بھی ہے اور مفید بھی ، اور اس سے بڑ ھ کر پیارے پیغمبر ﷺ کی نافرمانی اور مخالفت سے بچنے کا ذریعہ بھی۔ اس لیے اگر آپ ﷺ کی اتباع میں ساری دنیا
سے اختلافات ہو جائیں تو کوئی پرواہ نہیں ہونی چاہیے ۔
انسان کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے اور اس کے باہمی معاملات کے درجہ سے رب تعالیٰ کا حق مقدم ہے اس کی ادائیگی میں اصل اور وصف کے لحاظ سے بدون اذن شرع کے ہم عبادت کا ایجاد واختراع نہیں کر سکتے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو
روایت حدیث ، درایت اور ہدایت میں کامل تھے انہوں نے تو عبادات میں رسول اللہ ﷺ کی ایک ایک ادا اور نوا اپنائی اور اس کی مخالفت تو کُجا اس سے سرِمُو انحراف بھی برداشت نہیں کیا جیسے کہ آدابِ دعا میں بعض صحابہ نے آپ ﷺ کے لیے ہاتھ اٹھانے
کی بلندی کے موافق ہاتھ نہ اٹھانے کو بدعت قرار دیا ہے ۔
بقول سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ :’’تمہارا دعا کے لیے اوپر ہاتھ اٹھانا بدعت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے سینے سے اوپر ہاتھ نہیں اٹھائے ‘‘ (مشکوٰۃ کتاب الدعوات)اب اس حدیث سے صحابہ کرام کی سوچ متعین ہوتی ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی سنت
کی عدم موافقت کو بدعت شرعی سے تعبیر کرتے تھے ، حالانکہ بعض لوگوں کے خیال میں شریعت میں مباح کے ضمن میں کھلا میدان ہے او ر دعا کیلئے جتنے ہاتھ اٹھائیں بلکہ جب چاہیں اٹھائیں سنت کی موافقت ہو نہ ہو۔
لہذا مباح کی اسا س پر عبادات کی عمارت تعمیر کرنے کو گمراہی سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے ، جب عبادات اصل مقصد زندگی ہیں تو ان کی اساس بھی کتاب وسنت ہے اور اختلافات کے وقت انہی دونوں سرچشموں سے ہی رفع اختلاف ہو سکتا ہے ۔ اس لئے
مسکوت عنہ مسائل جن کا تعلق عبادات سے ہے انہیں عبادا ت میں کھلی چھوٹ دینے کی بجائے اس پر کراہت ، حرام ہونے اور اس کے بدعت ہونے اور رسول اللہ ﷺ کی مخالفت ہونے کے سبب انہیں عذاب الہی کا مستوجب قرار دیا گیا ہے ۔ اس میں نہ شیخ
عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ اس مباح کے ہم نوا ہیں نہ شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی ہم نوا ہیں بلکہ انہوں نے ہر طرح سے اپنی بے زاری کا اعلان فرمایا ہے اور ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ ’’اطلبوا الاستقامۃ ولا تطلبوا الکرامۃ‘‘ کتاب وسنت پر استقامت مانگو اور کرامتوں کے
طلبگار نہ بنو ۔کیونکہ کرامت تو استقامت میں ہی ہے ۔ کتاب وسنت پر قناعت میں اختلاف ہو ہی نہیں سکتا البتہ خود ساختہ عبادات میں کوئی بضد واصرار کرے اور ان پر کتاب وسنت سے ثبوت مانگنے والے کو دین میں افتراق ڈالنے والے کہے تو یہ محل کو گرا جھونپڑ
ی میں ڈالنے والی بات ہے نبوت کا محل تو مکمل ہے مگر اس متعصب کے تقاضے پورے نہ ہوئے اور آپ ﷺ سے بڑ ھ کر متقی یا اللہ سے زیادہ ڈرنے کا اعتقاد لے کر عبادت میں مسابقہ درازی کرے تو اس کو قرآن وحدیث میں تکلف سے تعبیر کیا گیا ہے یعنی
تصنع اور بناوٹ فرمایا گیا ہے ، آپ ﷺ کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ آپ فرمادیں (وما انا من المتکلفین ) ’’میں تکلف کرنے والوں میں سے نہیں ہوں ‘‘
سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جسے امام ترمذی اور امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے جبن ، سمن اور فراء کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ حلال وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال فرما دیا
اور حرام وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا ہے اور جس سے اس نے خاموشی اختیار کی وہ اس کی طرف سے رحمت اور عفوہے ‘‘
اور حدیث کے اور بھی طُرق ہیں جن میں ہے کہ عفو سے خاموشی اختیار فرمائی ۔ حدیث پاک میں سوال کھانے پینے کی اشیاء سے ہے اور ’’فرا‘‘ حمار وحشی ہے ۔ نہ کہ عبادت سے اگر دونوں سے تعلق سمجھا جائے تو ہر ایک اپنی اصل کی طرف لوٹ جائے گی یعنی
عبادات میں اصل تحریم وممانعت ہو گی جب تک شرع اجازت نامہ جاری نہ کرے اور عادات ومعاملات وماکولات میں اصل اباحت ہو گی جب تک شرع منع نہ کرے جنگلی گدھے کے شکار کا تعلق بھی عبادات سے نہیں ہے ، ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ سے روایت
ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ اللہ تعالیٰ نے فرائض مقرر فرمائے انہیں ضائع نہ کرو اور بعض چیزوں سے نہی فرمائی ان کی حرمت کو پامال نہ کرو اور بعض چیزوں سے بھولے بغیر خاموشی اختیار کی ان سے بحث نہ کرو ‘‘
اور ایک روایت میں ہے کہ بہت سی باتوں سے بھولے بغیر خاموشی اختیار کی ان میں تکلف اختیا رنہ کرو جو تم پر رحمت فرمائی ہے اسے قبول کرو ۔
تکلف کے معنی میں امام راغب اصفہانی ’’مفردات القرآن ‘‘ میں رقم طراز ہیں ’’ کوئی کام کرتے وقت خوش دلی ظاہر کرنا باوجودیکہ اس کے کرنے میں مشقت پیش آ رہی ہو اس لیے عرف عام میں کلفت مشقت کو کہتے ہیں اور تکلف اس کام کے کرنے کو جو
مشقت بتصنّع یا اوپرے جی سے دکھاوے کے لیے کیا جائے اس لیے تکلیف دوقسم پر ہے ، محمود اور مذموم ، اگر کسی کام کو اس لیے محنت سے سرانجام دیا جائے کہ وہ کام اس پر سہل اور آسان ہو جائے اور اسے اس کام کے ساتھ خوش دلی اور محبت ہو جائے تو ایسا
تکلف محمود ہے چنانچہ اس معنی میں عبادات کا پابند بنانے میں تکلیف کا لفظ استعمال ہو ا ہے اور اگر وہ کام تکلف محض اور ریاکاری کیلئے ہو تو مذموم ہے اور آپ ﷺ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمانا کہ کہیے میں تکلف کرنے والوں میں سے نہیں اورحدیث پاک
میں ہے :
’’میں اور میری امت کے پرہیزگار لوگ تکلف سے اور بناوٹ سے بری ہیں ‘‘ اور فرمان الہی ہے : اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا (۲۔ ۲۸۶)
احادیث مبارکہ میں جہاں خاموشی کا ذکر ہو ا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شرع جس کسی چیز پر حکم میں اثبات اور ممانعت سے خاموش ہے وہ مسکوت عنہ میں شامل ہے اور وہ عفو کے قبیل سے ہے جس کا کرنا جائز اور مباح ہونا چاہئے لہذا ان کی مرضی سے اعمال
خواہ عبادات قولی ، فعلی یا مالی سے ہو یامعاملات دنیا سے وہ سب مسکوت عنہ کے تحت آتے ہیں ۔
لیکن جبکہ یہ محقق امر ہے کہ جو کام شرع کی اجازت کے بغیر حادث اور نو ایجاد ہو وہ بدعت اور ضلالت وگمراہی ہے اور بدعت ممنوع اور حرام ہے تو وہ چیزیں اور اعتقاد واعمال مسکوت عنہ نہ ہوئے ۔
مسکوت عنہ اس چیز کو کہتے ہیں جس کا حکم کسی خاص یا عام دلیل سے معلوم نہ ہو بلکہ عفو کی احادیث سے بدعت کی تردید ہوئی ہے اور تحدیدوتعیین وتخصیص کی وجہ سے بدعت عفو کی احادیث کے خلاف ہوئی اور اس کے معنی کے خلاف ہوئی جو آپ نے لیے ہیں
۔شیخ ملاعلی القاری شرح مشکوۃ میں لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی اتباع جس طرح آپ کے اعمال مبارکہ میں واجب ہے اسی طرح آپ ﷺ کے چھوڑ ے ہوئے کاموں میں بھی ضروری ہے سو جو شخص ایسے کام پر ہمیشگی اختیار کرے جسے شارع علیہ السلام
نے کیا ہی نہیں تو وہ مبتدع اور بدعتی ہے اور بدعت کے مرد ود اور ضلالت وگمراہی ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں کیونکہ وہ فعلاً رسول اللہ ﷺ کی مخالف ہوتی ہے ۔
تنبیہ: بعض لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ بدعات کو روکنے والے ہر نئے کام کو بدعت قبیحہ کہتے ہیں خواہ دین کا ہو یا دنیا کا ، یہ سراسر بہتان وافتراء ہے ۔ مانعین صرف اس بات کو بدعت قبیحہ کہتے ہیں جو دین میں بدون اذن شرع کے ایجاد کیا گیا ہو حالانکہ اس
کا تقاضا رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بدون معارض موجود ہو اور نیا متقاضی بدون معصیت عباد پیدا نہ ہوا ہو۔ مثال: جیسے عیدین کی اذان نہیں کہی جاتی تقاضا بلانے اور جمع کرنے کا موجود تھا کوئی مانع بھی نہ تھا اس کے باوجود اس کو دعوت الی اللہ کے دلائل
سے ثابت کر کے جاری کیا جا سکتا ہے لیکن ایسا نہ کرنا آپ ﷺ کی سنت ترکیہ کی اتباع ہے اور اب اگر کوئی اس کے لیے علت ومصلحت بیان کرے تو وہ معتبر نہ ہو گی کیونکہ شارع علیہ السلام نے اس علت کو نظرا نداز کر دیا ہے ۔ لہذا یہاں ممانعت کی دلیل نہ
ہونے کے باوجود اذان نہ کہی جائیگی۔ اور عام ادلّہ سے استدلال درست نہ ہو گا اگر مباح کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیا جائے اور ممانعت کی شریعت پاک سے دلیل طلب کی جائے تو اس سے شریعت محمدی ﷺ بازیچہ اطفال بن جائیگی ۔ حالانکہ اس کی حدود
وقیود ہیں جیسے کہ قرآن پاک کے الفاظ کی من مرضی کی تفسیر پر حدیث وسنت نے قدغن لگائی ہے جس کا مفاد یہ ہے کہ قرآن کے معانی اور بیان عرف نبوی او ر اسوئہ نبوی ﷺ کے پابندہیں اور (کان خُلُقُہ القُرآن ) کا یہی مقصد ہے کہ قرآن کا مطلوب اسوئہ
رسول ﷺ ، ا سوئہ کامل اور مجسم قرآن ہے ۔ اور آپ ﷺ کی اتباع ہی اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول اور اس کی بارگاہ میں نجات کا ذریعہ ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو محمد رسول اللہ ﷺ کی تابعداری کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔ (آمین)
ایسے بھی لوگ تھے
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہو ا کہ فلاں مسئلہ تو مجھے معلوم ہے لیکن جو الفاظ رسول اللہ ﷺ کی زبا ن سے نکلے تھے وہ بھول گیا ہوں تو وہی الفاظ سیدنا عبدا للہ بن انیس رضی اللہ عنہ کی زبان سے سننے کیلئے شام کے دارالحکومت دمشق پہنچے ۔ اس کے لیے
منڈی سے جا کر سواری خریدی اور سفر کیا وہاں پہنچ کر ان کے دروازے پر دستک دی اور کہا کہ میں جابر (رضی اللہ عنہ)ہوں ، آپ سے ملاقات کیلئے مدینہ منورہ سے آیا ہوں ، انہوں نے کہا : جابر بن عبد اللہ ؟ کہا : جی ہاں تو جلدی سے باہر تشریف لائے ، معانقہ
کیا اور بہت خوش ہوئے پھر دریافت کیا کہ آپ نے اتنا لمبا سفر کیوں کیا؟ فرمایا: مجھے پتہ چلا کہ آپ کو رسول اللہ ﷺ سے اس مسئلے کے بارے میں وہ الفاظ یاد ہیں جو اس وقت آپ نے بیان کیے تو مجھے خطرہ ہوا کہ کہیں میں وہ الفاظ سننے سے پہلے مرنہ جاؤں
انہوں نے جب وہ الفاظ سنائے وہ کہنے لگے اجازت دیجئے میں واپس چلتا ہوں عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ کوکھانے کی ضرورت ہے اور اس کے بعد واپس جاناہی ہے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا : اگر میں کھانے پینے اور آرام کرنے کی غرض سے رک
جاؤں تو یہ میرے مشن اور اخلاص کے منافی ہے جس کے لیے میں نے اتنا لمبا سفر کیا ہے ۔(ماخوذ از ’’مقالات تربیت‘‘)