از الشیخ ضیاءالرحمٰن
کسی بھی معاشرے کی بنیاد اور اساس اس وقت مضبوط اور مستحکم ہو سکتی ہے جب اس کے افراد کی ذہنی وفکری تربیت میں کسی قسم کی کمی نہ ہو ۔ افراد معاشرہ کو اخلاق کریمانہ سے روشناس کروا کر رذیلہ اخلاق وعادات سے محفوظ کرنا ہی اصل کامیابی ہے اسی لئےرسول مکرم ﷺ نے مدینہ منورہ پہنچ کر مدنی معاشرہ کی بنیاد اخوت اسلامی پر رکھی جس سے چند سالوں میں اسلام اکناف عالم میں پھیل گیا۔آج بھی تبلیغ اسلام اور ترویج دین حنیف کے لیے اخوت اسلامی اور اتحاد بین المسلمین کا مظاہرہ کرنا ہو گا ارشاد رب العزت ہے :
﴿یا ایھا الناس! ﴿اِنَّا خَلَقنٰٰکُم مِن ذَکَرٍ وَ اُنثٰی وَجَعَلنٰکُم شُعُوبًا وَّ قَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۔ اِنَّ اَکرَمَکُم عِندَاللّٰہِ اَتقٰٰکُم﴾ (الحجرات :13)اے انسانو! ہم نے تمہیں ایک مرد و عورت سے پیدا کیا اور تمہیں گروہ اور قبائل بنایا تاکہ تم ایک د کوپہچان سکو۔ بے شک اللہ کے نزدیک عزت والا وہی ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے ۔
قرآن و حدیث کی ان تصریحات سے یہ تو واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام کسی ذات پات، رنگ، نسل اور قومیت کو فضیلت کی بنیادنہیں مانتا بلکہ صرف اور صرف تقوی اور پرہیز گاری کو ہی فضیلت کا معیار قرار دیتا ہے ۔ ظاہر ہے کوئی اپنی نیکیوں کی بنیاد پر دوسروں کوحقیرنہیں سمجھ سکتا اور نہ ہی اسے کمتر قرار دے سکتا ہے ورنہ اس کا اپنا تقوی خطرے میں پڑجائے گا۔
نسلی و قومی امتیاز کے تصورات دنیا کی ہر قوم میں پائے جاتے ہیں ۔ ہر کوئی اپنی قوم، اپنے رنگ، اپنی نسل اور اپنے نظریے کو دوسروں سے برتر سمجھتا ہے ۔ وہ یہ خیال کرتا ہے کہ برتری صرف اس کے ہاں پائی جاتی ہے اور باقی سب کمتر ہیں ۔ یہی تفاخر اور غرورآگے چل کر نفرتوں ، دوریوں ، کدورتوں ، مقابلوں اور جنگوں کی صورت اختیار کر جاتا ہے جس کے نتیجے میں دنیا کا امن تہہ وبالا کر کے رکھ دیتا ہے ۔
دنیا کے تمام مذاہب میں یہ امتیاز صرف اسلام کو حاصل ہے کہ اس نے ہرکام میں نہایت اعتدال قائم رکھا ہے قبل از اسلام دنیا میں ہر سطح پر جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا جارحانہ اصول ذات پات کی اونچ نیچ اور رنگ ونسل کالے وگورے کا امتیاز رائج تھا جرائم کی سزا بھی شخصیات وخاندانوں کی حشم ومنزلت دیکھ کر دی جاتی پھر جب اللہ تعالیٰ کی رحمت کاملہ اسلام کی صورت میں اہل عالم کی طرف متوجہ ہوئی تو اس نے ان گم گشتہ راہ انسانوں کو یہ باور کرایا کہ تم ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہو چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے :
خلقکم من نفس واحدۃ (النساء:۱ )یعنی تمہیں ایک ہی ماں باپ سے پیدا کیا۔ اسی کی تشریح کرتے ہوئے رسول رحمت ﷺنے حجۃ الوداع کے خطبہ میں ارشاد فرمایا:یایہا الناس ا لا ان ربکم واحد وان اباکم واحد الالافضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لأسود علی احمر ولا لأحمر علی اسود الا بالتقوی۔(مسند احمد) ترجمہ:۔اے لوگو!خبردارتمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے خبر دار!کسی عربی کو عجمی پر یا عجمی کو عربی پر یا کالے کو سرخ پر اور نہ سرخ کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل ہے سوائے تقویٰ کے ‘‘یہی مضمون قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا:﴿ان ا کرمکم عند اللہ اتقاکم﴾ (حجرات:۱۳)
ترجمہ :یقیناً تم میں سب سے زیادہ صاحب عزت اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے ۔ غرض یہ کہ اسلام نے ﴿ان ا کرمکم عند اللہ اتقاکم﴾ کے قاعدہ سے ذات پات کی اونچ نیچ نسلی اور لسانی امتیازات کو یکسر مٹا کر شرافت ورذالت کا معیار صرف اور صرف تقویٰ اور اطاعت الٰہیہ کو قرار دیا اور’’ انما المؤمنون اخوۃ ‘‘(بے شک تمام مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں )کا اصول وضع کر کے کالے حبشیوں سرخ وگورے ترکیوں ورومیوں نچلی ذات کے عجمیوں اور عرب کے قریشیوں اور ہاشمیوں کو بھائی بھائی بنادیا۔اور﴿ خلقکم فمنکم کافر ومنکم مؤمن﴾(التغابن :۲)کے ضابطہ سے قومیت اس بنیاد پر قائم کی کہ ایمان والے ایک قوم اور بے ایمان دوسری قوم یہی وہ بنیاد ہے جس نے ابو جہل اور ابو لہب کے خونی رشتوں کو توڑ کر بلال حبشی رضی اللہ عنہ صہیب رومی رضی اللہ عنہ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا رشتہ محسن انسانیت ﷺسے جوڑ دیا۔
اسی اسلامی دو قومی نظریہ کی رو سے یہ بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ قومیت کی بنیاد صرف ایمان وکفر ہی ہو سکتی ہے رنگ ونسل زبان و وطن ایسی چیزیں ہیں ہی نہیں جو انسان کو مختلف گروہوں میں بانٹ سکیں چنانچہ اسلام نے زمانۂ جاہلیت کی نسبی و وطنی بنیاد گرا کر ایمانی وکفری بنیاد قائم کر کے پھر’’ ان ا کرمکم عند اللہ اتقاکم ‘‘کے ذریعہ یہ بھی وضاحت کر دی کہ فضیلت کا معیار صرف مسلمان ہوکر کسی خاص برادری میں سے ہونا نہیں ہے بلکہ پھر فضیلت کا معیار وکسوٹی تقویٰ ہے مرد کو عورت پر عرب کو عجم پر اگر کچھ فضیلت ہے بھی تو وہ تقویٰ ہی کی بنیاد پر ہے ۔
خدارا ہوش کے ناخن لیجئے ! ہم بھی مسلمان اور آپ بھی مسلمان ہونے کے دعویدار ہیں اور ہم اس نبی کریم ﷺ کو ماننے والے ہیں جنہوں نے ’’انما المؤمنون اخوۃ‘‘ کا علم بلند کر کے خون کے پیاسوں ، جانی دشمنوں اور کٹر متعصبین کے درمیان بھائی بھائی کا رشتہ جوڑ دیا اور فرمایا کہ:المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ۔(بخاری ، کتاب الایمان)
ترجمہ: سچا مسلمان وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ۔ نبی رحمت ﷺ فرقہ پرستی اور تعصب کے درخت پر یوں تیشہ چلا تے ہیں :
لیس منا من دعا الی عصبیۃ ولیس منا من قاتل عصبیۃ ولیس منا من مات علی عصبیۃ۔ (رواہ ابوداؤ)
ترجمہ:وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو عصبیت کی طرف بلائے تعصب کے طور پر لڑ ے اور تعصب پر مرے ۔ نبی کریم انے کٹر دشمنوں اور خون کے پیاسوں کی ایسی تربیت واصلاح کی جن کی اخوت کی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے ۔
صرف چوبیس سال کے عرصے میں اس تعصب پرستی نے ملک کو دو حصوں میں تقسیم کرڈالا۔ اس کے بعد سے وطن عزیز پنجابی، سندھی ، پٹھان، بلوچ اور مہاجر کی قوم پرستیوں میں گھرا ہوا ہے ۔ انہی قوم پرستیوں کے نتیجے میں ملک کا سب سے بڑ ا شہر کراچی دو عشرے تک خون اور آگ کی ہولی کا شکار رہا ہے ۔ یہ قوم پرستیاں مفاد پرست طبقے کی پھیلائی ہوئی ہیں ۔
دین اسلام اپنے ماننے والوں کو علاقے اور زبان کی بنیاد پر تقسیم ہونے سے بچاتا ہے اور انہیں ایک ہی لڑی میں پرو کر بنیان مرصوص یعنی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننے کی تلقین کرتا ہے ۔ اگر تحریک پاکستان سے لے کر آج تک ہمارے لیڈر اور عوام صحیح اسلامی روح کے ساتھ ایک امت مسلمہ بننے کی کوشش کرتے اور انہی بنیادوں پر پاکستان کی تعمیر کی کوشش کرتے تو نہ بنگلہ دیش بنتا اور نہ ہی کوئی اور لسانی جھگڑ ا کھڑ ا ہوتا۔
ہمارا دین ہمیں ایک قوم پرست گروہ بننے کی بجائے ایک امت بننے کا حکم دیتا ہے جو خالصتاً اخلاقی اصولوں کی بنیاد پر اٹھے اور دنیا میں حق و صداقت کا پرچار کرے ۔ دین اسلام کی تمام تعلیمات ہمیں ہر قسم کے امتیاز سے بچ کر خالصتاً اللہ کا ہوجانے کی دعوت دیتی ہیں ۔ یہ ہمارے لئے شرم کا باعث ہے کہ ہمارے پاس ہدایت کا نور ہوتے ہوئے بھی اہل مغرب ان نسلی، علاقائی، مذہبی، اور لسانی تعصبات سے نجات حاصل کرنے میں ہم سے آگے نکل گئے ہیں ۔ وہاں امتیاز کے خلاف (Anti-Discrimination) قوانین بنائے جا چکے ہیں اور میڈیا کے ذریعے عوام الناس میں اس کا شعور بھی بیدار کیا جا رہا ہے ۔
اگر ہم اپنے دین کی تعلیمات سے صحیح معنوں میں فیض یاب ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اندر سے ہر قسم کے تعصبات اور امتیازات کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ اس وقت ہمارے معاشرے کی یہ ضرورت ہے کہ نسلی اور قومی امتیازات کے خلاف دین اسلام کی ان تمام تعلیمات کو عام کیا جائے اور معاشرتی نظام کو عدل اور مساوات کے اسلامی اصولوں کے تحت استوار کیا جائے ۔
محترم قارئین ! ہمیں اپنے اندر اتحاد واتفاق پیدا کرنے اورگروہی لسانی ، علاقائی ، نسلی ، اور مذہبی عصیبتوں کو فنا کر دینے کی ضرورت ہے تب ہی ہمیں کامیابی وکامرانی نصیب ہو گی وگرنہ ذلت وخواری کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا۔
کسی بھی معاشرے کی بنیاد اور اساس اس وقت مضبوط اور مستحکم ہو سکتی ہے جب اس کے افراد کی ذہنی وفکری تربیت میں کسی قسم کی کمی نہ ہو ۔ افراد معاشرہ کو اخلاق کریمانہ سے روشناس کروا کر رذیلہ اخلاق وعادات سے محفوظ کرنا ہی اصل کامیابی ہے اسی لئےرسول مکرم ﷺ نے مدینہ منورہ پہنچ کر مدنی معاشرہ کی بنیاد اخوت اسلامی پر رکھی جس سے چند سالوں میں اسلام اکناف عالم میں پھیل گیا۔آج بھی تبلیغ اسلام اور ترویج دین حنیف کے لیے اخوت اسلامی اور اتحاد بین المسلمین کا مظاہرہ کرنا ہو گا ارشاد رب العزت ہے :
﴿یا ایھا الناس! ﴿اِنَّا خَلَقنٰٰکُم مِن ذَکَرٍ وَ اُنثٰی وَجَعَلنٰکُم شُعُوبًا وَّ قَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۔ اِنَّ اَکرَمَکُم عِندَاللّٰہِ اَتقٰٰکُم﴾ (الحجرات :13)اے انسانو! ہم نے تمہیں ایک مرد و عورت سے پیدا کیا اور تمہیں گروہ اور قبائل بنایا تاکہ تم ایک د کوپہچان سکو۔ بے شک اللہ کے نزدیک عزت والا وہی ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے ۔
قرآن و حدیث کی ان تصریحات سے یہ تو واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام کسی ذات پات، رنگ، نسل اور قومیت کو فضیلت کی بنیادنہیں مانتا بلکہ صرف اور صرف تقوی اور پرہیز گاری کو ہی فضیلت کا معیار قرار دیتا ہے ۔ ظاہر ہے کوئی اپنی نیکیوں کی بنیاد پر دوسروں کوحقیرنہیں سمجھ سکتا اور نہ ہی اسے کمتر قرار دے سکتا ہے ورنہ اس کا اپنا تقوی خطرے میں پڑجائے گا۔
نسلی و قومی امتیاز کے تصورات دنیا کی ہر قوم میں پائے جاتے ہیں ۔ ہر کوئی اپنی قوم، اپنے رنگ، اپنی نسل اور اپنے نظریے کو دوسروں سے برتر سمجھتا ہے ۔ وہ یہ خیال کرتا ہے کہ برتری صرف اس کے ہاں پائی جاتی ہے اور باقی سب کمتر ہیں ۔ یہی تفاخر اور غرورآگے چل کر نفرتوں ، دوریوں ، کدورتوں ، مقابلوں اور جنگوں کی صورت اختیار کر جاتا ہے جس کے نتیجے میں دنیا کا امن تہہ وبالا کر کے رکھ دیتا ہے ۔
دنیا کے تمام مذاہب میں یہ امتیاز صرف اسلام کو حاصل ہے کہ اس نے ہرکام میں نہایت اعتدال قائم رکھا ہے قبل از اسلام دنیا میں ہر سطح پر جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا جارحانہ اصول ذات پات کی اونچ نیچ اور رنگ ونسل کالے وگورے کا امتیاز رائج تھا جرائم کی سزا بھی شخصیات وخاندانوں کی حشم ومنزلت دیکھ کر دی جاتی پھر جب اللہ تعالیٰ کی رحمت کاملہ اسلام کی صورت میں اہل عالم کی طرف متوجہ ہوئی تو اس نے ان گم گشتہ راہ انسانوں کو یہ باور کرایا کہ تم ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہو چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے :
خلقکم من نفس واحدۃ (النساء:۱ )یعنی تمہیں ایک ہی ماں باپ سے پیدا کیا۔ اسی کی تشریح کرتے ہوئے رسول رحمت ﷺنے حجۃ الوداع کے خطبہ میں ارشاد فرمایا:یایہا الناس ا لا ان ربکم واحد وان اباکم واحد الالافضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لأسود علی احمر ولا لأحمر علی اسود الا بالتقوی۔(مسند احمد) ترجمہ:۔اے لوگو!خبردارتمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے خبر دار!کسی عربی کو عجمی پر یا عجمی کو عربی پر یا کالے کو سرخ پر اور نہ سرخ کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل ہے سوائے تقویٰ کے ‘‘یہی مضمون قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا:﴿ان ا کرمکم عند اللہ اتقاکم﴾ (حجرات:۱۳)
ترجمہ :یقیناً تم میں سب سے زیادہ صاحب عزت اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے ۔ غرض یہ کہ اسلام نے ﴿ان ا کرمکم عند اللہ اتقاکم﴾ کے قاعدہ سے ذات پات کی اونچ نیچ نسلی اور لسانی امتیازات کو یکسر مٹا کر شرافت ورذالت کا معیار صرف اور صرف تقویٰ اور اطاعت الٰہیہ کو قرار دیا اور’’ انما المؤمنون اخوۃ ‘‘(بے شک تمام مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں )کا اصول وضع کر کے کالے حبشیوں سرخ وگورے ترکیوں ورومیوں نچلی ذات کے عجمیوں اور عرب کے قریشیوں اور ہاشمیوں کو بھائی بھائی بنادیا۔اور﴿ خلقکم فمنکم کافر ومنکم مؤمن﴾(التغابن :۲)کے ضابطہ سے قومیت اس بنیاد پر قائم کی کہ ایمان والے ایک قوم اور بے ایمان دوسری قوم یہی وہ بنیاد ہے جس نے ابو جہل اور ابو لہب کے خونی رشتوں کو توڑ کر بلال حبشی رضی اللہ عنہ صہیب رومی رضی اللہ عنہ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا رشتہ محسن انسانیت ﷺسے جوڑ دیا۔
اسی اسلامی دو قومی نظریہ کی رو سے یہ بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ قومیت کی بنیاد صرف ایمان وکفر ہی ہو سکتی ہے رنگ ونسل زبان و وطن ایسی چیزیں ہیں ہی نہیں جو انسان کو مختلف گروہوں میں بانٹ سکیں چنانچہ اسلام نے زمانۂ جاہلیت کی نسبی و وطنی بنیاد گرا کر ایمانی وکفری بنیاد قائم کر کے پھر’’ ان ا کرمکم عند اللہ اتقاکم ‘‘کے ذریعہ یہ بھی وضاحت کر دی کہ فضیلت کا معیار صرف مسلمان ہوکر کسی خاص برادری میں سے ہونا نہیں ہے بلکہ پھر فضیلت کا معیار وکسوٹی تقویٰ ہے مرد کو عورت پر عرب کو عجم پر اگر کچھ فضیلت ہے بھی تو وہ تقویٰ ہی کی بنیاد پر ہے ۔
خدارا ہوش کے ناخن لیجئے ! ہم بھی مسلمان اور آپ بھی مسلمان ہونے کے دعویدار ہیں اور ہم اس نبی کریم ﷺ کو ماننے والے ہیں جنہوں نے ’’انما المؤمنون اخوۃ‘‘ کا علم بلند کر کے خون کے پیاسوں ، جانی دشمنوں اور کٹر متعصبین کے درمیان بھائی بھائی کا رشتہ جوڑ دیا اور فرمایا کہ:المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ۔(بخاری ، کتاب الایمان)
ترجمہ: سچا مسلمان وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ۔ نبی رحمت ﷺ فرقہ پرستی اور تعصب کے درخت پر یوں تیشہ چلا تے ہیں :
لیس منا من دعا الی عصبیۃ ولیس منا من قاتل عصبیۃ ولیس منا من مات علی عصبیۃ۔ (رواہ ابوداؤ)
ترجمہ:وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو عصبیت کی طرف بلائے تعصب کے طور پر لڑ ے اور تعصب پر مرے ۔ نبی کریم انے کٹر دشمنوں اور خون کے پیاسوں کی ایسی تربیت واصلاح کی جن کی اخوت کی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے ۔
صرف چوبیس سال کے عرصے میں اس تعصب پرستی نے ملک کو دو حصوں میں تقسیم کرڈالا۔ اس کے بعد سے وطن عزیز پنجابی، سندھی ، پٹھان، بلوچ اور مہاجر کی قوم پرستیوں میں گھرا ہوا ہے ۔ انہی قوم پرستیوں کے نتیجے میں ملک کا سب سے بڑ ا شہر کراچی دو عشرے تک خون اور آگ کی ہولی کا شکار رہا ہے ۔ یہ قوم پرستیاں مفاد پرست طبقے کی پھیلائی ہوئی ہیں ۔
دین اسلام اپنے ماننے والوں کو علاقے اور زبان کی بنیاد پر تقسیم ہونے سے بچاتا ہے اور انہیں ایک ہی لڑی میں پرو کر بنیان مرصوص یعنی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننے کی تلقین کرتا ہے ۔ اگر تحریک پاکستان سے لے کر آج تک ہمارے لیڈر اور عوام صحیح اسلامی روح کے ساتھ ایک امت مسلمہ بننے کی کوشش کرتے اور انہی بنیادوں پر پاکستان کی تعمیر کی کوشش کرتے تو نہ بنگلہ دیش بنتا اور نہ ہی کوئی اور لسانی جھگڑ ا کھڑ ا ہوتا۔
ہمارا دین ہمیں ایک قوم پرست گروہ بننے کی بجائے ایک امت بننے کا حکم دیتا ہے جو خالصتاً اخلاقی اصولوں کی بنیاد پر اٹھے اور دنیا میں حق و صداقت کا پرچار کرے ۔ دین اسلام کی تمام تعلیمات ہمیں ہر قسم کے امتیاز سے بچ کر خالصتاً اللہ کا ہوجانے کی دعوت دیتی ہیں ۔ یہ ہمارے لئے شرم کا باعث ہے کہ ہمارے پاس ہدایت کا نور ہوتے ہوئے بھی اہل مغرب ان نسلی، علاقائی، مذہبی، اور لسانی تعصبات سے نجات حاصل کرنے میں ہم سے آگے نکل گئے ہیں ۔ وہاں امتیاز کے خلاف (Anti-Discrimination) قوانین بنائے جا چکے ہیں اور میڈیا کے ذریعے عوام الناس میں اس کا شعور بھی بیدار کیا جا رہا ہے ۔
اگر ہم اپنے دین کی تعلیمات سے صحیح معنوں میں فیض یاب ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اندر سے ہر قسم کے تعصبات اور امتیازات کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ اس وقت ہمارے معاشرے کی یہ ضرورت ہے کہ نسلی اور قومی امتیازات کے خلاف دین اسلام کی ان تمام تعلیمات کو عام کیا جائے اور معاشرتی نظام کو عدل اور مساوات کے اسلامی اصولوں کے تحت استوار کیا جائے ۔
محترم قارئین ! ہمیں اپنے اندر اتحاد واتفاق پیدا کرنے اورگروہی لسانی ، علاقائی ، نسلی ، اور مذہبی عصیبتوں کو فنا کر دینے کی ضرورت ہے تب ہی ہمیں کامیابی وکامرانی نصیب ہو گی وگرنہ ذلت وخواری کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا۔
بتان رنگ وبو کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ ایرانی رہے باقی نہ تورانی نہ افغانی