Tuesday, March 2, 2010

حقوق نسواں اسلام کی روشنی میں

قسط نمبر ۴
از محترمہ ڈاکٹر طاہرہ کوکب
فرائض :
بیوی کے جہاں شریعت نے بہت سے حقوق بیان کئے ہیں وہیں اس پر کچھ فرائض بھی عائد کئے ہیں ۔ اور اس حد تک بڑ ھے ہوے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا اگر اللہ کے علاوہ کسی کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو بیویوں کو حکم دیتا کہ ان تسجد لزوجھا ’’شوہروں کو سجدہ
کریں ‘‘
عورت کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ پاک دامن رہے ۔ دوسرا یہ کہ شوہر کی ناشکری نہ کرے ارشاد نبوی ﷺ ہے :
لا ینظر اللہ الی امراۃ لا تشکر لزوجھا ۔
’’اللہ ایسی عورت پر رحمت کی نظر نہیں ڈالتا جو شوہر کی نا شکری کرتی ہے ۔ ‘‘
بیوی کا تیسرا فرض یہ ہے کہ شوہر کی غیر موجودگی میں اس کے مال اس کی اولاد کی صحیح طرح حفاظت و نگرانی کرے ، آپ ﷺ نے فرمایا :
والمرأۃ فی بیت زوجھا راعیہ ۔ (صحیح البخاری ، کتاب العتق، ۲۵۵۸)
’’عورت شوہر کے گھر کی نگران ہے ، قیا مت کے دن اس سے ا سکی باز پرس کی جائے گی ۔ ‘‘
بیوی کا چو تھا فریضہ یہ ہے کہ وہ شوہر کی ہر جائز حکم میں اطاعت کرے اور حقوق زو جیت کے لئے جب شوہر مدعو کرے تو اس کی اطاعت کرے حتی کہ نفلی روزہ تک شوہر کی اجازت سے رکھنے اور اس کے مطالبہ پر توڑ نے کا آپ ﷺ نے حکم دیا ہے ۔ شوہر سے
ادب سے بات کرنا اس کے عزیزوں کی عزت کرنا ۔ اہم فرائض میں داخل ہے ۔
خواتین کے حقوق و فرائض بحیثیت ماں سیرت طیبہ کی روشنی میں :
جس کے پیروں تلے جنت کے ایوان و چمن
جس کے دم سے جگمگاتا ہے شبستان سخن
عورت کی ایک حیثیت ماں کی ہے ۔ انسانی زندگی کا یہ آخری سٹیج ہے ۔ اور یہی مقام سب سے زیادہ اہم ہے ۔ اس لئے سب سے آخر میں اس پر روشنی ڈال رہی ہوں ۔ اسلام نے ماں کو جو مقام اور حقوق عطا کئے ہیں اس کی نظیر ملنا مشکل ہے ۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے
:
الجنۃ تحت اقدام الامھات ۔
ترجمہ : ’’جنت ماں کے قدموں تلے ہے ‘‘
ارشا د باری تعالی ہے :
’’ہم نے والدین سے حسن سلوک کی نصیحت کی ہے ۔اس لئے کہ ماں نو ماہ تک پیٹ میں پرورش کی تکلیف اٹھاتی ہے پھر پیدائش کی تکلیف اس کے بعد اپنے خون سے بنے ہوئے دودھ سے سیراب کرتی اور اس کی پرورش میں رات کی نینداور دن کا سکون صرف
کرتی ہے ‘‘
ماں کو وہی حقوق حاصل ہیں جو میں بیویوں کے حقوق میں بیان کر چکی ہوں ۔ اس کے علاوہ کچھ یہ ہیں ۔
﴿۲۱﴾بچی کی پرورش کاحق : اس پر میں بچیوں کے حقوق کے ضمن میں لکھ چکی ہوں ، یہاں اتنی وضاحت ضروری ہے کہ بچہ کو سات سال تک اور بچی کو بلوغت تک اپنے پاس رکھنا ماں کا حق ہے ۔ طلاق یا خلع کی صورت میں جو شوہر اولاد چھین لیتے ہیں وہ ظلم
کرتے ہیں ،
ماں سے بچہ کو جدا کر کے اس کو تکلیف نہیں پہنچانی جاہئے ۔
آپ ﷺ نے ایک کیس کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا:
(انت احق بہ ما لم تنکحی ۔(سنن ابوداؤد، کتاب الطلاق، ۲۲۷۶)
’’جب تک تم نکاح ثانی نہیں کرتیں اس وقت تک تم ہی پرورش کی حق دار ہو ، البتہ اخراجات شوہر کے ذمہ لازم ہیں ‘
﴿۲۲﴾عزت واحترام کا حق : ماں کی عزت واحترام باپ سے بھی زیادہ ہے ۔ اسلئے کہ آپ ﷺ نے ماں کو باپ پر ایک درجہ زیادہ حق دار قرار دیا ہے ۔ ماں چاہے سگی ہو یا سوتیلی یا رضاعی دودھ پلانے والی ہو یا غیر مسلم ہر حال میں حکم یکساں ہے ۔ اسی لئے
واضح حکم دیا گیا کہ انہیں اف بھی نہ کہو ۔ دادا، دادی ، نانا نانی اسی حکم میں ہیں ۔ اگر خلاف شرع کوئی حکم دیں تو اطاعت لازم نہیں لیکن بے عزتی کا پھر بھی حق نہیں ہے ۔
﴿۲۳﴾کفالت کا حق : ماں کی کفالت یعنی ان کے کھانے پینے لباس رہائش کے اخراجات شوہر کے بعد اولاد کے ذمہ ہیں ، اگر اولاد کفالت نہ کرے تو ماں عدالت سے انہیں پابند کروا سکتی ہے ، البتہ اگر اولاد خود غریب ہو تو پھر وہ اس حق کا مطالبہ نہیں کر سکتی ہے ۔
﴿۲۴﴾عقد ثانی کا حق : اگر کسی عورت کے شوہر کا انتقال ہو جائے تو ماں کو دوسرے نکاح کا حق حاصل ہے جیسا کہ میں اوپر نکاح کے حق میں لکھ چکی ہوں ، ایسے موقع پر اولاد یا رشتہ داروں کو اسے اپنی غیرت کے خلاف سمجھنا غلط ہے ۔
فرائض :
حقوق کے ساتھ کچھ فرائض بھی لازم کئے گئے ہیں کہ بحیثیت ماں کے شوہر کی غیر موجودگی میں وہ گھر کی سرپرست ہے ۔ جیسا کہ ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ : ’’والمرائۃ راعیۃ‘‘ لہذا شوہر کی غیر موجودگی میں اس کے مال کی حفاظت اپنی آبرو کی حفاظت اور اولاد کی
اعلی تربیت ماں کے فرائض میں شامل ہے ا سکے علاوہ وہی فرائض ہیں جن کا میں اوپر بیوی کے فرائض میں ذکر کر چکی ہو ں ۔
خواتین کے مشترکہ حقوق سیرت طیبہ ﷺ کی روشنی میں :
یہاں تک میں نے ان حقوق کا تذکرہ کیا ہے جو غالب درجہ میں خواتین کی کسی ایک حیثیت یعنی بیٹی ، بہن ، بیوی اور ماں سے متعلق تھے ، اب یہاں میں ان حقوق کا تذکرہ کر رہی ہوں جو ان چاروں میں مشترکہ ہیں یعنی سب کے حقوق ہیں ۔
﴿۳۴﴾زندگی کا حق :
اسلام میں ایک انسان کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے اور ایک انسان کی زندگی بچانے کو سارے انسانوں کی زندگی بچانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے ۔ اہل عرب کے بعض قبائل میں بچیوں کو زندہ درگور کر نے کی رسم بدتھی ، بچیوں کی پیدائش پر
شرم سے منہ چھپا تے پھرتے تھے ۔ انہیں قتل کرنے میں عزت کا تحفظ سمجھتے تھے ۔ قتل کے پیچھے دو فلسفے تھے ، ایک عزت کا تحفظ دوسرے اسے زندگی بھر کھلانا پڑ ے گا ، قرآن کریم نے سؤرہ التکویر میں پہلے فلسفے اور سؤرہ الانعام میں دوسرے فلسفے کا رد کیا ہے ،
اسلام کی بدولت عرب سے یہ قبیح رسم ختم ہو گئی ، لیکن زندگی ضائع کرنے کا حق پہلے بھی یو رپ میں رائج تھا جیسا اسقاط حمل کی صورت اور اس کے پیچھے یہ فلسفہ؛ تھا کہ جس نے پیدا کیا ہے اسے مارنے کا بھی حق ہے ، پھر ہندوؤں میں ’’ستی ‘‘کی رسم کے نام پر
عورتوں کاقتل ہوتا رہا ۔ اسلام نے خواتین کو زندگی کا تحفظ عطا فرمایا ، حتی کہ جہاد کے موقع پر آپ ﷺ نے ایک خاتون کی لاش دیکھ کر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔
یعنی عورتو ں اور بچے بچیوں کو ایسے موقع پر بھی قتل کی اجازت نہیں ۔
بقول الطاف حسین حالی :
جو ہوتی تھی پیدا کسی گھر میں دختر
تو خوف شماتت سے بے رحم مادر
پھر یہ دیکھتی جب شوہر کے تیور
کہیں زندہ گاڑ آتی تھی اس کو جا کر
وہ گود ایسی نفرت سے کرتی تھی خالی
جنے سانپ جیسے کوئی جننے والی
﴿۲۵﴾وراثت کا حق :
اسلام سے پہلے دنیا کے کسی مذہب میں عورت کو وراثت کا حقدار تسلیم نہیں کیا گیا ۔ مولانا وحیدالدین خان لکھتے ہیں :
’’قدیم دنیا میں مختلف توہماتی خیالات کے تحت عورت کو حقیر سمجھ لیا گیا تھا ۔ اس کے نتیجے میں عورت کو جن حقوق سے محروم کیا گیا ان میں سے ایک جائیداد کا حصہ تھا ۔ خاندان کی جائداد میں عورت کا حصہ ختم کر دیا گیا یہ اسلام ہی تھا جس نے تاریخ میں پہلی بار
باقاعدہ طور پر عورتو ں کا حصہ مقرر کیا ۔ J.Mرابرٹس نے لکھا ہے :
Its coming was an many ways revolutionary , It kept women , for example , in an inferior position , but gave them legal rights over prolperty not available to
women in many European Conturies Until the nineteenth Century. Even the slave had rights and inside the communety of the believers there were no castes nor in
hearted status. This revolution was rooted in a religion which like that of the jaws was not distinct from other sides of life, but embraced thim all. (J.M. Roberts)
اسلام کی آمد بہت سے پہلوؤں سے انقلابی تھی ، مثال کے طور پر اس نے عورتوں کو مردوں کے مقابلہ میں اگر چہ کم درجہ دیا مگر اس نے عورتوں کو جائداد پر قا نونی حق دیا جو کہ یورپ کے اکثر ملکوں کی عورتوں کو ۱۹ویں صدی عیسوی تک بھی حاصل نہ ہو سکتا
تھا ۔ حتی کہ غلام بھی حق رکھتے تھے اور اہل ایمان کی جماعت کے اندرنہ ذات پات تھی اور نہ پیدائشی درجا ت اس انقلاب کی جڑ یں ایک ایسے مذہب میں جمی ہوئی تھیں جو کہ یہود کی مانند صرف دوسری زندگی سے تعلق نہیں رکھتا تھا بلکہ سب کچھ اپنے اندر سمیٹے
ہوئے تھا۔
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟