قسط نمبر : ۱۲
از محمد طیب معاذ
نماز عشاء کی فضیلت:
شریعت اسلامیہ میں نماز عشاء کو ایک خاص اوراہم مقام حاصل ہے اس کے بارے میں کافی احادیث وارد ہوئی ہیں جن میں نماز عشاء کی فضیلت اور اس کے ترک کرنے کی معصیت کا تذکرہ ملتا ہے ، ان میں سے چند ایک پیش خدمت ہیں ۔
۱۔ عن عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ قال سمعت رسول اللہ ﷺ یقول: مَن صَلَّی العِشَائَ فِی جَمَاعَۃٍفَکَاَنَّمَا قَامَ نِصفَ الَّلیل(صحیح مسلم)
ترجمہ: ’’ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ا کرم ﷺ سے سنا آپ نے ارشاد فرمایا جوشخص نماز عشاء باجماعت ادا کرتا ہے تو اس کو آدھی رات قیام کے بقدر ثواب ملتا رہتا ہے ‘‘
۲۔ عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ : إِنَّ أَثْقَلَ صَلَاۃٍ عَلَی الْمُنَافِقِینَ صَلَاۃُ الْعِشَاءِ وَصَلَاۃُ الْفَجْرِ وَلَوْ یَعْلَمُونَ مَا فِیہِمَا لَأَتَوْہُمَا وَلَوْ حَبْوًا(مسلم)
’’سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : منافقین پر نماز عشاء اور فجر کی حاضری بہت گراں گزرتی ہے اور اگر ان کو ان نمازوں کی قدروقیمت کا علم ہو جائے تو ان کی ادائیگی کیلئے رینگ کربھی آنا پڑ ے تو ضرور آئیں گے
‘‘
۳۔عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَدَ نَاسًا فِی بَعْضِ الصَّلَوَاتِ فَقَالَ لَقَدْ ہَمَمْتُ أَنْ آمُرَ رَجُلًا یُصَلِّی بِالنَّاسِ ثُمَّ أُخَالِفَ إِلَی رِجَالٍ یَتَخَلَّفُونَ عَنْہَا فَآمُرَ بِہِمْ فَیُحَرِّقُوا عَلَیْہِمْ بِحُزَمِ الْحَطَبِ بُیُوتَہُمْ وَلَوْ عَلِمَ أَحَدُہُمْ أَنَّہُ یَجِدُ عَظْمًا سَمِینًا لَشَہِدَہَا یَعْنِی صَلَاۃَ الْعِشَاءَ۔
(صحیح الترغیب والترہیب ، ج: ۱۔ ص:۲۰۹)
ترجمہ: ’’ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے محسوس کیا کہ بعض لوگ کچھ نمازوں میں حاضر نہیں ہورہے ہیں تو آپ نے ارشاد فرمایا: میرا ارادہ یہ ہے کہ میں کسی شخص کو امامت کا حکم دوں اور خود ان لوگوں کے پاس جاؤں جو
کہ نماز میں حاضر نہیں ہوئے تاکہ میں ان کے گھروں کو آگ لگا سکوں اگر ان لوگوں کو پتہ چل جائے کہ وہ اس نماز میں موٹی تازی ہڈی (مراد دنیاوی فائدہ)پائیں گے تو ضرور بالضرور اس نماز میں شریک ہوں ‘‘ شارحین حدیث نے اس حدیث میں مذکور
نمازسے مراد ’’نماز عشاء ‘‘لیا ہے
۴۔ ترجمہ: ’’ قبیلہ نخع کے ایک آدمی سے روایت ہے کہتے ہیں جب سیدنا ابو الدرداء کا آخری وقت قریب آیا تو انہوں نے کہا میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں جو کہ میں نے رسول معظم ﷺ سے سنی ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
۱۔ اللہ کی عبادت ایسے کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو اگر تم اسے دیکھ نہیں رہے تو وہ توکم از کم تمہیں دیکھ رہا ہے
۲۔ اپنے نفس کو موت کے لئے تیار رکھو
۳۔ مظلوم کی بددعا سے بچوکیونکہ وہ قبول ہوتی ہے ۴۔ اور جو آدمی نماز عشاء اور فجر میں حاضر ہونے کی استطاعت رکھتا ہو تو اسے ضرور بالضرور ان نمازوں کی ادائیگی کے لیے مسجد میں آنا چاہئے ‘‘
۵۔ عن ابن عمر رضی اللہ عنہما قال کنّا اذا فَقَدنَا الرَّجُلَ فِی الفَجرِ وَالعِشَاء أسَانَا بِہِ الظَّن۔ (ابن خزیمہ فی صحیحہ)
ترجمہ: ’’ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ہم نماز فجر وعشاء میں کسی آدمی کو غائب پاتے تو اس کے متعلق برا(نفاق کا) گمان کرتے تھے ‘‘
یعنی سلف صالحین کے نزدیک نماز فجرو عشاء سے غفلت برتنے والے کا شمار منافقوں میں ہوتا ہے ۔
وقت عشاء:
نماز عشاء کے ابتدائی وقت میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس کی ابتداء سرخی کے غائب ہوتے ہی ہو جاتی ہے مگر کیا نماز عشاء کا وقت ایک تہائی رات تک ہے یا نماز فجر تک ، اس مسئلہ میں فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے جس کا خلاصہ پیش خدمت ہے :
القول الاول: نماز عشاء کا وقت ثلث اللیل (ایک تہائی حصہ)تک رہتا ہے ۔
دلیل: جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ ﷺ کو اوقات نماز بتانے کیلئے دودن نماز پڑ ھائی دوسرے دن نماز عشاء ثلث اللیل کے وقت پڑ ھائی ۔
القول الثانی: نماز عشاء کاوقت آدھی رات تک رہتا ہے ۔
دلیل: عن عبد اللہ بن عمرأَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَال: وَوَقْتُ صَلَاۃِ الْعِشَاءِ إِلَی نِصْفِ اللَّیْلِ الْأَوْسَط۔ (مسلم)
ترجمہ: ’’رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: نماز عشاء کا وقت رات کے پہلے درمیانے نصف تک ہے ‘‘
۱۔عن انس رضی اللہ عنہ قال ا أَخَّرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَاۃَ الْعِشَاءِ إِلَی نِصْفِ اللَّیْلِ ۔ (صحیح بخاری، ۹۶۶ )
ترجمہ :سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے نماز عشاء کو آدھی رات کے وقت ادا کیا ۔
۲۔کَتَبَ عُمَر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ الی ابی موسی الاشعری أَنْ صَلِّ الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ بَیْضَاء ُ نَقِیَّۃٌ قَدْرَ مَا یَسِیرُ الرَّاکِبُ ثَلَاثَۃَ فَرَاسِخَ وَأَنْ صَلِّ الْعِشَاءَ مَا بَیْنَکَ وَبَیْنَ ثُلُثِ اللَّیْلِ فَإِنْ أَخَّرْتَ فَإِلَی شَطْرِ اللَّیْلِ وَلَا تَکُنْ مِنَ الْغَافِلِینَ(اخرجہ مالک بحوالہ تمام المنۃ)
ترجمہ: ’’سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ نماز عشاء کو ثلث اللیل تک(ایک تہائی رات ) ادا کر لیا کرو اور اگر کبھی اس کو تاخیر کرنا پڑ ے تو زیادہ سے زیادہ آدھی رات تک مؤخر کرو اور غفلت نہ برتو‘‘
القول الثالث: نماز عشاء کا وقت صبح صادق کے طلوع ہونے تک رہتا ہے ۔
دلیل:عن ابی قتادۃ مرفوعا : اِنَّمَا التَّفرِیطَُعلیَمنلم یُصَلِّ حَتّیٰ یَجِیء وَقتُ الصَّلَاۃِ الاُخرَی ۔ (اخرجہ البخاری)
’’ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: گناہ تو اس آدمی پر ہے جو نماز کو چھوڑ تا ہے یہاں تک کہ دوسری نماز کا وقت ہو جاتا ہے ‘‘
وجہ الاستدلال: یعنی کہ جب تک دوسری نماز کا وقت نہ آئے اس وقت تک پہلی نماز چھوڑ نے والا گناہ گار نہیں ہوتا اس لیے وہ عشاء کی نماز فجر سے پہلے پہلے ادا کر لے تو صحیح ہے ۔
خلاصہ: نماز عشاء کو وقت داخل ہونے کے فوراًبعد ادا کرنا اختیار ی وقت ہے جبکہ نمازیوں کی سہولت کو پیش نظر رکھ کر تاخیر سے ادا کرنا افضل اور زیادہ قرب کا باعث ہے ۔ جبکہ اس کو طلوع فجر تک مؤخر کرنا اضطراری (مجبوری)وقت ہے ۔ (الموسوعۃ
الفقہیۃ)
دلیل: ۱۔ عن جابر رضی اللہ عنہ قال :وَالْعِشَاءَ وَأَحْیَانًا إِذَا رَآہُمُ اجْتَمَعُوا عَجَّلَ وَإِذَا رَآہُمْ أَبْطَوْا أَخَّر۔
(بخاری۵۲۷ ، مسلم ، تیسیر العلام)
ترجمہ: سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ ﷺ نماز عشاء کبھی جلد ی (اول وقت میں ) پڑ ھ لیتے اور کبھی تاخیر سے (عموما نصف اللیل کے قریب) اس کی صورت یہ ہوتی کہ آپ ﷺ دیکھتے کہ نمازی جمع ہو چکے ہیں تو جلد پڑ ھا دیتے اور اگر دیکھتے
کہ نمازی دیر سے آتے تو تاخیر کر دیتے ۔
۲۔عن ابی موسی رضی اللہ عنہ قال : کُنْتُ أَنَا وَأَصْحَابِی الَّذِینَ قَدِمُوا مَعِی فِی السَّفِینَۃِ نُزُولًا فِی بَقِیعِ بُطْحَانَ وَالنَّبِیُّ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِینَۃِ فَکَانَ یَتَنَاوَبُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِنْدَ صَلَاۃِ الْعِشَاءِ کُلَّ لَیْلَۃٍ نَفَرٌ مِنْہُمْ فَوَافَقْنَا النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَا وَأَصْحَابِی وَلَہُ بَعْضُ الشُّغْلِ فِی بَعْضِ
أَمْرِہِ فَأَعْتَمَ بِالصَّلَاۃِ حَتَّی ابْہَارَّ اللَّیْلُ ثُمَّ خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہم عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَصَلَّی بِہِمْ فَلَمَّا قَضَی صَلَاتَہُ قَالَ لِمَنْ حَضَرَہُ عَلَی رِسْلِکُمْ أَبْشِرُوا إِنَّ مِنْ نِعْمَۃِ اللَّہِ عَلَیْکُمْ أَنَّہُ لَیْسَ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ یُصَلِّی ہَذِہِ السَّاعَۃَ غَیْرُکُمْ أَوْ قَالَ مَا صَلَّی ہَذِہِ السَّاعَۃَ أَحَدٌ غَیْرُکُمْ لَا یَدْرِی أَیَّ الْکَلِمَتَیْنِ قَالَ قَالَ أَبُو مُوسَی فَرَجَعْنَا
فَفَرِحْنَا بِمَا سَمِعْنَا مِنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
(سلسلۃ احادیث الصحیحۃ ، ج: ۱)
ترجمہ: ’’ سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور کشتی میں میرے ساتھ آنے والے ساتھیوں نے وادی بقیع بطحان میں پڑ اؤ ڈالا ہوا تھا اور نبی کریم ﷺ مدینہ میں فروکش تھے ہم میں سے کچھ لوگ باری باری ہر روز آپ ﷺ کے ساتھ نماز عشاء ادا
کرنے کے لیے آپ کے پاس آتے تھے جس دن میں اور میرے ساتھی آپ ﷺ کے پاس آئے تو آپ ﷺ کسی کام میں مصروف تھے اس لیے نماز عشاء کو مؤخر کرتے رہے یہاں تک کہ (تقریبا) نصف رات گزر گئی (بالآخر ) نبی ا کرم ﷺ تشریف لائے
نماز پڑ ھائی اور فارغ ہونے کے بعد حاضرین سے فرمایا: ذرا ٹھہرو ! خوش ہو جاؤ اللہ تعالیٰ نے تم پر انعام کیا ہے تمہارے علاوہ کوئی فرد ایسا نہیں ہے جو اس گھڑ ی میں نماز پڑ ھ رہا ہو ۔ ۔ یا فرمایا: تمہارے علاوہ کسی نے بھی یہ نماز (اس وقت میں )نہیں پڑ ھی ۔
سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا : رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان سن کر ہم خوشی خوشی گھر لوٹے ‘‘
نماز عشاء میں قراء ت:
رسول اللہ ﷺ نماز عشاء میں طویل قراء ت کو ناپسند کرتے تھے آپ ﷺسے نماز عشاء میں منقول قرأت کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے :
۱۔ پہلی دو رکعتوں میں اوساط مفصل سورتوں میں سے تلاوت کرتے تھے ۔ (نسائی بسند صحیح)
ب: سورۃ الضحیٰ (احمد ، حسنہ الترمذی)
ج: سورۃ انشقاق ۔
د: سورۃ التین، (دوران سفر آپ ﷺ نے پہلی رکعت میں یہ سورت تلاوت فرمائی (بخاری ، مسلم، ملخصا از صفۃ صلاۃ النبی ﷺ)
طویل قرأت سے اجتناب کرنا چاہیے بلکہ نمازیوں کی سہولت کے پیش نظر سورتوں کا انتخاب کریں جیسا کہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے قصہ میں مذکور ہے کہ انہوں نے لوگوں کو نماز عشاء کافی لمبی پڑ ھائی توایک دفعہ ایک انصاری شخص نے نماز توڑ دی
اور پھر تنہا نماز پڑ ھ لی سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو جب اس بات کا علم ہواتوانہوں نے فرمایا کہ وہ منافق ہے اس پر انصاری صحابی کوجب اس بات کا پتہ چلا تو اس نے رسول اللہ ﷺ کو معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے سیدنا معاذ
رضی اللہ عنہ سے کہا (اَفَتَّانٌ اَنتَ یَا مَعَاذ)’’ کیاتم فتنہ انگیزی چاہتے ہو ؟‘‘ جب لوگوں کو نماز پڑ ھاؤ تو سورۃ الشمس یا سورۃ الاعلیٰ یا سورۃ العلق اور سورۃ اللیل پڑ ھا کرو کیونکہ تمہارے پیچھے نماز میں بوڑ ھے ، کمزور اور ضرور ت مند سبھی ہوتے ہیں ۔
(بخاری ، مسلم، کتاب الاذان ، ۶۶۴)
نماز عشاء میں تعداد رکعات:
نماز عشاء کی رکعات کی تعداد میں ہمارے ہاں بہت زیادہ افراط پایا جاتا ہے ، ذیل میں ہم صحیح فقہ السنۃسے خلاصہ پیش کرتے ہیں ۔
حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما میں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز عشاء کے بعد دو رکعتیں ادا کرتے تھے جبکہ عمومی روایات (بین کل الاذانین صلاۃ) کے تحت نماز عشاء سے پہلے دو رکعتیں ہیں ۔
مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ رقم طراز ہیں :
اس سے معلوم ہوا کہ عشاء کی وہ نماز جو نبی ﷺ نے پڑ ھی اور جسے صحابہ کرام نے امت کے لیے بیان فرمایا وہ صرف چارفرض ہیں اور اس کے بعد دوسنتیں ہیں ، وتر کا بیان اس لئے نہیں ہے کہ آپ ﷺ نماز تہجد کے ساتھ ادا فرماتے تھے تاہم تین وتر شامل
کر کے یہ نو (۹) رکعتیں بنتی ہیں ۔’’ یار لوگوں ‘‘ نے عشاء کی سترہ (۱۷) رکعتیں بنائی ہوئی ہیں جس کے تصور سے ہی لوگ گھبراتے ہیں اور نماز کے قریب نہیں جاتے اگر لوگوں کو سنت نبوی ﷺ کے مطابق عشاء کی نو رکعتیں بتلائی جائیں تو وہ کبھی نماز
سے بالخصوص عشاء کی نماز سے وحشت نہ کھائیں ۔
(شرح ریاض الصالحین ، ج:۲، ص:۸۴)
بعد از نماز عشاء :
نماز عشاء کے فورا بعد سو جانا چاہیے کیونکہ نماز عشاء کے بعد فضول گفتگو اور لا یعنی امور میں مشغول رہنا رسول ا کرم ﷺ کو سخت ناپسند تھا
عَنْ أَبِی بَرْزَۃَ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَکْرَہُ النَّوْمَ قَبْلَ الْعِشَاءِ وَالْحَدِیثَ بَعْدَہَا۔
سیدنا ابو برزہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عشاء کی نماز سے پہلے سونے کو اور عشاء کی نماز کے بعد گفتگو کو ناپسند فرماتے تھے ۔
لیکن اگرامت کے عمومی فوائد کے لیے جاگنا پڑ ے تو اس کی گنجائش شریعت نے عطا کی ہے ۔
(جاری ہے )
از محمد طیب معاذ
نماز عشاء کی فضیلت:
شریعت اسلامیہ میں نماز عشاء کو ایک خاص اوراہم مقام حاصل ہے اس کے بارے میں کافی احادیث وارد ہوئی ہیں جن میں نماز عشاء کی فضیلت اور اس کے ترک کرنے کی معصیت کا تذکرہ ملتا ہے ، ان میں سے چند ایک پیش خدمت ہیں ۔
۱۔ عن عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ قال سمعت رسول اللہ ﷺ یقول: مَن صَلَّی العِشَائَ فِی جَمَاعَۃٍفَکَاَنَّمَا قَامَ نِصفَ الَّلیل(صحیح مسلم)
ترجمہ: ’’ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ا کرم ﷺ سے سنا آپ نے ارشاد فرمایا جوشخص نماز عشاء باجماعت ادا کرتا ہے تو اس کو آدھی رات قیام کے بقدر ثواب ملتا رہتا ہے ‘‘
۲۔ عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ : إِنَّ أَثْقَلَ صَلَاۃٍ عَلَی الْمُنَافِقِینَ صَلَاۃُ الْعِشَاءِ وَصَلَاۃُ الْفَجْرِ وَلَوْ یَعْلَمُونَ مَا فِیہِمَا لَأَتَوْہُمَا وَلَوْ حَبْوًا(مسلم)
’’سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : منافقین پر نماز عشاء اور فجر کی حاضری بہت گراں گزرتی ہے اور اگر ان کو ان نمازوں کی قدروقیمت کا علم ہو جائے تو ان کی ادائیگی کیلئے رینگ کربھی آنا پڑ ے تو ضرور آئیں گے
‘‘
۳۔عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَدَ نَاسًا فِی بَعْضِ الصَّلَوَاتِ فَقَالَ لَقَدْ ہَمَمْتُ أَنْ آمُرَ رَجُلًا یُصَلِّی بِالنَّاسِ ثُمَّ أُخَالِفَ إِلَی رِجَالٍ یَتَخَلَّفُونَ عَنْہَا فَآمُرَ بِہِمْ فَیُحَرِّقُوا عَلَیْہِمْ بِحُزَمِ الْحَطَبِ بُیُوتَہُمْ وَلَوْ عَلِمَ أَحَدُہُمْ أَنَّہُ یَجِدُ عَظْمًا سَمِینًا لَشَہِدَہَا یَعْنِی صَلَاۃَ الْعِشَاءَ۔
(صحیح الترغیب والترہیب ، ج: ۱۔ ص:۲۰۹)
ترجمہ: ’’ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے محسوس کیا کہ بعض لوگ کچھ نمازوں میں حاضر نہیں ہورہے ہیں تو آپ نے ارشاد فرمایا: میرا ارادہ یہ ہے کہ میں کسی شخص کو امامت کا حکم دوں اور خود ان لوگوں کے پاس جاؤں جو
کہ نماز میں حاضر نہیں ہوئے تاکہ میں ان کے گھروں کو آگ لگا سکوں اگر ان لوگوں کو پتہ چل جائے کہ وہ اس نماز میں موٹی تازی ہڈی (مراد دنیاوی فائدہ)پائیں گے تو ضرور بالضرور اس نماز میں شریک ہوں ‘‘ شارحین حدیث نے اس حدیث میں مذکور
نمازسے مراد ’’نماز عشاء ‘‘لیا ہے
۴۔ ترجمہ: ’’ قبیلہ نخع کے ایک آدمی سے روایت ہے کہتے ہیں جب سیدنا ابو الدرداء کا آخری وقت قریب آیا تو انہوں نے کہا میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں جو کہ میں نے رسول معظم ﷺ سے سنی ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
۱۔ اللہ کی عبادت ایسے کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو اگر تم اسے دیکھ نہیں رہے تو وہ توکم از کم تمہیں دیکھ رہا ہے
۲۔ اپنے نفس کو موت کے لئے تیار رکھو
۳۔ مظلوم کی بددعا سے بچوکیونکہ وہ قبول ہوتی ہے ۴۔ اور جو آدمی نماز عشاء اور فجر میں حاضر ہونے کی استطاعت رکھتا ہو تو اسے ضرور بالضرور ان نمازوں کی ادائیگی کے لیے مسجد میں آنا چاہئے ‘‘
۵۔ عن ابن عمر رضی اللہ عنہما قال کنّا اذا فَقَدنَا الرَّجُلَ فِی الفَجرِ وَالعِشَاء أسَانَا بِہِ الظَّن۔ (ابن خزیمہ فی صحیحہ)
ترجمہ: ’’ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ہم نماز فجر وعشاء میں کسی آدمی کو غائب پاتے تو اس کے متعلق برا(نفاق کا) گمان کرتے تھے ‘‘
یعنی سلف صالحین کے نزدیک نماز فجرو عشاء سے غفلت برتنے والے کا شمار منافقوں میں ہوتا ہے ۔
وقت عشاء:
نماز عشاء کے ابتدائی وقت میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس کی ابتداء سرخی کے غائب ہوتے ہی ہو جاتی ہے مگر کیا نماز عشاء کا وقت ایک تہائی رات تک ہے یا نماز فجر تک ، اس مسئلہ میں فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے جس کا خلاصہ پیش خدمت ہے :
القول الاول: نماز عشاء کا وقت ثلث اللیل (ایک تہائی حصہ)تک رہتا ہے ۔
دلیل: جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ ﷺ کو اوقات نماز بتانے کیلئے دودن نماز پڑ ھائی دوسرے دن نماز عشاء ثلث اللیل کے وقت پڑ ھائی ۔
القول الثانی: نماز عشاء کاوقت آدھی رات تک رہتا ہے ۔
دلیل: عن عبد اللہ بن عمرأَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَال: وَوَقْتُ صَلَاۃِ الْعِشَاءِ إِلَی نِصْفِ اللَّیْلِ الْأَوْسَط۔ (مسلم)
ترجمہ: ’’رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: نماز عشاء کا وقت رات کے پہلے درمیانے نصف تک ہے ‘‘
۱۔عن انس رضی اللہ عنہ قال ا أَخَّرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَاۃَ الْعِشَاءِ إِلَی نِصْفِ اللَّیْلِ ۔ (صحیح بخاری، ۹۶۶ )
ترجمہ :سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے نماز عشاء کو آدھی رات کے وقت ادا کیا ۔
۲۔کَتَبَ عُمَر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ الی ابی موسی الاشعری أَنْ صَلِّ الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ بَیْضَاء ُ نَقِیَّۃٌ قَدْرَ مَا یَسِیرُ الرَّاکِبُ ثَلَاثَۃَ فَرَاسِخَ وَأَنْ صَلِّ الْعِشَاءَ مَا بَیْنَکَ وَبَیْنَ ثُلُثِ اللَّیْلِ فَإِنْ أَخَّرْتَ فَإِلَی شَطْرِ اللَّیْلِ وَلَا تَکُنْ مِنَ الْغَافِلِینَ(اخرجہ مالک بحوالہ تمام المنۃ)
ترجمہ: ’’سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ نماز عشاء کو ثلث اللیل تک(ایک تہائی رات ) ادا کر لیا کرو اور اگر کبھی اس کو تاخیر کرنا پڑ ے تو زیادہ سے زیادہ آدھی رات تک مؤخر کرو اور غفلت نہ برتو‘‘
القول الثالث: نماز عشاء کا وقت صبح صادق کے طلوع ہونے تک رہتا ہے ۔
دلیل:عن ابی قتادۃ مرفوعا : اِنَّمَا التَّفرِیطَُعلیَمنلم یُصَلِّ حَتّیٰ یَجِیء وَقتُ الصَّلَاۃِ الاُخرَی ۔ (اخرجہ البخاری)
’’ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: گناہ تو اس آدمی پر ہے جو نماز کو چھوڑ تا ہے یہاں تک کہ دوسری نماز کا وقت ہو جاتا ہے ‘‘
وجہ الاستدلال: یعنی کہ جب تک دوسری نماز کا وقت نہ آئے اس وقت تک پہلی نماز چھوڑ نے والا گناہ گار نہیں ہوتا اس لیے وہ عشاء کی نماز فجر سے پہلے پہلے ادا کر لے تو صحیح ہے ۔
خلاصہ: نماز عشاء کو وقت داخل ہونے کے فوراًبعد ادا کرنا اختیار ی وقت ہے جبکہ نمازیوں کی سہولت کو پیش نظر رکھ کر تاخیر سے ادا کرنا افضل اور زیادہ قرب کا باعث ہے ۔ جبکہ اس کو طلوع فجر تک مؤخر کرنا اضطراری (مجبوری)وقت ہے ۔ (الموسوعۃ
الفقہیۃ)
دلیل: ۱۔ عن جابر رضی اللہ عنہ قال :وَالْعِشَاءَ وَأَحْیَانًا إِذَا رَآہُمُ اجْتَمَعُوا عَجَّلَ وَإِذَا رَآہُمْ أَبْطَوْا أَخَّر۔
(بخاری۵۲۷ ، مسلم ، تیسیر العلام)
ترجمہ: سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ ﷺ نماز عشاء کبھی جلد ی (اول وقت میں ) پڑ ھ لیتے اور کبھی تاخیر سے (عموما نصف اللیل کے قریب) اس کی صورت یہ ہوتی کہ آپ ﷺ دیکھتے کہ نمازی جمع ہو چکے ہیں تو جلد پڑ ھا دیتے اور اگر دیکھتے
کہ نمازی دیر سے آتے تو تاخیر کر دیتے ۔
۲۔عن ابی موسی رضی اللہ عنہ قال : کُنْتُ أَنَا وَأَصْحَابِی الَّذِینَ قَدِمُوا مَعِی فِی السَّفِینَۃِ نُزُولًا فِی بَقِیعِ بُطْحَانَ وَالنَّبِیُّ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِینَۃِ فَکَانَ یَتَنَاوَبُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِنْدَ صَلَاۃِ الْعِشَاءِ کُلَّ لَیْلَۃٍ نَفَرٌ مِنْہُمْ فَوَافَقْنَا النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَا وَأَصْحَابِی وَلَہُ بَعْضُ الشُّغْلِ فِی بَعْضِ
أَمْرِہِ فَأَعْتَمَ بِالصَّلَاۃِ حَتَّی ابْہَارَّ اللَّیْلُ ثُمَّ خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہم عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَصَلَّی بِہِمْ فَلَمَّا قَضَی صَلَاتَہُ قَالَ لِمَنْ حَضَرَہُ عَلَی رِسْلِکُمْ أَبْشِرُوا إِنَّ مِنْ نِعْمَۃِ اللَّہِ عَلَیْکُمْ أَنَّہُ لَیْسَ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ یُصَلِّی ہَذِہِ السَّاعَۃَ غَیْرُکُمْ أَوْ قَالَ مَا صَلَّی ہَذِہِ السَّاعَۃَ أَحَدٌ غَیْرُکُمْ لَا یَدْرِی أَیَّ الْکَلِمَتَیْنِ قَالَ قَالَ أَبُو مُوسَی فَرَجَعْنَا
فَفَرِحْنَا بِمَا سَمِعْنَا مِنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
(سلسلۃ احادیث الصحیحۃ ، ج: ۱)
ترجمہ: ’’ سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور کشتی میں میرے ساتھ آنے والے ساتھیوں نے وادی بقیع بطحان میں پڑ اؤ ڈالا ہوا تھا اور نبی کریم ﷺ مدینہ میں فروکش تھے ہم میں سے کچھ لوگ باری باری ہر روز آپ ﷺ کے ساتھ نماز عشاء ادا
کرنے کے لیے آپ کے پاس آتے تھے جس دن میں اور میرے ساتھی آپ ﷺ کے پاس آئے تو آپ ﷺ کسی کام میں مصروف تھے اس لیے نماز عشاء کو مؤخر کرتے رہے یہاں تک کہ (تقریبا) نصف رات گزر گئی (بالآخر ) نبی ا کرم ﷺ تشریف لائے
نماز پڑ ھائی اور فارغ ہونے کے بعد حاضرین سے فرمایا: ذرا ٹھہرو ! خوش ہو جاؤ اللہ تعالیٰ نے تم پر انعام کیا ہے تمہارے علاوہ کوئی فرد ایسا نہیں ہے جو اس گھڑ ی میں نماز پڑ ھ رہا ہو ۔ ۔ یا فرمایا: تمہارے علاوہ کسی نے بھی یہ نماز (اس وقت میں )نہیں پڑ ھی ۔
سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا : رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان سن کر ہم خوشی خوشی گھر لوٹے ‘‘
نماز عشاء میں قراء ت:
رسول اللہ ﷺ نماز عشاء میں طویل قراء ت کو ناپسند کرتے تھے آپ ﷺسے نماز عشاء میں منقول قرأت کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے :
۱۔ پہلی دو رکعتوں میں اوساط مفصل سورتوں میں سے تلاوت کرتے تھے ۔ (نسائی بسند صحیح)
ب: سورۃ الضحیٰ (احمد ، حسنہ الترمذی)
ج: سورۃ انشقاق ۔
د: سورۃ التین، (دوران سفر آپ ﷺ نے پہلی رکعت میں یہ سورت تلاوت فرمائی (بخاری ، مسلم، ملخصا از صفۃ صلاۃ النبی ﷺ)
طویل قرأت سے اجتناب کرنا چاہیے بلکہ نمازیوں کی سہولت کے پیش نظر سورتوں کا انتخاب کریں جیسا کہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے قصہ میں مذکور ہے کہ انہوں نے لوگوں کو نماز عشاء کافی لمبی پڑ ھائی توایک دفعہ ایک انصاری شخص نے نماز توڑ دی
اور پھر تنہا نماز پڑ ھ لی سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو جب اس بات کا علم ہواتوانہوں نے فرمایا کہ وہ منافق ہے اس پر انصاری صحابی کوجب اس بات کا پتہ چلا تو اس نے رسول اللہ ﷺ کو معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے سیدنا معاذ
رضی اللہ عنہ سے کہا (اَفَتَّانٌ اَنتَ یَا مَعَاذ)’’ کیاتم فتنہ انگیزی چاہتے ہو ؟‘‘ جب لوگوں کو نماز پڑ ھاؤ تو سورۃ الشمس یا سورۃ الاعلیٰ یا سورۃ العلق اور سورۃ اللیل پڑ ھا کرو کیونکہ تمہارے پیچھے نماز میں بوڑ ھے ، کمزور اور ضرور ت مند سبھی ہوتے ہیں ۔
(بخاری ، مسلم، کتاب الاذان ، ۶۶۴)
نماز عشاء میں تعداد رکعات:
نماز عشاء کی رکعات کی تعداد میں ہمارے ہاں بہت زیادہ افراط پایا جاتا ہے ، ذیل میں ہم صحیح فقہ السنۃسے خلاصہ پیش کرتے ہیں ۔
حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما میں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز عشاء کے بعد دو رکعتیں ادا کرتے تھے جبکہ عمومی روایات (بین کل الاذانین صلاۃ) کے تحت نماز عشاء سے پہلے دو رکعتیں ہیں ۔
مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ رقم طراز ہیں :
اس سے معلوم ہوا کہ عشاء کی وہ نماز جو نبی ﷺ نے پڑ ھی اور جسے صحابہ کرام نے امت کے لیے بیان فرمایا وہ صرف چارفرض ہیں اور اس کے بعد دوسنتیں ہیں ، وتر کا بیان اس لئے نہیں ہے کہ آپ ﷺ نماز تہجد کے ساتھ ادا فرماتے تھے تاہم تین وتر شامل
کر کے یہ نو (۹) رکعتیں بنتی ہیں ۔’’ یار لوگوں ‘‘ نے عشاء کی سترہ (۱۷) رکعتیں بنائی ہوئی ہیں جس کے تصور سے ہی لوگ گھبراتے ہیں اور نماز کے قریب نہیں جاتے اگر لوگوں کو سنت نبوی ﷺ کے مطابق عشاء کی نو رکعتیں بتلائی جائیں تو وہ کبھی نماز
سے بالخصوص عشاء کی نماز سے وحشت نہ کھائیں ۔
(شرح ریاض الصالحین ، ج:۲، ص:۸۴)
بعد از نماز عشاء :
نماز عشاء کے فورا بعد سو جانا چاہیے کیونکہ نماز عشاء کے بعد فضول گفتگو اور لا یعنی امور میں مشغول رہنا رسول ا کرم ﷺ کو سخت ناپسند تھا
عَنْ أَبِی بَرْزَۃَ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَکْرَہُ النَّوْمَ قَبْلَ الْعِشَاءِ وَالْحَدِیثَ بَعْدَہَا۔
سیدنا ابو برزہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عشاء کی نماز سے پہلے سونے کو اور عشاء کی نماز کے بعد گفتگو کو ناپسند فرماتے تھے ۔
لیکن اگرامت کے عمومی فوائد کے لیے جاگنا پڑ ے تو اس کی گنجائش شریعت نے عطا کی ہے ۔
(جاری ہے )