Tuesday, March 2, 2010

تفسیر سورۂ نور

قسط نمبر ۴
ازالشیخ فیض الابرار
احکام قذف
قال تعالی : ﴿وَالَّذِینَ یَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ یَأْتُوا بِأَرْبَعَۃِ شُہَدَاءَ فَاجْلِدُوہُمْ ثَمَانِینَ جَلْدَۃً وَلَا تَقْبَلُوا لَہُمْ شَہَادَۃً أَبَدًا وَأُولَئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُونَ ٭ إِلَّا الَّذِینَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَلِکَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَحِیمٌ ﴾
(سورۃ النور۴۔۵)
ترجمہ : اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر چار گواہ نہ پیش کر سکیں تو انہیں اسی (۸۰)کوڑ ے لگاؤ اور کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرو یہ فاسق لوگ ہیں (۴)یا جو لوگ اس کے بعد توبہ اور اصلاح کر لیں تو اللہ بخشنے والا اور مہر بانی کرنے والا ہے (۵)
معانی الکلمات :
یرمون : لفظی معنی پھینکنا اور مارنا ہے اور الرمی کا مطلب پتھر پھینکنا اور اصلاحی طور پر چونکہ انسان اپنے کلمات کے ذریعے دوسرے پر تہمت لگاتا ہے اور جسم پر لگے گھاؤ زخم بھر جاتے ہیں لیکن روح پر لگے زخم نہیں بھرتے
المحصنات: الاحصان کسی چیز کی حفاظت کرنا اسے محفوظ رکھنا یہ اس لفظ کے بنیادی معنی ہیں عربی زبان میں اور قرآن کریم میں یہ لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے ۔ حصان اس عورت کو کہتے ہیں جو پاک دامن ہو اپنی عفت کو محفوظ رکھتی ہو (تاج راغب ،
محیط )
عورت کی پاک دامنی دو طریق سے ہوتی ہے ۔ ایک تو یہ کہ وہ غیرشادی شدہ ہو اور اپنی عفت کو محفوظ رکھے دوسرا یہ کہ وہ شادی کر کے صرف ایک کی ہو جائے اور اس طرح اس کی عصمت محفوظ ہو جائے ۔ اس اعتبار سے پاک دامن عورت کو محصَن بھی کہتے
ہیں اور محصِن بھی کہتے ہیں ۔ راغب نے لکھا ہے کہ محصِن حفاظت کرنے والی جب وہ غیر شادی شدہ حالت میں اپنی عفت کی حفاظت آپ کرے اور محصَن اس کو کہتے ہیں (جس کی حفاظت کی جائے )جب ا سکی عصمت کی حفاظت شادی کے ذریعے ہو جائے
چنانچہ المحصنت شادی شدہ عورتوں کو کہتے ہیں ۔
الفاسقون : فسق دائرہ حق سے باہر نکل جانا یعنی وہ شخص جو اطاعت رسالت سے باہر نکل جائے یعنی اطاعت نہ کرنے والا فاسق کہلاتا ہے .جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’ فاسقین وہ ہیں جو اللہ سے پختہ عہد باندھ کر اسے توڑ دیتے ہیں اور جس رشتے کو ملانے کا اللہ نے
حکم دیا ہے اسے کاٹ کاٹ کر ٹکڑ ے کر دیتے ہیں ‘‘
(سورۃ البقرۃ: ۲۷)
اور ظالمین ، کافرین ، احکام خداوندی کی مخالفت کرنے والا ، مجرمین ، فحش کلامی کرنے والا بھی فاسق ہے . مختصراًمؤمن اور فاسق ایک دوسرے کی ضد ہیں اسی بات کوالنابغہ الذبیانی نے یوں بیان کیا ہے ’’جرح اللسان کجرح الید‘‘ کہ زبان کا دیا گیا زخم ہاتھ کے
دیے گئے زخم کی طرح ہے .
المحصنا ت : پاک دامن، اپنے آپ کو اسلام ، زواج اور عفاف کے ذریعے محفوظ رکھنے والی .
شھداء: شاھد کی جمع گواہ اور یہ گواہ مرد ہونے چاہیئے اور آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ گواہ چونکہ مرد ہونے چاہیئے لہذا عورتوں کی گواہی یہاں قبول نہ ہو گی .
فاجلدوھم:کوڑ ے مارنا(وضاحت گزر چکی ہے )
الفاسقون : جمع فاسق نافرمان الفاسق وہ شخص جو اطاعت سے نکل گیا ہو اور برائی کے ارتکاب میں حد سے تجاوز کر گیا ہو .
تابوا :توبہ اللہ کی طرف رجوع کرنا .خلوص دل سے ندامت اور گناہ نہ کرنے کا ارادہ وغیرہ . تابوا : تاب ، یتوب ، توبا ، توبۃ ، متابا کے معنی ہیں واپس آنا
(تاج، راغب)
کسی غلط کام سے واپسی کو توبہ کہتے ہیں لیکن یہ واضح رہے کہ توبہ ایک عملی اقدام ہے جس سے کئے ہوئے غلط کام کا مداوا کیا جاتا ہو اور اس کے مضر اثرات کی تلافی کی جاتی ہے تاب عنہ اور تاب منہ کا مطلب ہے کہ اس نے اپنی غلطی کا احساس کر کے غلط روش کو
چھوڑ دیا اور صحیح راستہ کی طرف لوٹ آیا . غلطی کا احساس ، احساس کے بعد غلط روش سے اجتناب اور پھر صحیح روش کا اختیا ر کرنا یہ تینوں مراحل توبہ کے اندر شامل ہیں اور قرآن مجید میں آیا کہ ﴿اِنَّ الحَسَنَاتَ یُذھِبنَ السَّیِّئَات﴾ (سورۃ ھود:۱۱۴)’’یعنی
حسنات سیئات کو ختم اور دفع کر دیتی ہیں ‘‘ یعنی توبہ کے بعد صالح کام غلط کامو ں کے مداوا سے اورتدارک کے لئے معین ثابت ہوتے ہیں . توبہ سابقہ گنا ہوں پر ندامت کو کہتے ہیں .انابت مستقبل میں ترک معاصی کو کہتے ہیں . استغفار مغفرت اور بخشش کی
طلب کو کہتے ہیں یہ ضروری نہیں کہ صرف گنہگار ہی کرے بلکہ ؛یہ مسلمان و مومن پر فرض ہے
تفسیر و تشریح : بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ آیات حادثہ افک کے نتیجے میں نازل ہوئیں اور ان لوگوں پر نازل ہوئیں جنہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائی تھی . لیکن جس رائے پر اکثر مفسرین مجتمع ہیں وہ یہ ہے کہ یہ آیت صرف اسی سبب کی بناء
پر نازل نہیں ہوئی بلکہ یہ آیت عام ہے اور ہر تہمت لگانے والے کے بارے میں ہے
سابقہ آیات میں بد کاری کرنے والوں کا تذکرہ موجود ہے جیسا کہ سابقہ سطورپر گزرا ہے کہ اسلا م وہ واحد دین ہے جو کہ نہ صرف جرائم سے روکتا ہے بلکہ جرائم کی طرف جانے والے راستوں سے بھی روکتا ہے لہذا سب سے پہلے زنا کی حرمت اور قباحت اور تباہ
کاری کا ذکر کرنے کے بعد اب اس بات کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے کہ معاشرے میں ان نا جائز تعلقات کا تذکرہ بھی بند کرایا جائے کیونکہ ان تذکروں سے بھی بے شمار باتیں پھیلتی ہیں جن میں چغلی اور غیبت سر فہرست ہیں اور اس کے بعد لاشعوری طور پر
ایک ماحول اس قسم کا بن جاتا ہے اور جس سے معاشرے میں موجود افراد پر انتہائی غلط اثرات پڑ تے ہیں لہذا شریعت اسلامیہ اس برائی کا ابتدا میں ہی سد باب کرنا چاہتی ہے ایک طرف زنا کے ثابت ہونے پر سزا اور دوسری طرف پارسا اور نیک لوگوں پر تہمت
لگانے کی سزا بھی سنا دی ہے تاکہ آئندہ کوئی بھی اپنی زبان سے ایسی کوئی بات بلا ثبوت نہ نکالے اور وہ اس بات کا احساس کرے کہ اسلامی معاشرے میں کسی مسلمان کی عزت ، عصمت اور عفت کا کیا مقام ہے اور وہ اتنی معمولی چیز نہیں کہ جو چاہے جب چاہے
جہاں چاہے جسے چاہے کہ اس کو تباہ کر دے اور اس بارے میں ایک قاعدہ بتا دیا کہ اگر کوئی شخص ایسی کسی گندگی سے آگاہ ہوتا ہے اگر تو اس کے پاس مطلوبہ گواہیاں ہیں تو وہ معاملہ قوانین کے مطابق قاضی وقت کے پاس لے جائے ورنہ وہ مسئلہ وہیں چھوڑ دے
اور اس کو آگے نہ پھیلائے .
والذین یرمون المحصنات سے اس بات کی وضاحت ہو رہی ہے کہ یہ الزام کوئی معمولی نہیں ہے بلکہ کسی کی عزت کے خلاف ہے اور کسی کی طہارت اور پاکیزگی کے خلاف ہے اور کسی مسلمان کے پاس سب سے بڑ ی دولت اس کے کردار کی طہارت اور پاکیزگی
ہے اور اس کردار کی بناء پر اس کو دنیا میں امامت کا حق ملا ہے اور اگر وہی کردار باقی نہ رہے تو دعوت و تبلیغ کا سارا عمل بیکار ہو جائے گا اور ’’المحصنات‘‘یعنی پاک صاف عورتیں عورتوں کا تذکرہ اس لئے کیا گیا کہ افراد کی تربیت میں جتنا بڑ ا ہاتھ خواتین کا ہوتا ہے
اتنا مرد کا نہیں ہوتا بلکہ وہ تو تربیت کا حجر اساس ہے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے منسوب ایک قول ملتا ہے کہ تم مجھے ایک اچھی ماں دو میں تمھیں ایک اچھی نسل دوں گا لہذا کسی معاشرے کی تربیت کے حجر اساس پر ہم تہمت لگا کر اس کو تباہ و برباد کر دیں بالفاظ
دیگر ہم نے اس معاشرے میں ہر اچھائی پر اپنی انگلی اٹھا دی ہے کہ جب طہارت اور پاکیزگی ہی نہ ہو تو نہ تو تربیت ہو گی اور نہ ہی دعوت و تبلیغ ۔
لفظ’’ احصان‘‘ لغت میں کبھی عفت کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے کبھی حریت کبھی زواج کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے یہ حکم جس طرح پاک صاف عورتوں پر تہمت لگانے پر ہے اس طرح پاک صاف مردوں پر تہمت
لگانے پر بھی یہی سزا ہے . کیونکہ برائی ہر حا ل میں برائی ہے خواہ اس کا اظہار مردوں کی طرف ہو یا عورتوں کی طرف ہو .
عزت ، عفت ، عصمت سب کی یکساں ہوتی ہے اس میں مرد اور عورت کی کوئی تخصیص نہیں ہے اور یہ بات واضح رہے کہ یہ حکم صرف پاک صاف لوگوں پر تہمت لگانے کے بارے میں ہے غیر طاھر اور غیر پاک لوگوں کے لئے یہ کیفیت نہ ہو گی . ان کے
لئے قاضی وقت خود حالات کے مطابق سزا تجویز کرے گا ۔
اب تہمت لگانے والے کے لئے لازم ہے کہ اپنی اس تہمت پر چار گواہ بھی لیکر آئے جنھوں نے یہ بدکاری اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے سنی سنائی بات پر گواہی قبول نہیں ہے اور گواہ کے بارے میں شریعت اسلامیہ کا ایک معین معیار ہے جس کی وضاحت اپنے
مقام پر آئے گی . اب اگر کسی ایسی بدکاری پر چار گواہ میسر نہیں ہوتے تو دوسرے لفظوں میں اس شخص کو چاہیے کہ اس مسئلہ کو محفلوں اور مجلسوں میں نہ اچھا لے بلکہ بغرض اصلاح ان بد کاری کرنے والوں کو نصیحت بھی کرے تاکہ ’’من رای منکم منکر فلیغیرہ
بیدہ وان لم یستطع فبلسانہ وان لم یستطع فبقلبہ وذلک اضعف الایمان‘‘ کا فریضہ بھی پورا ہو جائے اور ہمارے ایک استاد شیخ عبد الرحمان السعدی (استاذ جامعہ اسلامیہ بالمدینہ المنورہ) اس بارے میں ایک عجیب اور خوبصورت بات بتاتے ہیں کہ ’’اس گناہ اور بد کاری
پر چار گوا ہوں کا میسر نہ ہونا اس بات کی دلالت ہے کہ اللہ تعالی ابھی ان کو سنبھلنے کا ایک موقع اور دے رہا ہے اور اللہ تعالی ان کے اس جرم پر پردہ ڈال رہا ہے لہذا ان کو چاہیے اس مہلت سے فائدہ اٹھائیں اور اپنی اصلاح کر لیں . (جاری ہے )
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟